خاموش پرندہ قسط نمبر 2 261

خاموش پرندہ قسط نمبر 2

خاموش پرندہ قسط نمبر 2

تحریر: حفضہ یوسف
سیالکوٹ

مسکان کا یہ کہنا ہی تھا کہ حمزہ حیران ہو گیا اور اوپر چھت پر چلا گیا۔رستم نے مسکان کو ڈانٹا کہ تم خاموش نہیں رہ سکتی تھی پھر دونوں اندر چلے گئے جب باپ بیٹی دونوں چھت پہ گے تو مسکان یہ دیکھ کر حیران ہوگئی کہ اس کے باپ نے ایک اور شادی کی ہوئی ہے۔
اس کے باپ نے اس کی ماں کی ماں (کرن) سے دوسری شادی کی ہوئی تھی جس کا علم کسی کو بھی نہ تھا۔
کرن اور رستم نے بھاگ کر شادی کی تھی۔رستم کی ایک بیٹی جو مسکان کی ہم عمر تھی. اور دو بیٹے تھے ایک حمزہ جو سولہ سال کا تھا اور ایک عمر جو دس سال کا تھا۔اس کی بیٹی عائزہ بہت چالاک تھی۔رستم کی بیوی سائرہ نے رستم سے پوچھا یہ لڑکی کون ہے؟
پہلے تو رستم چپ رہا پھر دو سے تین بار پوچھنے پر اس نے بتایا کہ یہ مسکان ہے اور یہ میری بیٹی ہے اور یہ ہمارے ساتھ رہے گی۔یہ سن کر سائرہ نے رونا شروع کر دیا اور مسکان کو باتیں سنانا شروع کر دی اور ساتھ ہی کرن کو بھی برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔یہ سن کر مسکان کو لگا کے اس کا باپ اس کی سوتیلی ماں کو کچھ کہے گا لیکن ایسا نہ ہوا اور رستم کمرے میں چلا گیا۔
ایک گھنٹے تک گھر میں یہی صورتحال رہی اور پھر گھر کا ماحول کچھ بہتر ہوا سائرہ نے کہا کہ اگر یہ لڑکی اس گھر میں رہے گی تو وہ اپنے بچوں کو لے کر اپنے ماں باپ کے ہاں چلی جائے گی۔یہ سن کر ستم پریشان ہوگیا اور سائرہ کو سمجھانے لگا کہ یہ معصوم بچی کو میں کہاں بھیجوں۔

لیکن سائرہ ماننے کا نام ہی نہ لے کچھ دن بعد سائرہ مان گی ۔لیکن اس کا رویہ مسکان کے ساتھ ٹھیک نہ تھا ۔وہ بات بات پر مسکان کو ڈانٹتی۔ اکثر ایسا ہوتا کہ وہ بچوں کو کھانا دیتی مگر مسکان کو نہ دیتی۔ جب بھی مسکان کھانا مانگتی تو اس کو کھانا دینے کی بجائے یہ کہتی خود بناؤ اور کھاؤ۔ مسکان نے تو آٹھ سال کی عمر میں ہی گھر کے کام سیکھ لیا ہے ۔لیکن عائزہ کو کوئی کام بھی نہیں آتا تھا۔مسکان پڑھائی میں بھی بہت لائق تھیں ۔ہمیشہ اس کی پڑھائی میں بھی نمبر عائزہ سے زیادہ آتے تھے۔
دونوں ایک ہی کلاس میں پڑھتی تھی۔ جب سائرہ نے یہ دیکھا کہ اس کی بیٹی کے مقابلے میں مسکان کے نمبر زیادہ آتے ہیں تو وہ بہت پریشان ہوئی۔ وہ مسکان کو آگے بڑھتا نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔
مسکان اگر سائرہ کو ماما کہتی تھی تو سائرہ اسے مارتی کے میں تمہاری ماں نہیں ہوں۔وہ میرے جیسی پاک دامن نہیں تھی۔ وہ گھر سے بھاگی ہوئی عورت تھی۔ اب وہ مر چکی ہے ۔خبردار اگر تم نے مجھے آئندہ ماں کہا ، میں تمہاری ماں نہیں ہوں۔اکثر مسکان نے اسی بات پر مار کھائی ۔لیکن ابھی مسکان نادان تھی۔ جب اس کے سامنے ماں کا لفظ استعمال کرتے تو اس کا بھی دل کرتا کہ وہ کسی کو ماں کہے۔
لیکن مسکان کے دل کی حالت کسی کو کیا پتا، شاید کوئی پتا بھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس میں معصوم مسکان کا کیا قصور ہے، اگر اس کی ماں اس دنیا سے چلی گئی تو۔ یہ قدرت کے فیصلے ہیں اس میں اس مسکان کا کیا عمل دخل ۔ وہ تو معصوم بچی ہے۔اس کو کون سمجھائے کہ یہ دنیا کتنی مطلب پرست ہے۔

جب سائرہ نے مسکان کو پڑھائی میں آگے بڑھتے دیکھا تو سائرہ نے اس بات کی ضد لگائی کہ مسکان کو اس اسکول سے ہٹا کر پاس ہی گورنمنٹ اسکول میں داخل کروایا جائے۔
لیکن مسکان کا باب اس بات پر راضی نہ ہوا کہ میری تینوں بچے اچھے اسکول میں جائیں اور میں اپنی مسکان کو کسی گورنمنٹ اسکول میں داخل کرواؤں۔
اور پھر اس سے ہمارا رشتہ دار اور محلے والے کیا سوچیں گے۔
جب بھی کوئی رشتےدار ان کے گھر آتا تو سائرہ، مسکان اور اس کی ماں کی مہمانوں کے سامنے برائیاں کرنے لگ جاتی تھی۔جس سے مسکان کو غصہ آتا تھا مگر کیا فائدہ وہ کرتی بھی تو کیا کرتی۔ اس کی ماں دنیا میں نہیں تھی۔ اس کا باپ اس سے پہلے جیسا پیار نہیں کرتا تھا ۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسکان اور اس کے باپ میں دوریاں پیدا ہوگئیں۔
اور چند ہی سالوں میں رستم مسکان سے نفرت کرنے لگا۔ اس کے بارے میں یہ رائے رکھنے لگا کہ یہ بھی اپنی ماں کی طرح گھر سے بھاگ جائے گی ۔اس کی شکل و صورت
بالکل اس کی ماں جیسی تھی اور عادتیں بھی۔
مسکان جب بڑی ہوئی تو وہ بالکل اپنی ماں جیسی لگتی تھی۔ وہی آنکھیں ،وہی چہرہ ،بالکل اپنی ماں کی طرح وہ خوبصورت بھی اپنی ماں جیسی تھی۔
جب مسکان نے میٹرک کا امتحان دیا تو اس کی سوتیلی ماں سائرہ نے کہنا شروع کر دیا کہ اب اس کی شادی کر دینی چاہیے۔لیکن مسکان کو پڑھنے کا بہت شوق تھا ۔ وہ بہت محنتی تھی اور دل لگا کر پڑھائی کرتی تھی۔

سائرہ نے یہ بات رستم سے کی تو رستم نے کوئی جواب نہ دیا۔ لیکن اب مسکان خاموش نہ رہی۔ ایک دن اسی سلسلے میں بات ہورہی تھی کہ مسکان نے اپنے باپ سے کہا کہ میں نے شادی نہیں کرنی مجھے ابھی آگے پڑھنا ہے۔
مسکان کی یہ بات سن کر سائرہ بولی کہ میں نے کہا تھا کہ یہ ایک نہ ایک دن اپنی اصلیت ضرور دکھائے گی آج اس نے یہ کام کر ہی دیا ہے۔ میں کہتی ہوں کہ اس کی شادی جلد از جلد کر دو۔ ورنہ یہ بھی اپنی ماں کی طرح گھر سے بھاگ جائے گی۔آخرکار خون کس کا ہے۔ یہ سن کر مسکان بولی میری ماں گھر سے بھاگی نہیں تھی، پاپا انہیں گھر سے بھگا کر لے گئے تھے ۔اس میں صرف میری ماں کا ہی نہیں بلکہ میرے باپ کا بھی قصور تھا۔
یہ کہنا ہی تھا کہ رستم نے مسکان کے منہ پر تھپڑ مار دیا اور کہنے لگا کہ سائرہ تم ٹھیک کہتی ہو اس کی جتنی جلدی ہو سکے شادی کر دینی چاہیے۔
اس کے بعد مسکان اپنے کمرے میں چلی گئی. اچانک فون کی گھنٹی بجی سائرہ نے فون اٹھایا اور کال سنی اور کہنے لگی کہ باجی شمع کل گھر آ رہی ہیں اور وہ کہہ رہی تھی کہ وہ کچھ دن یہاں رکیں گئی۔
صبح کو رستم نے مسکان سے کہا کہ باجی شمع (عائزہ کی خالہ) آرہی ہیں .اس لیے تم اپنا کمرہ فارغ کر دو .یہ سن کر مسکان بولی کہ پاپا میں اپنا کمرہ خالی کر کے خود کدھر جاؤں گی۔رستم نے جواب دیا تم آج سے چھت پر اسٹور روم میں رہو گی ۔مسکان نے انکار کرنا چاہا لیکن سائرہ نے معمول کے مطابق مسکان کو پھر غلط ثابت کرنا شروع کر دیا۔ جس پر مسکان کو بہت غصہ آیا اور وہ اپنا کمرہ خالی کر کے اسٹور روم میں چلی گئی۔

اسٹور روم چھت پہ تھا ۔اور گرمیوں کا موسم تھا۔ وہ کمرہ بہت گرم تھا۔جس کی وجہ سے مسکان نیچے آجاتی تھی۔ لیکن سائرہ کو یہ بات بھی ہضم نہ ہوتی وہ اس بات پر بھی مسکان کو ڈاٹنا شروع کر دیتی تھی کہ میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی لیکن تم ہمیشہ میرے سامنے آجاتی ہو۔نہ جانے مجھے کون سے گناہ کی سزا مل رہی ہے۔
لیکن سزا تو اصل میں مسکان کو مل رہی تھی ۔لیکن سچ میں مسکان کی کیا غلطی تھی۔ جس کو اتنی بڑی سزا مل رہی تھی ۔کیا اس نے کہا تھا کہ اس کو دنیا میں لایا جائے ۔لیکن سب لوگ تو صرف مسکان کو ہی کوستے اس میں اس کی کیا غلطی تھی۔
اس وجہ سے مسکان نے چھت پہ ہی رہنا شروع کر دیا تھا۔ خالہ تو اپنے گھر واپس چلی گئیں لیکن مسکان اپنے کمرے میں واپس نہ آ سکی۔ وہ تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہی جیسے چھت پہ رہ گئی۔ مسکان کا میٹرک کا رزلٹ آنے کے بعد سائرہ نے کالج داخلہ لینے پر بہت شروع کیا۔ لیکن رستم نے مسکان کا داخلہ گورنمنٹ کالج میں کروا دیا۔
مسکان جب کالج جاتی تھی وہ اپنے کمرے کی صفائی، چھت کی صفائی، اور اپنے لئے کھانا بنا کر جاتی تھی۔ لیکن عائزہ سوتیلی بہن کچھ نہ کرتی تھی۔ ایک دن مسکان کو کالج سے آ نے میں دیر ہو گئی تھی۔
سائرہ نے رستم کو الٹا سیدھا بھڑکایا ۔جب مسکان گھر آئی تو رستم نے مسکان سے پوچھا کہ تمہیں کالج سے آنے میں اتنی دیر کیوں ہو گئی۔
مسکان نے کہا کہ آج ہماری کالج میں ایکسٹرا کلاسیز تھیں۔ اس لیے مجھے گھر آنے میں دیر ہو گئی۔ یہ کہہ کر مسکان اپنے کمرے میں چلی گئی۔ لیکن کیا مسکان کے کمرے میں چلے جانے سے یہ بات ختم ہو گئی۔

نہیں ! معمول کے مطابق سائرہ نے رستم کو پھر بھڑکانہ شروع کر دیا۔لیکن رستم نے کچھ نہ کہا۔ ایک دن مسکان نے اپنے باپ سے کہا کہ مجھے کالج ٹرپ پہ جانے کی اجازت دے دیں۔

رستم نے مسکان کو انکار نہ کیا اور اس کو جانے کی اجازت دے دی ۔مسکان” ہاں” میں جواب سن کر بہت خوش ہوئی اور ساتھ حیران بھی بہت ہوئی کہ آج مجھے پاپا نے اجازت کیسے دے دی۔ میں تو پوچھنے سے بھی ڈر رہی تھی کیونکہ مجھے یقین تھا کہ پاپا مجھے کبھی بھی “ہاں” نہیں کہیں گے۔
لیکن آج یہ معجزہ کیسے ہو گیا۔تھوڑی دیر مسکان سوچتی رہی اور پھر اس نے مسکرانا شروع کر دیا.اور بولی دراصل پاپا اکیلے تھے آج ان کے ساتھ آنٹی سائرہ جو نہیں تھی۔ اس کا مطلب اگر مجھے کبھی بھی کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے اس وقت پاپا سے کہنا چاہیے جب وہ اکیلے ھوں تو ممکن ہے کہ مجھے “ہاں” میں ہی جواب ملے۔
مسکان نے کالج ٹرپ پر جانے کی تیاری کر لی اور صبح سویرے گھر سے روانہ ہو گئ۔ لیکن واپسی کا ٹائم جو مسکان نے اپنے باپ کو بتایا تھا۔وہ اس وقت پر نہ آئی ۔رستم نے بہت دیر تک انتظار کیا۔اور اس کے بعدرستم نے مسکان کو کال کرنا شروع دی۔لیکن مسکان کا نمبر سگنل نہ ہونے کی وجہ سے بند تھا اور رابطہ نا ممکن تھا۔جب مسکان گھر آئی تو اس کے باپ کو بہت غصہ تھا۔
کیونکہ اس نے جو وقت بتایا تھا مسکان اس کے مطابق پورے آٹھ دن لیٹ تھی۔ مسکان کے آنے سے پہلے سائرہ اپنا کام کر چکی تھی کہ مسکان کو اب ہم اپنے گھر میں نہیں رکھیں گے۔

اس کی ماں بھی گھر سے بھاگی ہوئی تھی اور مسکان بھی وہ خون ہے ۔وہ بھی آج گھر سے بھاگ گئی ہو گی یقیناً۔ میں اسے اب اپنے گھر میں نہیں رکھوں گی۔
میں اپنے بچوں کو خراب نہیں ہونے دوں گی۔ رستم کو بھی مسکان پر بہت غصہ آرہا تھا ۔ جب مسکان گھر واپس آئی تو رستم نے غصے سے مسکان سے پوچھا کہ تم لیٹ کیوں آئی ہو۔مسکان اس سے پہلے کچھ کہتی کہ سائرہ نے گرم لوہے پہ ہتھوڑا مار دیا اور پھر سے یہ ہی کہنا شروع کر دیا کہ اس کی ماں بھی گھر سے بھاگی تھی وغیرہ وغیرہ۔
رستم نے مسکان کا کالج جانا بند کر دیا۔ اور پھر ایک دو دن بعد مسکان سے کہنے لگا کہ میں تمہاری شادی کر کے لوگوں کے سامنے ذلیل نہیں ہو سکتا ۔ اسی لیے میں تمہیں تمہارے نانا کے گھر چھوڑ آؤں گا۔
مسکان نے نانا کا گھر دیکھنا تو دور کی بات کبھی کسی کے منہ سے ان کا ذکر تک نہ سنا تھا۔ اب وہ کرے تو کیا کرے۔ مسکان نے اپنے باپ سے معافی بھی مانگی لیکن وہ نہ مانا ۔اور اس کے گھر دیر سے آنے کی وجہ بھی نہ سنا چاہی۔ اور اسے اس کے نانا کے گھر چھوڑ آئے۔
نانا کے گھر کے سامنے مسکان تقریباً پندرہ منٹ تک کھڑی رہی۔ پھر اس نے دروازے پہ دستک دی۔ تقریباً آٹھ سال کا بچہ باہر آیا اس نے دروازہ کھولا۔ مسکان کچھ بولے بغیر اندر داخل ہو گئی اور صرف مسکان کو اس بات کی پریشانی تھی کہ اگر ان لوگوں نے مسکان کو گھر میں نہ رکھا تو وہ کہاں جائے گی۔
جب مسکان ہال میں گی تو سب لوگ مسکان کی طرف دیکھنے لگے ۔ سب کی نظریں مسکان پہ تھیں۔مسکان اور بھی زیادہ پریشان ہوگی کہ اب وہ کیا کرے۔ مسکان کو ہر کوئی حیرانگی کی نظر سے دیکھ رہا تھا۔
مسکان کی ممانی نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو؟
مسکان نے ابھی تک اپنے لب نہ کھولے تھے کہ پھر مسکان کی نانی نے بھی یہ ہی سوال دہرایا۔
مسکان بہت پریشان ہو گی کہ اگر میں نے سچ کہہ دیا تو کیا پتا یہ لوگ مجھے اپنے گھر میں پنا نہ دی، اور اگر ان لوگوں نے مجھے گھر میں پناہ نہ دی تو میں کدھر جاؤں گی۔میرا کیا بنے گا میرے پاس تو سر چھپانے کے لیے چھت بھی نہیں۔مسکان یہ سب سوچ ہی رہی تھی کہ مسکان سے پھر یہی سوال کیا گیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں