مانگنا بھی ایک آرٹ ایک ہنر ہے 202

مانگنا بھی ایک آرٹ ایک ہنر ہے

مانگنا بھی ایک آرٹ ایک ہنر ہے

۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707

چاہے اپنے خالق کائینات سے مانگیں یا اس کی مخلوق ہم انسانوں سے مانگیں ۔ مانگنا بھی ایک فن ایک آرٹ ہوا کرتا ہے۔ ہمارے آس پاس ہم دیکھتے اور مشاہدہ کرتے رہتے ہیں جو بخیل کسی مانگنے والے کو پھوٹی کوڑی نہیں دیتا کسی خاص مانگنے والے کو اتنا کچھ دیتا ہے کہ دیکھنے والے انگشت بندنداں رہتے ہیں۔فقراء و مساکین کو جو عام طور پر مانگتے آتے ہیں جنہیں ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ، پانچ دس روپئیے جہاں دئیے جاتے ہیں،وہیں سفید پوش ہٹے کٹے شرفاء، اپنی درد بھری کہانی بیان کر، بڑے بڑوں کو بے وقوف بنا، ان سے ہزاروں میں امداد لئے، فقراء و مساکین کے اصل حق پر ڈاکہ ڈالنے میں کامیاب پائے جاتے ہیں۔ یہ دراصل انکے مانگنے کا انداز ہوتا ہے بخیل سے بخیل تر انسان بھی انکے جھانسے میں آجاتا ہے بعض فقراء کا صدا دے کے مانگنے کا شاندار اتنا نرالا اور اچھوتا دلنشیں ہوتا ہے کہ اکثر محلوں گھروںوالی نساء، روزانہ آنے والی ان صداؤں کی منتظر پائی جاتی ہیں

رب کائینات کو بھی اسکے پاس براہ راست مانگنے والے بندے بڑے پسند ہوتے ہیں اسکے بندے صرف اسی سے مانگیں اس کے علاوہ اور کسی سے نہ مانگیں اسی لئے، اس سے براہ راست مانگنے والوں کے لئے ایک خصوصی پیکیج بھی اعلان کر چھوڑا ہے کہ مانگنے والے کی ضرورت کو دیکھ کر، اس کے لئے کونسی شئے کس وقت مناسب ہے یہ بہتر فیصلہ کرتے ہوئے اسے دیا کرتا ہے اور جنہیں باوجود مکرر مانگنے کے کچھ ملا نہیں محسوس ہوتا، ان کے لئے یہ سوغات سنا دی گئی ہے کہ ہر مانگی ہوئی دعا، گو قبول کی جاتی ہے لیکن مانگی ہوئی چیز فلفور دینے کے بجائے اس پر مستقبل میں آنے والی کسی مصیبت کو ٹال کر بھی اس کی دعا کا صلہ دیا جاتا ہے اور اگر براہ راست مانگی ہوئی شئی نہ ملے اور حادثات سے بچاؤ میں بھی اس کی دعا اسے دنیوی اعتبار سے کام نہ آئے تو بعد موت، دنیا میں مانگی ہوئی دعاؤں کا، اسےاتنا اجر دیا جائیگا کہ وہ کل محشر میں پکار اٹھے گا کہ کاش دنیا میں اسکی ایک بھی دعا قبول کر اسے نوازا نہ گیا ہوتا

لوگ کہتے رہتے ہیں صبح سے قبل شب کی تاریکی میں مانگی ہوئی دعا رد کبھی نہیں ہوتی ہے لیکن مانگنے والے ضرورت مند کو پتا ہوتا ہے، کیسے اسنے سوئے سے آٹھ کر بھی اللہ سے مانگا تھا لیکن اسے نہ ملا۔ یہ کہنا آسان ہے کہ مانگنے میں صحیح تڑپ ہونی چاہئیے۔ جتنی تڑپ سے دعا مانگی جائے گی اتنی ہی دعا قبول ہونے کے چانسز ہوا کرتے ہیں

تمثیلا عرض ہے واقعہ سچ ہے کہ مفروضہ،اس کا تو علماء حضرات کو ہی پتہ ہےکہاجاتا ہے کہ حجاز بن یوسف، والی حجاز عمرے کی نیت سے حرم مکی آیا ہوا تھا ۔ طواف کے پہلے راؤنڈ میں ایک نابینا پر نظر پڑی جو غلاف کعبہ پکڑے اللہ سے آہ وگزاری میں منہمک تھا۔ حجاز بن یوسف نے غور سے سنا تو وہ اپنے رب سے شکوہ کررہا تھا کہ مسلسل سالوں سے اسکی کھوئی ہوئی بینائی واپس طلب کررہا ہے جس کے واپس نہ ملنے سے وہ اپنے رب ہی سے شکایت کررہا ہے۔ یہ سن کر حجاز بن یوسف نے اس اندھے شخص کو مخاطب کرکے پوچھا کہ کیا تو جانتا ہے کہ میں کون ہوں؟ پھر اپنا تعارف کیا تو وہ شخص خوف سے کانپنے لگا۔

تب حجاز بن یوسف نے اس سے کہا، کیا اپنے اللہ سے ایسے کوئی چیز مانگی جاتی ہے؟ روکر گڑگڑا کر مانگ، اللہ ضرور دے گا۔ تونے دس بیس سال مانگا ہوگا اب میں نے اپنا طواف شروع کیا ہے اگر میرے طواف ختم کرنے سے پہلے تیری دعا قبول نہ ہوئی تو، میرے طواف کے اختتام پر، تجھے تیرے رب کے پاس بھیج دیا جائیگا۔ یہ کہہ کر حجاز بن یوسف اپنے طواف پر روانہ ہوگیا وہ نابینا حجاز بن یوسف کے ظلم سے آشنا تھا۔اسے اپنی موت سامنے نظر آرہی تھی، اسلئے اس لئے اس درد و کرب سے اللہ سے رو رو کر آنکھوں کی روشنی کی بھیک مانگی کہ اللہ نے اس کی آنکھوں کی روشنی اسے عطا کر ہی دی۔ یہ ہوتی ہے دعا مانگنے کی ادا۔ وہی شخص جو سالوں سے مانگ مانگ کر تھک چکا تھا، اپنی جان کی آمان کا واسطہ دے کر، اللہ کی بارگاہ میں رو رو کر گڑگڑا کر مانگنا شروع کیا تو اللہ نے بھی اسے اسکی مانگی چیز دے ہی دی

ہوسکتا ہے ہمارے مانگنے ہی میں کوئی کمی خامی رہ گئی ہو، اس لئے اپنے رب سے ہر صورت مانگتے رہنا چاہئیے۔ فی زمانہ خصوصا اس کورونا وبا بعد ہر کوئی پریشان و مضمحل ہے کسی کی زندگی کھلی کتاب کی طرح اوروں کے سامنے عیاں رہتی ہے اور کسی کے بارے کسی کو کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا۔ ہم نے تو یہ پایا مساکین ومعتدل افراد کے مقابلے صاحب حیثیت و تونگر پریشانیوں میں گھرے پائےجاتے ہیں۔ استاد مرحوم کہا کرتے تھے دولت و ثروت مانگنے کے بجائے طمانیت قلب اور رزق میں برکت مانگنی چاہئیے تاکہ کم آمدن میں بھی گزارہ و سکون میسر ہو۔ اللہ ہی سے دعا ہے کہ جنہیں صحیح طریقہ سے مانگنا نہیں آتا انہیں ڈھنگ سے مانگنے کی توفیق عطا کردہ اور ہگ مانگنے والے کے جائز مسائل کو حل کردے۔ واللہ الموافق بالتوفیق الا باللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں