عمران اشرف جھنڈیر کے ساتھ ایک گفتگو 241

عمران اشرف جھنڈیر کے ساتھ ایک گفتگو

عمران اشرف جھنڈیر کے ساتھ ایک گفتگو

تحریر:نمرہ ملک
عمران اشرف جھنڈیر کیڈٹ کالج چکوال میں صدر شعبہ اردو ہیں۔شوقیہ گلوکاری کرتے ہیں۔ اک خوش گلو ،لکھاری اور استاد جناب عمران اشرف جھنڈیر کا تعلق لیہ لالہ زار کی متوسط زمیندار فیملی سے ہے۔وہ انیس مارچ انیس صد ستاسی کو پیدا ہوئے۔گورنمنٹ ہائی سکول میانوالہ سے میٹرک،گورنمنٹ ڈگری کالج چوک اعظم سے بی اے،بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے ایم اے اردو کیا۔سرگودھا یونیورسٹی سے بی،ایڈ جبکہ ایم فل علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے کیا۔اب انشاء اللہ پی ایچ ڈی کا ارادہ ہے۔

بنیادی طور پہ درس و تدریس کے شعبہ سے منسلک ہیں۔گورنمنٹ کالج لیہ اس کے بعد پنجاب گروپ آف کالجز پنڈ دادن خان کیمپس میں لیکچراراور صدر شعبہ اردورہ چکے ہیں۔ اب کیڈٹ کالج چکوال میں شعبہ اردو کے صدر ہیں۔پاک برٹش آرٹس انٹرنیشنل پی بی اے لیہ کلچرل ونگ کے نائب صدر بھی ہیں۔مشاغل میں باغبانی،گلوکاری اور لکھنے لکھانے کا بھی شوق ہے۔شادی شدہ ہیں ۔

ان کے دو بیٹے ہیں۔بقول عمران اشرف کے ،میری نصف بہتر مکمل ہم خیال ہیں،مجموعی طور پہ خوشحال اور خوشگوار زندگی ہے جس سے بے حد مطمئن ہوں۔اک استاد کی حثیت سے قوم بالخصوص نوجوانوں کے مستقبل کے بارے کہتے ہیں’’
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں ڈھونڈنے والے کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں محنت کی راہ پہ چلنے والے اپنی دنیا خود آباد کر لیتے ہیں جبکہ زمانے کی ستم ظریفیوں کا گلہ کرنے والے کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔محنت پہ یقین رکھنے والے اپنی منازل کا تعین خود کرتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں نئی نسل میں آگے بڑھنے اور خود کو منوانے کا بہت حوصلہ ہے۔میں اک استادکی حثیت سے اپنےبن نوجوانوں کا مستقبل روشن دیکھتا ہوں اور روشن ہی دیکھنا چاہتا ہوں۔اگر اچھی گائیڈلائن ملے تو ہمارے نوجوانوں میں بہت ٹیلنٹ ہے ،بس اس ٹیلنٹ کو پالش کرنے کی ضرورت ہے۔عمران اشرف مخلص اور محنتی لوگوں سے متاثر ہوتے ہیں،ان کے جذبات اور کام کی ققدر کرتے ہیں۔متکبر اور بدمزاج لوگ انہیں پسند نہیں ان کے خیال میںتکبر انسان کی نیکیوں اور خوبیوں کو کھا جاتا ہے جب کہ بد مزاجی اچھے خاصے کاموں کو بگاڑ دیتی ہے۔ہم نے پوچھا کہ ادبی دنیا میں کس سے متاثر ہیں؟
عمران گویا ہوئے’’ادب کی دنیا بے کراں سمندر ہے۔مجھے فکشن زیادہ پسند ہے خاص طور پہ افسانہ۔۔افسانہ نگاری میں احمد ندیم قاسمی بہت اپنے اپنے لگتے ہیں،شائد اس عقیدت کی بڑی وجہ ان کا تھل کا باسی ہونا ہے،میں چونکہ خود بھی تھل لیہ سے ہے تو اک علاقائی اور ثقافتی ربط بھی ہوتا ہے جو مجھے احمد ندیم قاسمی صاحب سے ہے۔انہوں نے دیہاتی زندگی کے دکھ درد افسانوں میں اس طرح پیش کیے ہیں کہ ان کا انداز سخن دل کو لگتا ہے۔اس کے علاوہ پروفیسر جعفر بلوچ بہت بلند پایہ اردو کے استاد،محقق،نقاد اور قادر الکلام شاعر تھے،مرحوم میرے ماموں بھی تھے۔ان کا کام میرے لیے مشعل راہ ہے‘‘۔اگلا سوال اسی باے ہم نے پوچھا کہ آپ نے افسانہ نگاری میں بھی طبع آزمائی کی؟’’جی ہاں!مجھے افسانے کا بھی شوق ہے۔میرا پہلا افسانہ ’تھل‘ میگزین میں ۲۰۰۹ء میں شائع ہوا۔جب میں اس کا طالب علم مدیر رہا۔زمانہ طالب علمی میں لکھنے کی طرف کافی رجحان رہا‘‘
عمران اک اچھے گلو گار بھی ہیں۔گلوکاری کی طرف رجحان کے بارے کہتے ہیںکہ جب انسان شعور کی آنکھ سے دنیا کو دیکھتا ہے تو وہ کوئی نہ کوئی شوق یا مشغلہ اپنا ہی لیتا ہے۔میں جب کالج میں پڑھتا تھا تو شوقیہ گانا سننے بعد ازاں گانے کا بھی موقع ملا۔مناسب پزیرائی سے مجھ میں آگے بڑھنے کا شوق پیدا ہواجو بڑھتا چلا گیا اور اب تک میں کئی اچھے گیت گا چکا ہوں

جو میری پہچان بن چکے ہیں۔۲۰۱۱ء میں میرا پہلا فوک ویڈیوالبم مارکیٹ میں آیا جسے بھرپور مقبولیت ملی۔اس کے بعد ہر سال تقریبا ایک دو گیت ریکارڈ کروا رہاہوں۔اب تک میں تیس کے قریب گیت ریکارڈ کروا چکا ہوں۔میرے گیت مختلف چینلز پہ بکھرے پڑے تھے۔اب اپنے نام عمران اشرف جھنڈیر سے یوٹیوب چینل بنا کر ان گیتوں کو شیئر کر رہاہوں۔آجکل دھمال پروجیکٹ پہ کام کر رہا ہو۔اس نئی کاوش دھمال کی وڈیو سوٹنگ مکمل ہو چکی ہے۔جلدامید کرتا ہوں کہ میری یہ کاوش ثمر بار ہوگی اور لوگ اسے پسند کریں گے

۔ہم نے پوچھا کہ۔گلوکاری میںکس سے متاثر ہیں؟عمران اشرف نے بتایا کہ جب گونمنٹ کالج لیہ میں لیکچرر تھا تو لیہ میں سر اسلم ساجد سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔میں چونکہ اپنی لوک موسیقی پسند کرتا ہوں تو مجھے لوک گلوکار ہی زیادہ متاثر کرتے ہیں۔منصور ملنگی،شفاء اللہ روکھڑی اور عطاء اللہ نیازی میرے پسندیدہ گلوکار ہیں جب کہ غزل میں جگجیت سنگھ بہت پسند ہیں۔
عمران تنقید پسند کرتے ہیں۔بقول ان کے ،اس سے سیکھنے کا موقع ملتا ہے،آگے بڑھنے کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔میرے خیال میں کوئی بندہ بھی پرفیکٹ نہیں ہوتا،کسی بھی شعبے میں مکمل مہارت کسی کے پاس نہیں ہوتی۔اس لیے میں مثبت تنقید کا خیر مقدم کرتا ہوں۔بے جا تنقید یا جیلسی کو اہمیت ہی نہیں دیتا‘‘عمران،ہنس مکھ،مستقل مزاج لیکن قدرے کم گو ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ میرے والدین کی نصیحت ہے کہ ہمیشہ سچ بولیں،کسی کو دھوکا نہ دیں،صلہ رحمی اپنائیں،اللہ کا شکر ہے ان اصولوں نے زندگی سے بہت سی الجھنیں ختم کر دی ہیں‘‘عمران اشرف کے نزدیک انٹرنیٹ فائدہ مندہے ،یہ دور حاضر کی ضرورت بھی ہے

اور اس کے مثبت اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں،لیکن انفرادی سطح سے لے کر قومی سطح تک کوئی ایسا چیک اینڈ بیلنس ضرور ہونا چاہیے تا کہ ہم اس سپر سونک ایج کی پیچیدگیوں سے بچ سکیں۔عمران اشرف جھنڈیر کو اپنی ہر تکلیق سے محبت ہے۔وہ کہتے ہیںکہ میں شوقیہ گاتا ہوں۔ہر گیت یا کلام جو ریکارڈ کرتا ہوں،مجھے پسند ہوتا ہے،اسی طرح ادبی کام میں میرا پہلا افسانہ ’’موم کا دل آتش خانے میں ‘‘جو زمانہ طالب علمی میں تھل میگزین میں شائع ہوا تھا،مجھے آج بھی پہلے دن کی طرح بے حد پسند ہے

کیونکہ پہلی تخلیق سے ویسے ہی محبت ہوتی ہے ۔عمران اشرف اک بہترین استاد،خوش گلو شخصیت کے مالک اور نرم مزاج انسان ہیں۔اپنے شاگردوں کو وہ ادبی جانشین مانتے ہیں ،جو ان کے افکاراور خیالات کو آگے بڑھاتے رہیں گے،دئیے سے دیا جلاتے رہیں گے،یہ ہی ان کا ورثہ ہیں۔نوجوان نسل کے لیے پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ہمیشہ مثبت رہیے،جو بھی کام کریں اپنے کام سے مخلص رہیں۔کوشش کیجئے کہ آپ کی وجہ سے کوئی دکھی نہ ہو بلکہ اللہ کی مخلوق کا جو بھی بھلا کر سکتے ہیں،ضرور کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں