نفاذ اُردوکا عوام پر احسان! 144

مفاہمت کی غیر موثر آواز !

مفاہمت کی غیر موثر آواز !

تحریر:شاہد ندیم احمد
اپوزیشن کی احتجاجی سیاست جہاں مشکل حالات کا شکار ہے، وہیں پی ڈی ایم کی بقا ء پر بھی سوالا ت لگے ہوئے ہیں،تاہم پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں بجٹ کے دوران حکومت کو ٹف ٹائم دینے اور حکومت مخالف مظاہروں کا اعلان کردیا گیاہے، پی ڈی ایم نے حکومت کیخلاف احتجاجی جلسوں اور مظاہروں کا شیڈول بھی دیے دیا ہے، جس کے مطابق 4 جولائی سے ملک کے بڑے شہروں میں جلسے اورمظاہرے کیے جائیںگے ،اس کے ساتھ پی پی اور اے این پی کو دوبارہ پی ڈی ایم سے رجوع کیلئے بھی کہا جارہا ہے ،اس پر پیپلزپارٹی اور اے این پی کے رہنما ئوں کا کہنا ہے کہ ہم کسی کے ماتحت نہیں ہیں، صشوکاز نوٹس پر معافی مانگے بغیر رجوع نہیں کریںگے ۔
اگرچہ پیپلز پارٹی اور اے این پی کے قائدین نے اپوزیشن اتحاد سے علیحدہ حکمت عملی اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے، لیکن دوسری جانب متعدد امور پر وسیع تر تعاون کی بات بھی کی جارہی ہے، خاص طور سے جلد ہی قومی اسمبلی کے بجٹ سیشن میں تعاون کی امید ظاہر کی گئی ہے،پی ڈی ایم کی پریس کانفرنس میں بھی ایسے ہی اشارے سامنے آئے تھے،پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمان نے مستقبل میں احتجاجی جلسے کرنے کے شیڈول کا اعلان کیا تو ساتھ ہی بجٹ پر تمام پارلیمانی پارٹیوں کے درمیان ہم آہنگی و اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے سیمینار کے انعقاد کا اعلان بھی کردیاتھا، انہوں نے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو سیمینار منعقد کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، اس سیمینار کا مقصد بجٹ سیشن میں حکومتی تجاویز کی مخالفت کرنا اور متفقہ فارمولا تیار کرنا ہوگا۔
مولانا فضل الرحمان نے شہباز شریف کی قیادت میں بجٹ کے دوران اپوزیشن پارٹیوں کی مشترکہ حکمت عملی کے لئے سیمینار کے انعقاد کا اعلان کر کے جو اشارہ دیا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ شہباز شریف پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کے درمیان پل بنانے کی کوششوں میں ابھی تک مکمل طور سے ناکام نہیں ہوئے ہیں، پی ڈی ایم قیادت پیپلز

پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی واپسی کے لئے پرامید تو نہیں، لیکن اس نے غیر رسمی تعاون کا راستہ بند نہیں کیا ہے،بلاول بھٹو زرداری اور امیر حیدر ہوتی کے بیانات سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے کہ دونوں پارٹیاں اپوزیشن اتحاد میں دوبارہ شامل نہیں ہوں گی، لیکن باہمی تعاون اور اشتراک کے مختلف پہلوئوں پر غور کرنے پرضرور آمادہ ہیں۔
پی ڈی ایم قیادت ایک طرف پیپلزپارٹی،اے این پی کے حوالے سے لاپرواہی کے رویئے کا اظہار کررہی ہے تو دوسری جانب اتحاد قائم رکھنے کے راستے بھی کھلے رکھے ہوئے ہے ،تاکہ حکومت کو دبائو میں رکھا جاسکے ،اس پر وزیراعظم کا کہنا ہے کہ پی ڈ ی ایم اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی ،کیو نکہ اپوزیشن کا مقصد صرف ذاتی ہے، یہ لوگ چاہتے ہیں کہ حکومت کو بلیک میل کرکے کرپشن کیسز ختم کروائے جائیں، کیوں کہ انہوں نے کرپشن کرکے عوام کا پیسہ چوری کیا ہے، اگر ان کا مقصد اپنی ذات کی بجائے عوام ہوتے تو اب تک حکومت گراچکے ہوتے، پی ڈی ایم جتنی مرضی کوشش کرلے ،حکومت نہیں گرے گی ،البتہ پی ڈی ایم ضروربکھر جائے گی۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ حکومت گرانے کے چکر میں مولانا فضل الرحمن اور میاں نوازشریف سیاسی کی بجائے ذاتی مخاصمت کے دائرے میں داخل ہو چکے ہیں،دونوں ہی چاہتے ہیں کہ حکومت کا فوری خاتمہ ہوجائے ،اس کے لیے کسی بھی نوع کی قیمت ادا کرنے کو آمادہ نظر آتے ہیں،پیپلزپارٹی، اے این پی علاوہ دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی جمہوری عمل کا تسلسل چاہتی ہیں‘ جمہوری نظام کے درست کام نہ کرنے کی شکایت انہیں بھی ہے،

لیکن غیر آئینی انداز سے حکومت ہٹانے کے نتائج سے بخوبی آگاہ ہیں،مریم نواز مزاحمت سے مفاہمت کا راستہ نکالنا چاہتی ہیں ،جبکہ شہبازشریف ضمانت پر رہائی کے بعد معاملات کو سیاسی انداز میں چلانے کی کوشش کررہے ہیں، مگر انہیں اپنی ہی جماعت سے اختلاف کا سامنا ہے ،تاہم شہباز شریف کی مفاہمتی سرگرمیاں اور نواز شریف کی مسلسل خاموشی معنی خیز ضرور ہے۔
دراصل اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں اپنے مفادات کے حصول میںوکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کی کوشش کررہی ہیں،پی ڈی ایم پلیٹ فارم کوبھی اپنی ضرورت کے تحت استعمال کیا جارہا ہے ،اس حوالے سے پی ڈی ایم قیادت کو نظر ثانی کرنا ہو گی ، اگر کہیں ملکی مفادات کیخلاف کوئی چیز ہے تو اسے ختم کیا جانا چاہئے، حکومت کو بھی

تمام امور پر اپوزیشن کو اعتماد میں لینا چاہئے،اس وقت ملکی حالات کا تقاضا ہے کہ اپوزیشن اور حکومت مل کر ملک و قوم کی بہتری کیلئے اپنا اپناکردار ادا کریں، اپوزیشن بجٹ سے قبل ٹف ٹائم دینے کا اعلان کرے نہ احتجاجی جلسوں اور مظاہروں کا شیڈول دے ،بلکہ پارلیمنٹ کے اندر اپنا کردار ادا کرتے ہوئے بجٹ کو عوام دوست بنانے کیلئے تجاویز دے اور ان پر عملدرآمد کیلئے حکومت کو صائب مشورہ دے اور عوامی مسائل و معاشی صورتحال کے بارے میں آگاہ کرے ،مزاحمت سے مفاہمت کا راستہ کبھی نکلے گا ، اس کیلئے حکومت اور اپوزیشن کو ملکی مفاد میں ایک پلیٹ فارم پربیٹھنا ہو گا،ورنہ مزاحمت و مفاہمت کی آواز غیر موثر ہی رہے گی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں