مارے گمنام ہیرو 178

مارے گمنام ہیرو

مارے گمنام ہیرو

تحریر حنا وہاب کراچی

کوئی بھی ملک جہاں سرحدوں اور حدود پر محیط ہوتا ہے وہیں وہ اپنے بسنے والوں کی شناخت اور مان پر بھی دلالت رکھتا ہے۔ اسکا کوئی بھی شعبہ ہو وہ اسے استحکام و سالمیت دیتا ہے اور اسکی سالمیت اسکے باشندوں کی بقاء میں منحصر ہےاسلامی جمہوریہ پاکستان کرہ ارض پر وہ عظیم ملک ہے جس کی تاریخ کے ہر باب میں پنہاں و عیاں بہت سے عظیم لوگوں کی قربانی موجود ہے جو اسکی آبیاری کے لیے ہمہ وقت سرگرم رہے۔ جہاں اسکی سرحدوں کو سیسہ پلائی دیوار کی طرح محفوظ کرنے کا کام جانفشانی سے ہماری افواج نے کیا وہیں دیگر اداروں نے اسکی اندرونی سالمیت کے لیے سر توڑ کوششیں کیں۔

بات سرحدوں تک محدود نہیں،کوئی ملک اپنی صحت عامہ کے معاملات کے بغیر تو کچھ بھی نہیں کیونکہ جناب وہ مشہور کہاوت ہے ناں

” جان ہے تو جہان ہے ”
اس شعبے میں جہاں بنیادی سہولیات کا انتظام ہر دور میں کیا جاتا رہا وہیں سال 2020 سے رقم ہونے والی داستان نے تاریخ کا ایک روشن باب رقم کیا ، اس شعبے میں خدمات انجام دینے والے بہادر اور نڈر سپاہیوں نے اپنے ملک و قوم کے لیے ہراول دستے کا کام کیا۔

جی وہ بہادر سپاہی ہمارے طبیب / ڈاکٹرز ہیں۔

2020 کا آغاز عام سال کی طرح ہوا مگر دنیا کے اطراف میں ہونے والی ہلچل نے پاکستان کو متاثر کرنا شروع کر دیا تھا اور پھر وہ وبا جسے دنیائے عالم نے Covid 19 کا نام دیا اس نے کل عالم کا نقشہ ہی بدل دیا۔جہاں لوگ پہلی بار زندگیوں میں گھروں میں محصور ہوئے وہیں بڑی بڑی نامی گرامی معیشتیں مکمل ٹھپ ہو گئیں۔ ایسے میں ہم سب نے ان جانباز سپاہیوں کو دیکھا جنھوں نے اپنی جان اور عیال کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مردانہ وار اس بیماری میں مبتلاء مریضوں کے لیے کام کیا اور وہی ان کی آخری رسومات میں بھی شریک ہوئے۔

وہ جو ایک دوسرے سے مرنے جینے کا وعدہ کیا کرتے تھے، دم بھرا کرتے تھے اس بیماری نے ایسے بہت سے لوگوں کی حقیقتوں سے آشنا کروایا اور قیامت کی منظر کشی بھی ” نفسی نفسی” بھی کہ کوئی بھی covid 19 میں مبتلاء مریضوں کے پاس جانے کو تیار نہیں تھا کیونکہ یہ لمس اور سانس سے لگ جانے والی بیماری تھی۔ ایسے میں ایک مرتے ہوئے انسان کی زندگی کی کے لیے سر توڑ کوششیں کرنا اور پھر اس کے لیے دعا بھی کرنا ایسے جیسے وہ آپ کا اپنا ہو تو ایسے میں ان بہادر سپاہیوں نے اپنی جان توڑ کوششیں کی۔

ان ہی مجاہدوں میں سے ایک میری بہن ڈاکٹر مزنی عروج(Muzznah Urooj) ہیں،جو اپنے بچوں کی پیدائش اور انکی ابتدائی تعلیم کی وجہ سے کچھ عرصے کے لیے شعبہ طب سے دور رہیں مگر پھر انھوں نے 2020 سے دوبارہ جوائن کیا،وہ دو پیاری سی پریوں کی والدہ ہیں جنھیں اپنے شعبے سے بہت محبت ہے وہ کہتیں ہیں یہ اللہ کا احسان۔ہے کہ۔اس مشکل وقت میں اللہ تعالیٰ نے ان کے شعبے اور انھیں یہ اعزاز دیا کہ وہ اپنے ملک اور انسانیت کی خدمت کے لیے آگے بڑھیں۔

وہ کہتیں ہیں کہ جب آپ کے پاس وارڈز میں زندگی اور موت سے لڑتے مریضوں سے بھرے ہوں اور ہر ایک کی جان آپ کے لیے ایسے مقدم ہو کہ جسے بچانا اولین ترجیحات میں ہو تو کیسے آپ سکون سے رہ سکتے ہیں۔ جب ہم کسی کو آخری سانسوں میں دیکھتے ہیں تو یقین کیجیے اپنا دم بھی نکلتا محسوس ہوتا ہے جہاں ایک مریض کو بچانیکوشش ہوتی ہے وہیں دوسرا مریض جسے آپ نے درست چھوڑا تھا وہ جان کی بازی ہار جاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے مگر ہم کوشش تو نہیں چھوڑ سکتے تب ساری رات اور دن بس لبوں پر دعا اور دماغ میں ہار نہ ماننے کا جذبہ رہتا ہے۔ کبھی کبھی ایک مریض کے ساتھ آپ CPR کر رہے ہوں اور وہیں دوسرے کسی وارڈ میں دوسرے مریض کے لیے کال آئے جہاں تک جانے میں آپ کو بیس منٹ لگیں اور آپ کو پتہ ہو کہ یہ دونوں مریضوں کے لیے جان لیوا ثابت ہوگا تو ایسے میں اعصاب پر دباؤ جان لیوا ہوتا ہے مگر جب سب ایک ٹیم کی طرح کام کرتے ہیں تو ایک دوسرے کو دیا گیا حوصلہ بیحد کام آتا ہے۔

کبھی کسی اپنے کی موت یا کسی کی موت کا سن۔کر دل سوگوار رہتا ہے تو ہمیں دیکھیے ہم نے ایک رات میں تیرہ سے سولہ۔اموات کو ایک ہی وارڈ میں ہوتے دیکھا ہے سوچیے،ہم بھی انسان ہیں ہمارے بھی اعصاب کام کرنا چھوڑ جاتے ہیں جب ہمیں یہ امید بندھی ہے کہ یہ ضرور سروائیو کر جائے گا مگر وہ نہیں بچ پاتا وہیں خوشی سے دل جھوم۔جاتا ہے جب ایک ventilator پر موجود مریض زندگی کی جنگ جیت جاتا ہے۔ ?? حنا وہاب کراچی

کوئی بھی ڈاکٹر خواہ وہ ماں ہو یا باپ کسی بھی متعلقہ وارڈ میں صرف ایک معالج ہوتا ہے یہ بالکل ایسا ہے جیسے سرحد پر کھڑے ایک بٹالین کے افسر کو اپنے کسی بھی جوان کی زندگی بہت عزیز ہوتی ہے اسی طرح ایک ڈاکٹر اپنے زیر نگرانی مریضوں کی زندگی کے کوشاں رہتا ہے۔ وہ گھر میں اپنے بچوں کو عیال کو چھوڑتے ہوئے اللہ کے سپرد کرتا ہے کیونکہ جو عہدہ اسے تفویض ہوا ہے اس کی ذمہداری بہت ہے۔

بچوں سے جدا ہوتے کبھی کبھی دل بے حد غمزدہ ہوتا ہے کہ اب لوٹ پائیں گے کہ نہیں کیونکہ کتنے ہی ہمارے ساتھی اور کچھ اپنے کولیگز کا بھی خیال آتا ہے کہ وہ ابھی کچھ ہی عرصہ قبل ہمارے ساتھ تھے اب ہمارے ساتھ نہیں ہے اور ان کی موت کا سبب بھی یہی موذی مرض تھا۔

ڈاکٹر فیروز (Inchage anesthesia Dow)
ڈاکٹر رابعہ طیب 26 سال (روالپنڈی)
ڈاکٹر نوری شاہ
ڈاکٹر سلمان 24 سال
ڈاکٹر ثناء فاطمہ
ڈاکٹر نعیم اختر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور بہت سے گمنام سپاہی ہیں جن کا شاید اب تک ہمیں علم ہی نہیں ہے

مئی تک کے تخمینے کے مطابق 2?173 ہیلتھ ورکرز اور تقریباً 500 کے قریب ڈاکٹرز نے جام شہادت نوش کیا ہے۔ یہ وہ گمنام سپاہی ہیں جن کی خدمات ایسی لازوال ہیں کہ ہم چاہ کر بھی ان کی تعریف کا حق نہیں ادا کر سکتے۔ زندگی ہے ہر شعبے میں خیر اور شر کا عنصر موجود ہے تو کیا ہم خیر کو بھول کر بد کو حاوی ہونے دیں،ایسا یقینا ہم نہیں کر سکتے تب ہی تو جو انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں ہم انھیں سلام پیش کرتے ہیں۔

یہ ڈاکٹرز اپنے تمام تر فرائض کے ساتھ اعصابی دباؤ کا بھی شکار ہیں کیونکہ آپ زندگی میں ہر جنگ لڑ سکتے ہیں مگر موت سے نہیں،بس یہی موت کی جنگ انھیں بھی اعصابی اذیت سے دوچار کرتی ہے اور یہ اس وقت اور اذیت ناک ہو جاتا ہے جب انہی کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے کہ کسی بھی غلط انجکشن کی وجہ سے مریض مر گیا۔ کرونا ہو یا کوئی بھی اور بیماری یہ دفاع ضرور کرتے ہیں مگر قدرت اللہ کے سامنے ہر شے پسپا ہے ان تمام اعصاب شکن معاملات کے بعد ہمت جمع کرتے یہ پھر سے ہنستے مسکراتے اپنے عیال کی طرف لوٹتے ہیں اسلیے کہ کسی کو دکھی کرنا ان کا مقصد نہیں ہے ۔
ہم اپنوں سے کسی بھی ہنگامی حالت میں کچھ پل بھی نہیں رہ سکتے اور ان کے عیال انہیں خود روزانہ کی بنیاد پر موت کے شکنجے میں بھیجتے ہیں تاکہ صرف وہی نہیں بلکہ اطراف کے سارے لوگ محفوظ رہیں۔ ہے ناں یہ دل گردے کا کام،تنخواہ تو ہر شعبہ لیتا ہے مگر اگر ہمیں کسی رقم کے عوض موت کو گلے لگانے کو کہا جائے گا تو یقیناً ہم نہیں کرینگے اس لیے کہ زندگی سب کو ہی پیاری ہے۔

ان معالجین کی قدر کیجیے اس لیے انہی کی خدمات واقعی گرانقدر ہیں۔

اللہ تعالیٰ اس فوج کو سلامتی عطا فرمائے اور اپنی امان میں رکھے آمین اور جو کام شہادت نوش فرما چکے انکی کامل مغفرت فرمائے آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں