بھیڑ کی چال چلتے ہم آل عرب تجار قوم
نقاش نائطی
۔ +966562677707
سب کرے بول کر ہم بھی کرے لہنگا سارا گندہ کرے مثال مصداق ہمارے قومی بھائی اللہ پر توکل کرتے ہوئے، اپنا ایک نیا کاروبار شروع کرنے کے بجائے، کسی اور بھائی کی تجارت کو کامیاب ہوتے دیکھ, وہی تجارت سب کرنے لگتے ہیں۔ کسی بھائی کی بیکری تجارت اگر کامیاب ہوتی نظر آئے تو ہر کوئی بیکری لگانے کی فکر میں ہی نظر آتا ہے۔ ایک بھائی نے سائکل کی دوکان لگائی اور کامیاب چلنے لگی تو ہر کوئی سائکل کی ہی دوکان لگانے کے فراق میں ایک ہی گلی ایک ہی بلڈنگ میں دو دو سائکل کی دوکانیں کھول لیتے ہیں۔
اس کا نتیجہ یہ کہ ریڈی میڈ گارمینٹ کی دوکانیں ہوں، بیکری سائکل کی دوکانیں یا کوئی اور قسم کی تجارت گاؤں میں دوکانیں زیادہ اور گراہک کم ہونے لگتے ہیں۔ اور آپسی تجارتی مسابقت میں قیمتیں گرنے سے وقتی فائیدہ عوام کو ہوتا محسوس ہوتا ہے لیکن بغیر مناسب فائیدے کے دوکان کا کرایہ، نوکروں کی تنخواہیں گیس بجلی اخراجات دے نہیں پاتے ہیں بالآخر دو چار مہینے میں کاروبار بند کرتے ہوئے، ابتدائی تجارت میں لگائے سرمائے سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہےاور خلیج سے لوٹتے وقت ساتھ لائی جمع پونجی یا دوستوں ،رشتہ داروں سے قرض لےتجارت میں لگائی پونجی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
تجارت میں کامیابی کی اولین شرط، اللہ پر توکل کے ساتھ ہی ساتھ خلوص و محبت بھائی چارگی کے ساتھ ابتداء میں کڑی محنت ضروری ہوا کرتی یے۔ اللہ پر توکل کے بجائے دوسروں کی کامیابی پر بھروسہ کرتے ہوئے اور ان سے مسابقت کرنے کی وجہ حسد جلن ساتھ لئے،تجارت عموما کامیاب نہیں ہوا کرتی ہے۔ تجارت میں نیاپن یعنی جدت پسندی یا انوویشن جہاں ضروری ہوتا ہے وہیں پر حسد جلن بغض سے پاک، محبت اخوت کا جذبہ ہی تجارت کو جلا بخشنے میں ممد ہوا کرتا ہے۔ہم آل عرب ساکن بھٹکل و اطراف بھٹکل،
کیرالہ کے آل عرب ماپلے مسلمان تاجر ہی کی طرح نہیں، بلکہ کیرالہ کی اجمالی آبادی میں تجارت میں غیر ضروری مسابقہ کے بجائے ایک نئی تجارت شروع کرنے کے رجحان اور ساتھ کے تمام تاجر برادری کو آپسی تعاون کے ذریعہ کامیاب کرانے کا جو جذبہ ان کیرالہ باشندوں میں پایا جاتا ہے کاش کہ ہم میں بھی ایک دوسرے کےساتھ تعاون فراہم کرنے کا جذبہ عود کر آجائے۔ ثانیا” کیرالہ والوں میں تجارت کرنے کا شوق و ذوق رکھنے والے اور سرمایہ داروں کے اشتراک سے اشتراکی تجارت کرنےکا جو رجحان پایا جاتا ہے
وہ ہم میں اجمالی طور کم ہی پایا جاتا ہے۔ ثالثا” تجارت کی کامیابی تجارت میں اپنے گراہک کے ساتھ امانت داری اور بھروسہ پر ہی ترقی پذیر ہوا کرتی ہے۔ اور منافع کی شرح بھی حد سے زیادہ وقتی فائیدہ تو دے دیتی ہے لیکن تجارت مستحکم نہیں ہوا کرتی ہے۔ عموما فی زمانہ نوجوانوں میں جلد از جلد امیر بننے کا شوق ان سے، حد سے زیادہ منافع شرح رکھنے اور اپنے گراہک کو زیادہ سے لوٹنے پر مائل کیا کرتی ہے۔جس سے تجارت کی برکت سے محروم انکی تجارت عموما زوال پذیر ہوا کرتی ہے۔
اور آخر میں صاحب تجارت اپنے تجارتی منافع کا ایک حصہ اپنے طور مقرر کرتے ہوئے، اپنے رزاق کائینات سے عہد و پیمان کر غرباء و مساکین کا خیال رکھنے میں صرف کرے تو عموما ان کی تجارت کو ترقی پزیری سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔اللہ ہی ہمیں اپنے اباء و اجداد تجار اہل عرب کے حسن اخلاق والی تجارت میں قدم جمانے اور پھلنے پھولنے کا موقع عطا کرے وما علینا الا البلاغ