رنگِ نوا 185

تشکیلِ نصاب/ایمبلم اور فکرِ اقبالؒ

تشکیلِ نصاب/ایمبلم اور فکرِ اقبالؒ

تحریر نویدملک

نصاب نصبہ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے نصب کرنا، لگانا، پیوست کرنا وغیرہ۔اس کے وسیع معنی معیار، کسوٹی وغیرہ ہیں۔یعنی نصاب کیآئنے میں انسان اپنی صلاحیتوں کا نہ صرف بہتر انداز میں جائزہ لے سکتا ہے بلکہ اُن کمیوں کو بھی دور کر سکتا ہے جو اُس کی شخصیت میں کہیں نہ کہیں موجود ہیں۔اچھا نصاب عملی زندگی میں فرد کو ربطِ ملت کے تمام مدارج طے کرنے کے قابل بنا کر تسخیرِ کائنات کے آفاقی تصور کو اجاگر کرتا ہے۔

مدرسے کا ماحول، اساتذہ کے رویے، طلبہ و طالبات کے رجحانات اور درسی کتابیں نصابِ تعلیم کے وہ عناصر ہیں جو تعمیرِ فکر اور تشکیلِ معاشرہ کے لیے نسلِ نو کی ذہنی آبیاری کرتے ہیں۔حکیم الامتؒ ایک طرف عقل کو باطل نظریات کے زندان سے آزاد کرنے کے قائل ہیں تو دوسری طرف ایسی آزادی کو یکسر رد بھی کرتے ہیں جو اذہان کو بنیادی اقدار اور روایات سے منحرف کر دیتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آپؒ کے فلسفہ ء تعلیم میں توازن ہے جو نہ صرف جدید رجحانات کے فروغ میں مثبت کردار ادا کرتا ہے بلکہ معاشرتی و سماجی بگاڑ

سے بچاتا بھی ہے۔آپ فرماتے ہیں
پُختہ افکار کہاں ڈھونڈنے جائے کوئی
اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز کو خام
مَدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر
چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام

دوسرے شعر میں اس طرف اشارہ ملتا ہے کہ نظامِ کائنات کو بے ربط ہونے سے بچانے کے لیے اسو? حسنہ کے ساتھ دائمی انسلاک ضروری ہے۔موجودہ تعلیمی نظام کی ایک خامی یہ بھی ہے کہ آزادیء افکار کے نام پر نسلِ نو کو سوچنے کی طرف مائل تو کیا جاتا ہے مگر حضورﷺ کے بتائے ہوئے راستوں کی نشاندھی نہیں کی جاتی جس کی

وجہ سے مذہب سے آزادی کے رجحان نے پرورش پائی اور الحاد کی شکل میں ظہور پذیر ہوا۔کیا آئے دن سوشل میڈیا پر ہم نہیں دیکھ رہے کہ اچھے اچھے شعبوں کے قابل ترین رہنما اخلاقی تنزلی کا شکار ہیں اور تعلیم یافتہ لوگ بد تہذیبی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی کئی علماء کا اندازِ بیاں اور گفتگو بھی تشویش ناک صورتِ حال پیدا کر رہی ہے۔
پیداوار اچھی ہو تو ہم ایک مرتبہ اُن کھیتوں کا ذکر بھی ضرور کریں گے جہاں فصلوں نے نموپائی تھی۔
کسی طبقے پر تنقید کرنے کے بجائے اچھی فصلوں اور خوشگوار نتائج کے لیے دانشوروں، ماہرینِ اقتصادیات اور رہنماؤں کو مؤثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اور ایسے تعلیمی اداروں کے قیام کی ضرورت ہے جو عقل کو آزاد کرنے کے

ساتھ ساتھ دینی شاہراہ پر گامزن بھی کرے۔روح فورم کے زیرِ اثر قائم شدہ جدید سائنسی و سماجی علوم کا ادارہ(ایمبلم اسکول سسٹم) آبروئے ملت تربیتی نظام اسی خواب کو حقیقت میں ڈھالنے کے لیے کوشاں ہے۔قومی سطح پر اس ادارے کو وسعت دینے کی ضرورت ہے اور ایسے ماہرینِ تعلیم، سرمایہ کار، ماہرینِ اقتصادیات جو مادی اور روحانی ترقی کے خواہشمند ہیں وہ علمی، قلمی اور مالی سرمایہ کاری کر کے مستقبل کے لیے روشن راستے ہموار کر سکتے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں