صحت انسانی اور شافی السقم رب دو جہاں 256

مفتی عبدالقوی پاکستان کا تدبرانہ یامتفکرانہ فتوہ

مفتی عبدالقوی پاکستان کا تدبرانہ یامتفکرانہ فتوہ

نقاش نائطی
۔ +967504960485

عام نساء سے باہم رضامندی کے ساتھ جنسی اختلاط کو جائز ٹہراتا فتوہ
https://www.dailymotion.com/video/x3xohn2

قوم یہود کے نبی چرواہے اور قوم نصاری کے نبی لکڑہاڑے تھے اور دین اسلام کے نبی خاتم الانبیاء معلم یعنی استاد تھے۔ لیکن موجودہ دور میں معلم نبی کےامتی ہم مسلمان، علوم دینیہ کے ساتھ ہی ساتھ علم عصر حاضر کے حصول کے معاملہ میں، چرواہے اور لکڑہاڑے نبی کی امتیوں سے اعلی عصری تعلیم کے سلسلہ میں پیچھے بہت پیچھے پائے جاتے ہیں۔ شروع زمانہ اسلام، خلفاء راشدین کے وقت ہی سے، مسلمانوں میں تعلیم کا رواج جب سے عام ہوا ہے

اس وقت سے مسلمان بچوں کو قرآن و حدیث کی تعلیم کے ساتھ ہی ساتھ اس زمانے کے اعتبار سے فن سپاہ حرب ، گھڑ سواری نیزہ تیر و تلوار زنی نہ صرف سکھائی جاتی تھی بلکہ آگے چل کر اسلام کو ہی یہ تفخر حاصل ہے کہ اس نے نہ صرف اپنے پہلے دوسرے صد سالہ دور اسلامی میں ہی، دنیا کو تمدنی ترقی یافتہ علم عصر حاضر سے نہ صرف روشناس کرایا بلکہ عالم کو جدت پسند علم عصر حاضر کی پہلی اور دوسری تعلیمی درسگاہ عالمی یونیورسٹی سے

بھی روشناس کرایا تھا۔ حضرت جبریل علیہ السلام پر اتاری گئی پہلی سورہ قرآن کی پہلی اور دوسری آیت “اقرآء باسم ربک الذی خلق اور خلق الانسان من علق” پہلی آیت حکم پڑھنے کا تو دوسری آیت میں خون کے لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کا، اس وقت تک حضرت انسان کی سوچ سے بالاتر علم تخلیق انسانی عمل کو، قرآن کی ھدایات کی روشنی میں اپنے تدبر و تفکر سے حل کرنے کی ہدایت بحکم قرآنی تا قیامت آنےوالی انسانیت کو دی گئی تھی

آج کے ہم مسلمان، “طلب العلم فریضہ علی کل مسلمین” کے مفہوم کو، اپنے اسلاف کی غلط رہنمائی ہی کےچلتے علوم عصر حاضر اور علوم اسلامی کو جدآ جدا سمجھتے ہوئے، کسی ایک کو حاصل کرنا ضروری سمجھتے ہوئے، صرف آور صرف تابناک و روشن آخرت کی چاہ و امید میں، صرف دینی علوم کو اختیار کرتے ہوئے دعویداری عالم اسلامی کی چاہ و تڑپ سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں

۔ جبکہ انسانی زندگی کے لئے ضروری، حصول علوم قرآن و سنت کو لازم و ملزوم سمجھتے ہوتے ہوئے بھی،اللہ کے رسول ﷺ پر اتاری گئی، پہلی صورة قرآنی کی دوسری آیت، حکم ﺍﻟﻠّﻪ ﷻ، “خلق الانسان من علق”، “پیدا کیا انسان کو خون کے لوتھڑے سے” جس کی گتھی اس حکم قرآنی سے ہزار بارہ سو سال بعد، وقت کے سائینس دانوں نے جو صحیح ثابت کر اس گتھی کو حل کیا ہے

، کیا ہمارے پروردگار کی منشاء علوم قرآنی کی روشنی میں، ارض و سماوات بحر و جبل، مخلوقات ارض و بحر کے علاوہ خلقت شمس و قمر و نجوم پر تدبر و تفکر کرتے ہوئے، طلب العلم فریضہ علی کل مسلمین، علوم عصر حاضر کو ہی حاصل کرنا ہم مسلمانوں پر واجب ہونے کی دلیل کے زمرے میں لیا جانا کیا نہیں چاہئیے تھا؟

لیکن بعد سقوط غرناطہ اسپین، عالمی یہود و نصاری کی سازشوں کے چلتے، ہمارے دینی رہبران نے نہ صرف یہ تسلیم کیا تھا کہ ہم مسلمانوں کے لئے “طلب العلم فریضہ علی کل مسلمین” کا مطلب صرف دینی علوم کو حاصل کرنا ہی ہے بلکہ عصری تعلیم حاصل کرنے والوں کو دہریہ اور لادین تک القاب سے نوازا جانے لگا تھا بلکہ فی زمانہ، اعلی علوم دینیہ کے ماہر فن علماء میں ایک، حسینی مزاج کے عالم دین نے لاکھوں کے مجمع میں عصری علوم کے حاصل کرنے والے

بنات و ابناء کو “ولد الحرام” اور “بنت الحرام” کے القاب سے بھی نوازا تھا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا حصول علم کی تڑپ دو مختلف نظریات میں نہ صرف بٹ کر رہ گئی بلکہ جہاں عصری اعلی تعلیم یافتگان کچھ محقق و سائیںس دان بھی بنے تو دینی علم سے ماورا دھرئیے ہی ٹہرائے جاتے رہے تو وہیں پر، تدبر و تفکر کا مزاج رکھنے والے مسلمان جو علوم دینیہ کے شہسوار بنے، انہوں نے تدبر و تفکر و تحقیق کی صلاحیتوں کو دینی علوم ہی پر صرف کر، دین ہی کےنام سے

، شیعیت رافضیت والے اعمال کو، دین حنیف کاحصہ بناتے بناتے، عالم کی اکثریت مسلمانوں کو ہی دین حنفیت کی تقلید کے بہانے، شرک وبدعات بریلویت کے پیروکار بنا ڈالا۔ ایسے تدبر و تفکر و تحقیق کرنے والے مفتی عبدالقوی جیسے مفتیوں نے تو، باہمی رضاء سے نساء کے ساتھ حرام کاری کو بھی معاشرے میں پنپتی بے راہ روی کے سد باب کے لئے، اسلام میں شادی ایک، لیکن نکاح متعدد کے جواز کو ڈھونڈ نکالا ہے ۔ مفتی عبدالقوی کے اس بدبختانہ جواز حرام کاری کے

بارے میں مقلد علماء دین کیا کہتے ہیں؟ جتنے کنکر اتنے شنکر، ہر چیز میں خداکو ڈھونڈنے والے کفار و مشرکین کے، متعدد لائق پرستش خدا ڈھونڈے جیسا، وحدة الوجود نظریہ کو بھی ایک حد تک صحیح ماننے والے، ہمارے دیوبندی و ندوی کبار سنی علماء کی طرح آگے چل کر، رافضیت والے

کسی بھی اجنبی نساء سے جنسی تعلق بنائے رکھنے کے لئے، زر خرید دو گواہوں کی موجودگی میں کسی بھی اجنبی نساء سے باہمی رضاء جنسی اختلاط کو بھی وقتی نکاح تعبیر دے اسے مستقبل میں حلال فعل، کیا قرار دیا جائیگا؟ وما علینا الا البلاغ
پاکستانی مفتی کا لائیو ٹی وی براڈ کاسٹ پر نساء کے ہاتھ کھاتا تھپڑ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں