امریکہ دنیا قابو میں رکھنے کی خواہش بدلے !
کالم :صدائے سحر
تحریر:شاہد ندیم احمد
امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد جوبائیڈن انتظامیہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں پر نظر رکھنے اور ان کے خلاف ممکنہ کارروائیاں کرنے کے لیے ہمسایہ ممالک میں اڈے قائم کرنا چاہتی ہے،امریکہ کی جانب سے یہ بات کوئی پہلی دفعہ نہیں کی گئی،یہ بات کچھ عرصے کے دوران مختلف ذرائع سے متعدد مرتبہ کی جا چکی ہے
اور اپنے بیانات میں ایسے بے بنیاد تاثرات بھی ملا دیے گئے کہ پاکستان اس قسم کی کسی اجازت کے بارے غور کر رہا ہے ، پاکستان کی جانب سے متعلقہ فورمز پر پہلے بھی ان مفروضوں کو رد کیا جاتا رہاہے اور اب تو وزیر اعظم عمران خان نے ا مریکی ٹی وی چینل کے انٹرویو میں بذات خود امریکہ کو فوجی اڈے دینے کے معاملے کو دو ٹوک الفاظ میں رد کر دیا ہے، تاہم یہ مدِ نظر رہنا چاہیے کہ امریکہ افغانستان کے قریب ایسی کسی جگہ کی تلاش میں ہے، جہاں سے انخلا کے بعد بھی افغانستان پر نظر رکھ سکے،امریکہ کے لائحہ عمل سے واضح ہوتا ہے کہ وہ افغانستان سے نکلنے کے باوجود افغانستان کو چھوڑنے پر آمادہ نہیںاور افغانستان کی سرزمین چھوڑکربھی مداخلت جاری رکھے گا۔
امریکہ بیس برس افغانستان پر مسلط رہنے کے باوجود جن خطرات سے نمٹ نہیں سکا،اب سرحد پار سے کی جانے والی کارروائیوں سے کیونکر نمٹ سکے گا، امریکہ پہلے افغانستان کے اندر ناکام رہا ،اب بیرونی مداخلت میں بھی ناکام رہے گا، کیو نکہ افغان عوام امریکی مداخلت برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں، امریکہ کی باہر سے مداخلت اور کارروائی کے خطرات افغانستان میں پائیدار امن کے لیے بہت بڑا دھچکا ثابت ہو سکتے ہیں، اس سے افغانوں کو اپنے معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کا معاملہ بھی دائوپر لگ جائے گا اور وہ عالمی قوتیں جو امریکی مدِ مقابل ہیں ،ان کیلئے بھی افغانستان میں قدم رکھنے اور تعمیر نو کے کاموں میں حصہ لینے میں رکاوٹیں پیدا ہوں گی۔
امریکی انخلا کے وقت افغانستان کے انفراسٹرکچر کی حالت بہت زیادہ تباہ حال ہے، افغان جنگ پر امریکہ نے دو ہزار ارب ڈالر سے زائد اڑا دیے ہیں، مگر ان بیس برسوں میںافغانستان کے انفراسٹرکچر کے منصوبوں پرکوئی خاص رقم خرچ نہیں کی گئی ،بلکہ اس خطیر رقم کا بڑا حصہ امریکی ٹھیکے داروں کے کھاتوں سے ہوتا،ا واپس امریکہ ہی چلا گیا ہے،اس وقت جن حالات میں امریکہ افغانستان کو چھوڑ کر جانے والا ہے، اس ملک کو بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر اور انسانی ترقی کے منصوبوں کی اشد ضرورت ہے ،بصورت دیگر افغانستان ایک بار پھر تخریب اور تباہی کی انہی گہرائیوں میں جا گر ئے گا،جہاں پچھلی چار دہائیوں سے دھنساہوا ہے۔
پاکستان کو ایک ہمسایہ ہونے کے ناتے افغانستان کے حالات سے قدرتی طور پر تشویش لاحق ہے ،پا کستان خواہش رکھتاہے کہ غیرملکی افواج کے انخلا کے بعد اس ملک کو مخلص علاقائی طاقتوں کا تعاون حاصل ہو جائے، افغانستان میں صنعتیں لگیں‘ زراعت ترقی کرے اور افغان عوام معاشی طور پر مضبوط ہو جائے، مگر خطے میں قیام امن کی مخالف قوتوں افغانستان میں انتشار ہی رکھناچاہتی ہیں،اشرف غنی حکومت بھارتی سرکار کے اشاروں کی کٹ پتلی بنے پا کستان پر الزام تراشیاں کرتے رہتے ہیں، اگرامریکہ کے بدلتے رویئے سے بھارتی سازشیں کا میاب ہو گئیں
تو افغانستان کی قسمت کے ساتھ کیا ہو گا‘ اس کا اندازہ ابھی سے لگانا مشکل نہیںہے، ایک ناکام انتشار زدہ ریاست پورے خطے کو تباہی کے دہانے پر لاسکتی ہے۔امریکی مداخلت کا نیا روپ افغانستان میں ترقی کے امکانات کیلئے خطرات کا سبب بننے کی پوری طاقت رکھتا ہے،امریکہ کی باہر بیٹھ کر افغانستان کے اندر نظر رکھنے کی حکمت عملی افغانستان کے مستقبل کو اپنی مرضی کے تابع رکھنے کی منصوبہ بندی ہے اور یہ بالائی مداخلت کبھی خطے میں اطمینان کا سبب نہیں بن سکتی، یہ زمینی مداخلت سے زیادہ گھنائونی
حکمت عملی ہے،
جس میں خیر کا کوئی شائبہ نہیں ہو سکتا ہے۔ یہ حکمت عملی افغانستان کے معاملے میں علاقائی طاقتوں کی مدد اور تعاون کی حکمت عملی کے برعکس ہے، اس کی علاقائی سطح پر بھی بھرپور مذمت اور مخالفت ہونی چاہیے ،پاکستان کی جانب سے دوٹوک الفاظ میںفوجی اڈے دینے کے امکان کو رد کر دینا بڑا ہی احسن اقدام ہے، اس سے جہاں اندرونی اور بیرونی سازشی عناصر کا پروپیگنڈہ بند ہوگا،وہیں افغانوں کا اعتماد بھی حاصل ہو گا۔
افغان طالبان پہلے ہی ہمسایہ ممالک سے اپیل کر چکے ہیں کہ کسی کو بھی ایسا کرنے کی اجازت نہ دی جائے ،اگر دوبارہ ایسا قدم اٹھایا گیا تو یہ ایک تاریخی غلطی ہو گی،حالات کی خرابی کے بارے میں افغان طالبان کی دھمکی کو بھی اس امکان کی روشنی میں پرکھنے کی ضرورت ہے کہ اس قسم کے کسی منصوبہ میں پاکستان کی شمولیت کی سب سے بھاری قیمت پاکستان کو ہی ادا کرنا پڑے گی،اس صورتحال میں ضروری ہے کہ امریکہ بیس برس بعد افغانستان چھوڑنا چاہتا ہے
تو یہ انخلا خطے کے لیے امن اور سلامتی کا سبب بننا چاہیے نہ کہ یہ مزید تباہی کا پیش خیمہ بنے، دنیا پچھلے بیس برسوں میں بہت بڑی تبدیلیوں سے گزر چکی ہے، اب اقوام اور ممالک کے رابطے وتعلقات کی نوعیت پہلے جیسی نہیں رہی ہے،اس تنا ظر میں امریکہ کو بھی اب دنیا قابو میں رکھنے کی خواہش بدلناہو گی۔