’’شاپر بیگ بیماریاں پھیلانے لگا؟‘‘
تحریر: اکرم عامر سرگودھا
فون: 03008600610
وٹس ایپ: 03063241100
الیکٹرانک میڈیا کو صرف لاہور، کراچی، کوئٹہ، اسلام آباد میں کچرے کے ڈھیر نظر آتے ہیں، لیکن میڈیا نے ملک کے دوسرے شہروں جو گندگی سے اٹے پڑے ہیں کو نظر انداز کر دیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ میڈیا کی نظر میں یہ شہر پاکستان نہیں کسی دوسرے ملک کے ہیں، یہ بات درست ہے کہ کراچی، کوئٹہ، اسلام آباد، لاہور زیادہ اہمیت کے حامل ہیں، کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے، جبکہ کوئٹہ میں بلوچستان اسمبلی اور لاہور میں پنجاب اسمبلی اور اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے دفاتر ہیں اور ان شہروں میں ارکان اسمبلی اور وزراء کا آنا جانا اور ٹھہرائو زرا زیادہ ہے،
لیکن دوسرے شہروں کو نظر انداز کرنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی ماں اپنے سوتیلے بیٹے سے ناروا سلوک روا رکھے، حکومت کو تمام شہروں کے باسیوں کو ایک ہی نظر سے دیکھنا چاہئے کیونکہ حکمران ہر شہر سے ووٹ حاصل کر کے اسمبلیوں تک پہنچتے ہیں، تو پھر صفائی، ستھرائی، صحت اور تعلیم کے ساتھ دیگر بنیادی سہولتوں میں چھوٹے شہروں سے امتیازی سلوک کیوں برتا جاتا ہے۔ میاں برادران کی حکومت تھی تو ترقیاتی کاموں کے حوالے سے
نوازشات کی برسات لاہور پر ہو رہی تھی، اب عثمان بزدار وزیر اعلی ہیں تو ترقیاتی کاموں کا جال ڈیرہ غازی خان یعنی کہ وزیر اعلی کے آبائی ضلع میں بچھ رہا ہے، جتنی گرانٹ ڈیرہ غازی خان کو دی گئی ہے اتنی اگر دیگر شہروں کو دی جاتی تو ان کی حالت بھی سدھر جاتی، اسلام آباد، لاہور، کوئٹہ، کراچی میں صفائی کا نظام زیادہ بہتر رکھنا شاید اس لئے بھی ضروری ہے کہ ان شہروں میں بیرونی ممالک کے وزراء اعظم، سفرائ، وزیر، مشیر آتے جاتے رہتے ہیں۔
لیکن حکومت کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام میں صفائی کو نصف ایمان قرار دیا گیا اور اشرف المخلوقات انسان کو ہر طرح سے ماحول کو پاک رکھنے کا کہا گیا تا کہ انسان ذہنی، جسمانی، اخلاقی، نفسیاتی طور پر خوش و خرم اور صحت مند نظر آئے۔ اسلام انسان کو پیدا ہونے سے جہان فانی سے کوچ کر جانے تک صاف ستھرا رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس میں جسم کی صفائی سے لے کر گلی، محلہ، چوک چوراہے، سڑکیں حتی کہ ہر وہ مقام جہاں وہ رہتا ہے کو صاف رکھنے کا کہا گیا ہے۔
انسان کیلئے اذیت کا موجب بننے والی گندگی، کانٹے، پتھر، مردہ جانور اور دیگر فضلہ جات اگر راستے میں ہوں تو انہیں ہٹا کر راستے کو پاک صاف رکھنا ایمان کی شاخ قرار دیا گیا ہے تا کہ انسان جہاں بھی رہ رہا ہو وہ مقام پاک رہے۔ اسلام کی تعلیم میں یہ بھی شامل ہے کہ شاہراہیں، راستے محفوظ اور ہموار بنائے جائیں، گلیوں، راستوں، سڑکوں پر رکاوٹ پیدا کر کے گزرنے والوں کو تنگ کرنے کے عمل کو نا پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔
جبکہ ہمسایوں کے حقوق کے تحفظ کا درس دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ اپنی عمارتوں کو ہمسائے کی عمارت سے اتنا اونچا نہ کرو کہ اس کی بے پردگی ہو اور اس کے گھر کی ہوا بند ہو جائے۔ حتی کہ گھر کے چولہے کا دھواں بھی ہمسائے کو تکلیف نہ دے، درختوں کو بے جا کاٹنے، عمارتوں، فصلوں، مویشیوں، چشموں، جانوروں،
پرندوں اور دیگر ایسی چیزوں جو انسان کو فائدہ پہنچا سکتی ہوں کو ضائع کرنے سے منع کیا گیا ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ کھڑے پانی میں گندگی ڈال کر اسے آلودہ نہ کرو، پانی کو صاف کر کے محفوظ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ غسل وضو اور زندگی کی دیگر آسائشوں کیلئے بھی ضرورت کے مطابق پانی استعمال کریں، پانی اور کھانے پینے کی دیگر اشیاء بے جا ضائع کرنے والوں سے آخرت میں حساب ہو گا۔
مگر ہم مسلمان ہونے کے باوجود اکثریت اس کے برعکس کام کر رہے ہیں، کراچی، لاہور، اسلام آباد، کوئٹہ کے علاوہ ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں صفائی کا نظام ابتر ہو چکا ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا جس بابت گاہے بگاہے نشاندہی بھی کرتا رہتا ہے مگر بشمول راقم قوم کی اکثریت شہروں، گلیوں، محلوں، چوکوں، پارکوں، سیر گاہوں حتی کہ ہر مقام پر تعفن پھیلا نے کی خود ذمہ دار ہے، کیونکہ ہم سگریٹ پی کر ٹوٹا، پان کھا کر تھوک جہاں دیکھتے ہیں
وہاں پھینک دیتے ہیں۔ گھروں، دکانوں، کارخانوں و دیگر مقامات پر پیدا ہونے والا کچرا جہاں جگہ ملے پھینک دیتے ہیں، اس طرح ہم سب معاشرے میں گندگی پھیلانے کے مرتکب ہو کر ’’مجرم‘‘ ہیں۔ جو دہشتگردی سے بھی بڑا جرم ہے، کیونکہ گندگی کے پھیلائو سے پیدا ہونے والی بیماریاں بھی انسانی جان کیلئے خطرہ ہیں، جبکہ بڑے چھوٹے شہروں میں مویشی پالنے والے حضرات بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ وہ مویشیوں کا فضلہ شہر سے باہر مختص جگہوں پر پھینکنے کی بجائے اندرون شہر چوک یا سڑک کنارے پھینک دیتے ہیں، یا پھر وہ کچرا گٹروں میں ڈال دیا جاتا ہے
جس سے اکثر شہروں میں سیوریج کا نظام تباہ ہو چکا ہے اور سیوریج سے نکلنے والا پانی انہی گوالوں، ان کے عزیز و اقارب اور شہریوں کو متاثر کر رہا ہے۔ مگر ہم ہیں کہ پھر بھی اس فعل مجرمانہ سے اجتناب نہیں کرتے۔ اور ایسا جرم بدستور کیے جا رہے ہیں۔
خوبصورت شہروں کے ماحول کو آلودہ کرنے میں شاپر بیگ کا بھی اہم کردار ہے کیونکہ ہمارے ملک میں اس کا استعمال دوسرے ملکوں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ ہم مارکیٹ سے 10 روپے کی چیز خریدیں یا 10 ہزار کی اسے منزل تک لے جانے کیلئے شاپر بیگ کا ہی سہارا لیتے ہیں اور پھر اپنی مطلوبہ چیز کو نکال کر اسی شاپر کو کھلے مقام پر پھینک دیتے ہیں۔ یا اس میں کچرا، فضلہ جات، گھروں، دکانوں و اداروں کا بچ جانے والے ناکارہ کچرا ان میں ڈال کر اسے سڑک کنارے پھینک دیتے ہیں۔ جو اڑ کر نالیوں اور گٹروں میں پہنچ کر صفائی ستھرائی کے نظام کو درہم برہم کر دیتا ہے۔ اور پھر بڑے چھوٹے شہروں کی گٹروں کی ڈی سلٹنگ پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔
چند سال قبل ملک میں شاپر بیگز کی تیاری اور اس کے استعمال پر حکومت کی طرف سے پابندی عائد کی گئی تھی مگر اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا اس طرح شاپر بیگ ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں بدستور آلودگی پھیلا رہا ہے۔ کچرا اٹھانے والے سڑکوں سے شاپر بیگ، پلاسٹک کا پرانا سامان بوتلیں وغیرہ اٹھا کر کباڑیوں کو فروخت کر دیتے ہیں ملک بھر کے سرکاری ہسپتالوں میں استعمال شدہ کچرا جس میں پلاسٹک کی بوتلیں، سرنجز اور دیگر سامان شامل ہوتا ہے کو تلف کرنے کیلئے پلانٹ صرف 15 فیصد ہسپتالوں میں نصب ہیں۔ جبکہ 85 فیصد چھوٹے بڑے
ہسپتالوں میں ویسٹ شدہ سامان ٹھکانے لگانے کا کوئی انتظام نہیں۔ ان ہسپتالوں کا عملہ ویسٹ شدہ اشیاء جس میں طرح طرح کی ادویات کے کیمیکل ہوتے ہیں کو اکٹھا کر کے کباڑ خانوں تک پہنچاتا اور اپنی جیب گرم کرتا ہے۔ پھر اسی ویسٹ شدہ سامان کو دوبارہ استعمال میں لا کر پلاسٹک کے برتن تیار کیے جاتے ہیں اور ان پلاسٹک کے برتنوں کا ملک میں کثرت سے استعمال ہو رہا ہے۔ پلاسٹک بیگ کے استعمال سے ماحولیاتی آلودگی، آبی آلودگی اور زمینوں کو نقصان ہو رہا ہے کیونکہ جس کھیت میں شاپر بیگ ملا کچرا ڈال دیا جائے تو اس کی زرخیزی ختم ہو جاتی ہے۔
اسی طرح چیک اینڈ بیلنس کے فقدان سے شاہرائوں پر چلنے والی گاڑیوں بالخصوص رکشائوں، بھٹہ خشت اور چھوٹے بڑے صنعتی اداروں سے اٹھنے والا دھواں معاشرے کو آلودہ کر کے سانس پھپھڑوں اور ٹی بی کے مریضوں میں اضافہ کررہاہے۔ جبکہ ملک بھر میں اکثر فیکٹریوں کا کیمیکل ملا پانی پائپوں کے ذریعے قریبی نہروں اور راجباہوں میں ڈال کر اسے زہر آلود کیا جا رہا ہے حکومتی پابندی کے باوجود شہروں کے قریب واقع زرعی رقبوں میں فصلیں بالخصوص سبزیاں جو کثرت سے استعمال ہوتی ہیں سیوریج کے گندے پانی سے سیراب کر کے عوام کو زہر کھلایا جا رہا ہے۔ لیکن حکومت کی جانب سے زہر کھلا کر لوگوں کو بیماریوں میں مبتلاء کرنے والوں کیخلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا رہی۔
ڈسٹرکٹ ٹیچنگ ہیڈ کوارٹر ہسپتال سرگودھا کے آئیسو لیشن وارڈ کے انچارج و سینئر چیسٹ فزیشن ڈاکٹر سکندر حیات وڑائچ کا کہنا ہے کہ لوگوں میں کینسر کا 65 فیصد مرض شاپر بیگ اور پلاسٹک کے برتن استعمال کرنے والوں میں پایا جاتا ہے،جبکہ فضائی آلودگی سے 75فیصد مریض دمہ، ٹی بی، سانس اور پھپھڑوں کی بیماریوں میں مبتلاء ہورہے ہیں، جبکہ سرگودھا کے سب سے بڑے کڑانہ ہل سیکٹر جس پر لاکھوں مزدور پتھر توڑنے کا کام کرتے ہیں پر آلودگی کم کرنے والے پلانٹ نہ لگائے جانے سے ٹی بی کے سالانہ سینکڑوں مریض صرف اس علاقہ سے نکل رہے ہیں، لیکن بار بار یادہانیوں کے باوجود حکومت نے اس بابت کوئی مثبت اقدام نہیں اٹھایا،
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ماحول کو آلودہ کرنے والے عناصر کو قانون کی گرفت میں لانے کیلئے مثبت اور ٹھوس اقدامات کرے۔ اور ایسے عناصر کی سزائوں میں اضافہ کیلئے قانون سازی کرے اور ایسا فعل کرنے والوں کیخلاف فوجداری مقدمات کا اندراج کرے، اس کے ساتھ قوم کا بھی فرض ہے کہ وہ اس سلسلہ میں حکومت سے تعاون کرے اپنے ارد گرد کے ماحول کو آلودہ کرنے کی بجائے اسے صاف رکھے، کھیلوں کے گرائونڈ آباد کرے
تو صحتمند معاشرہ تشکیل پائے گا اور پھر ہسپتال ویران ہونگے۔ حکومت کو چاہئے کہ شاپر بیگ پر لگائی جانے والی پابندی کے فیصلے پر بھی سختی سے عملدرآمد کروایا جائے، شاپر بیگ بنانے، بیچنے اور استعمال کرنے والوں کیخلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ ورنہ آنے والے وقت میں حکومت کو کینسر، دمہ، ٹی بی اور سانس کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر قابو پانا مشکل ہو گا۔