ترقیاتی فنڈز کے گرد گھومتی سیاست! 175

یہ محاذ آرائی کب ختم ہو گی !

یہ محاذ آرائی کب ختم ہو گی !

تحریر:شاہد ندیم احمد
سیاست میںاختلاف رائے جمہوریت کا حسن ضرور ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حکومت اور اپوزیشن، مرکز اور صوبوں کے درمیان دھواں دھار مخالفانہ بیان بازیوں، الزام تراشیوں کے سوا کچھ رہنے ہی نہ دیا جائے،مرکز اور صوبہ سندھ میں مختلف الخیال حکومتیں ہونے کی وجہ سے ہم آہنگی کا فقدان ہے، قومی ایشوز،اہم سیاسی امور اور ملکی معاملات پر سندھ حکومت کی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدوفاق سے اکثر الگ تھلگ ہی ہوتی ہے،

وفاق اور سندھ کی حکومتوں کے درمیان تین سال کی مدت میں چند روز بھی ایسے نہیں گزرے ہیں کہ جنہیں باہمی روابط کے اعتبار سے خوشگوار کہا جا سکے، جبکہ آج کل تووفاق اور سندھ کی معرکہ آرائی ساری حدیں پھلانگتی دکھائی دے رہی ہے۔
وفاق اور صوبوں کے درمیان اختلافات کوئی نئی بات نہیں ہے ، ماضی کی جمہوری حکومتوں میں بھی صوبے اور وفاق کئی بار آمنے سامنے رہے ہیں، کئی معاملات پر ہم آہنگی اور ایک پیج پر نہ ہونے کے باعث مشکلات کا بھی شکار رہے ہیں، کبھی یوں بھی ہوا کہ وفاق اور صوبوں کی چپقلش نے جمہوری نظام کو ہی چلتا کیا ہے،ایک بار پھر سیاسی اختلاف رائے کوذاتی اختلافات میں تبدیل کیا جارہا ہے ، کبھی گورنر راج تو کبھی حکومت گرانے کی بات کی جاتی ہے

جو جلتی آگ پر تیل کا کام کررہی ہے ، اس آگ کو بھڑکانے میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری بھی پیچھے نہیں رہے ہیں ،اُن کا کہنا ہے کہ ہر پانچ سال بعد ایک شخص کو ربڑ اسٹمپ کے طور پر سندھ کے وزیراعلیٰ ہائوس میں بٹھا دیا جاتا ہے،اس کی تاریں زرداری خاندان کے پاس ہوتی ہیں اور وہ اسے کٹھ پتلی کے طور پر استعمال کرتے ہیں، سید مرادعلی شاہ بھی ایک کٹھ پتلی وزیراعلی ہیں،جواباً سندھ کے وزراء نے بھی انہیں آڑے ہاتھوں لیا

اور مرکز کو سندھ حکومت کے خلاف سازش کا مرتکب قرار دیے رہے ہیں۔سندھ حکومت اور وفاقی وزراء عوامی مسائل کے تدارک کی بجائے سیاسی پو ائنٹ سکورنگ میں مصرف نظر آتے ہیں، وہ اس سے بے غرض ہیں کہ محاذ آرائی کے باعث صوبے میں خوشحالی و ترقی کے کام متاثر ہورہے ہیں، وفاق کے ذریعے مالی تعاون سے چلنے والے متعدد منصوبے پہلے ہی طویل عرصے سے تعطل کا شکارہیںاور اب ان پر جلد کام شروع ہونے کی توقع نہیں،

جبکہ پی ٹی آئی حکومت کا دعویٰ ہے کہ سندھ حکومت عوام پر خرچ کرنے کی بجائے فنڈز اثاثہ جات بنانے سے متعلق دیگر مقاصد میں استعمال کر لیے جاتے ہیں،اگر وفاق اور صوبے کو واقعی ایک دوسرے سے شکایت ہیں تو اس کے ازالے کے لیے مجاز فورم موجود ہیں ، سیاسی اختلاف رائے کو نفرت میں بدلنے کی کیا ضرورت ہے، سندھ کو وفاق کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے قومی پالیسیوں کے نفاذ میں مکمل تعاون کرنا چاہیے،

جبکہ وفاقی وزراء کو بھی چاہیے کہ کسی کو بے اختیار ہونے کے طعنے دینے کی بجائے حل طلب امور میں بھرپور معاونت کریں، تاکہ جمہوری نظام کسی روکاوٹ کے بغیر رواں دواں رہے اور عوامی مسائل بھی حل ہوتے رہیں،مگر دونوں کی ترجیح عوام کی بجائے ذاتیات ہیں۔
ہماری سیاسی قیادت نظریاتی سیاست کی بہت باتیں کرتے ہیں ،مگر خود کبھی عملی طور پر نظریاتی سیاست کے دائی نہیں رہے ہیں ، ہماری سیاست کا بنیادی نظریہی رہاہے کہ عوام کو دھوکے میں رکھو، انہیں وعدوں کے سبز باغ دکھا کر وقت گزارو، حکومت میں بڑی بڑی بڑھکیں مارو اور اپوزیشن میں عوام کو باور کراؤ کہ اگرہم اقتدار میں ہوتے تو تمہارے لئے آسمان سے تارے توڑ لاتے، سندھ میں پیپلزپارٹی اپنے طویل ترین اقتدار کے بعد بھی عوام کو بھوکا ننگا رکھے ہوئے ہے، پسماندگی کی آخری حدوں کو چھوتا ہوا سندھ پکار پکار کر کہہ رہا ہے

کہ اسے بُری طرح لوٹا گیا ہے،مگر خو احتسابی کی بجائے پیپلزپارٹی حکومت سندھ کی محرومیوں کا واویلا کرکے سندھ کارڈ کھیلنے میں لگی ہوئی ہے۔پیپلز پارٹی ماننے کیلئے تیار نہیں ہے کہ اس نے سندھ میں عوام کیلئے کچھ نہیں کیا ہے ،پیپلزپارٹی کل بھی روٹی ،کپڑا،مکان کا نعرا لگایا ،آج بھی وہی نعرا لگا رہی ہے ،مگر اس پر عملی جامہ پہنانے کی صورت دور دور تک نظر نہیں آتی ہے،کیا ہی اچھا ہوتا کہ پیپلزپارٹی بھٹو کے نعرے پر عمل کرتے ہوئے اپنے صوبے کے عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان دیتی، ہر طرف اس کی خوشحالی کے چرچے ہوتے،

پورے ملک میں اس کے نام کا ڈنکا بجتا، مگر اس کے برعکس سندھ حکومت وفاق سے محاذ آرائی میں مصروف ہے، سندھ کے عوام کیلئے توبھٹو آج بھی زندہ ہے، مگر بھٹو کا نام لینے والے عوام، بھوک، ننگ اور افلاس کے ہاتھوں بدترین زندگی گزار رہے ہیں، کھربوں روپے خرچ کرنے کی دعوئیدار سندھ حکومت کتے کاٹنے کی ویکسین تک صوبے میں مہیا نہیں کر سکی ،صوبے بھر میں دیگر عوامی اداروں کے حلوالے سے بھی صورت حال ناقابلِ بیان ہے،اس کے باوجودعوام آزمائے ہوؤں کو آزماتے رہے اور ان ہی کے گن گاتے رہے ہیں

لیکن انہیں ماسوائے جھوٹے وعدوں، سبز باغوں اور طفل تسلیوں کے کچھ نہیں ملا اور نہ آئندہ ملنے کی کوئی اُمید نطر ااتی ہے ، اس طرح بہت عرصہ بیت چکا اور صدیاں بیت جائیں گی ،مگر سندھ کی زندگی میںکوئی تبدیلی نہیں آئے گی،کیو نکہ تبدیلی لانے کے لئے سچائی اور عوام سے مخلص ہونے کی ضرورت ہوتی ہے،جبکہ یہاں تو محاذ آرئی کے علاوہ خلوص نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں