152

بچوں کی اخلاقی تربیت

بچوں کی اخلاقی تربیت

تحریر/عبدالوحیدقاسمی
بچوں کی اخلاقی تربیت والدین کی بنیادی ذمہ داری ہے۔اولاد کی مثال، ابتدائی پودوں کی سی ہے۔ اگر ابتدا ہی میں پودے کی اچھی دیکھ بھال اور نگہداشت کی جائے تو یہ پودا مستقبل میں ایک مضبوط اور تناور درخت بن جاتا ہے۔ بچے کی بچپن میں ہی اچھی تربیت کردی جائے، تو بعد میں یہ بچہ اس پر عمل پیرا بھی رہے گا اور اپنے والدین کا احسان مند بھی رہے گا، اس کی آخرت بھی بن جائے گی اور مستقبل میں اپنے والدین کے لیے نیک نامی کا باعث بھی بنے گا۔ ظاہری تربیت بھی کی جائے اور باطنی بھی۔ ظاہری تربیت یہ ہے

کہ ان کی وضع قطع، لباس، میل ملاپ، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا اور ان کی دیگر مصروفیات و مشاغل پر کڑی نظر رکھی جائے اور ان تمام معاملات میں ان کا مزاج دینی بنانے میں اپنی تمام تر صلاحیتیں لگا دی جائیں۔باطنی یہ کہ ان اللہ تعالٰی سے تعلق مضبوط بنایا جائے اور ان کو دین کے بنیادی عقائد سکھائے جائیں۔اس پر اپنے ایک تفریحی سفر اور ایک دینی گھرانے کے کچھ مشاہدات ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ ”بھوربن مری” میرے جامعہ اشرفیہ کے ساتھی اور خاص دوست مولانا نثار عباسی صاحب کے ہاں ان کی دیرینہ خواہش، چاہت اور دعوت پر ان کے ہاں بطورِ مہمان تین دن قیام کا موقع ملا۔
زمانہ طالب علمی کی طرح تیرہ سال بعد بھی انہیں مخلص، ہردلعزیز اور محبت کرنے والا پایا۔ موصوف عالمِ دین ہیں اور اہلیہ بھی تعلیم یافتہ ہیں

اور دین پڑھی ہوئی ہیں، اسی لیے بچوں سمیت پوری فیملی میں بھی دینی ذوق اور دینی مزاج نمایاں ہے۔گھر میں کہیں پارے، کہیں قرانِ پاک، کہیں جائے نماز، یہ سب چیزیں اسی مزاج کا مظہر ہیں۔بڑے بیٹے کا نام منور ہے اسی لیے بڑوں والے اوصاف بھی رکھتا ہے۔ اعظم سٹیٹ سٹاپ پر اسی نے ہمارا استقبال بھی کیا، اور پہاڑی راستہ تھوڑا مشکل تھا اور وقت بھی رات کا تھا، اس نے سٹاپ سے لے کر گھر تک ٹارچ کی روشنی لے کر ہمیں گھر تک پہنچایا۔انتظامی معاملات، اور خدمت کے دیگر آداب میں باقی بہن بھائیوں سے اسے ممتاز محسوس کیا۔

دوسرا بیٹا حنظلہ بھی خوب محبت والا تھا، لیکن ساتھ کھیل کود کا شوقین، اسی لیے درخت سے گرنے کی وجہ سے بازو میں چوٹ اور پٹی بندھی ہوئی تھی۔ تیسرے نمبر پر بیٹی ”رامش”، میری بچیوں کے ساتھ یوں گھل مل گئی تھی جیسے کافی عرصے سے آپس میں واقف ہوں۔ اور دو تین دن آپس میں خوب اچھا وقت گزارا، اب بھی میری میری ننھی منھی بیٹیاں اس کو خوب یاد کرتی ہیں اور لگتا یوں ہے، کرتی بھی رہیں گی۔ سب سے چھوٹا بیٹا خزیمہ چونکہ بہت چھوٹا بھی ہے، ماشائاللہ بہت پیارا بھی ہے

اور لاڈلا بھی، اسی لیے اس میں ابھی شرارت کا غلبہ ہے۔ لیکن شرارت کے ساتھ ساتھ اس میں دوسروں کے لیے انس اور محبت کا جزبہ بہت دیدنی ہے۔ایک صبح ہم مہمان خانے میں ناشتہ کر رہے تھے، یہ بھی ہمارے ساتھ اپنے مخصوص معصومانہ اور شرارتی انداز میں کھانے میں مصروفِ تھا، کھانے کی مختلف چیزوں سے اپنے منہ اور چہرے کو ملوّث کیا ہوا تھا، بڑے بھائی نے اسے کمرے سے نکالنے کی بہت کوشش کی اور بمشکل اس میں کامیاب ہوا۔ تھوڑی دیر بعد اچانک اس نے برآمدے کی طرف والی کھڑکی اچانک سے باہر سے دھکیل کر اندر کو کھولی اور ہمیں بڑے لبھاتے ہوے انداز میں پھر دیکھنے لگ گیا۔

مجھے اس پر بڑا ترس بھی آیا اور پیار بھی۔ دروازہ کھلوایا اور اسے اپنے ساتھ کھانے میں بٹھا لیا۔میرے چھوٹے بیٹے زین اور خزیمہ کا باہمی تعلق، تو بہت تفصیلی ہے۔بہرحال یہ کچھ باتیں اور واقعات ازراہِ مزاح کچھ موضوع سے ہٹ کر بھی بیان کردیے، ان بچوں کا اعلی اخلاقی کردار ان کے والدین کی خاص توجہ اور تربیت ہی کا نتیجہ ہے۔صبح جلدی اٹھنا اور ناشتہ اور جلد سکول کی تیاری کرنا، واپسی کے بعد گھر والوں میں گھل مل جانا اور گھر کے کام کاج میں گھر والوں کے ساتھ ہاتھ بٹانا، والدین اور ہر بڑے کے

ساتھ ادب و احترام سے پیش آنا، اچھے اور عاجزانہ لہجے میں بات کرنا، شام کے وقت والد صاحب کا پابندی سے اپنے بچوں کو پارہ اور قرآنِ پاک کی تعلیم دینا، ٹی وی اور موبائل سے بچوں کا کوسوں دور ہونا،یہ سب چیزیں اسی بات کو واضح کرتی ہیں اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے گھر جنت کا نمونہ ہوں اور ہمارے گھر کا آنگن خوشیوں سے بھرپور ہو تو اس مقصد کیلیے ہماری بنیادی فکر یہی ہونی چاہیے کہ ہم اپنے بچوں پر خصوصی توجہ دیں، تاکہ ان کا بچپن ہو یا جوانی ان پھولوں کی خوشبو سے ہم ہمیشہ مستفید اور لطف اندوز ہوتے رہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں