ڈپریشن کا شکار معاشرہ کی اکثریت 225

خوبصورت لڑکیوں کی عقل ٹخنوں کے نیچے ہوا کرتی ہے

خوبصورت لڑکیوں کی عقل ٹخنوں کے نیچے ہوا کرتی ہے

فقط
احقر
محمد فاروق شاہ بندری

۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707

دوسروں کے اجڑے چمن کو دیکھ ان سے سیکھ لیتے اپنا گھر ٹوٹنے سے بچانے والے ہی عقل مند ترین ہوا کرتے ہیںن حسین لڑکیاں شوہر کو اپنے دام الفت میں جکڑے ہمہ وقت اپنی من مانی کرتی پائی جاتی ہیں۔ کپڑا سکھانے رسی خوب اچھی طرح کھینچ کر باندھی جاتی ہے تاکہ کپڑے کے بوجھ کو سہہ سکے۔ اسکے لئے رسی کو حد سے زیادہ کھینچ کر باندھنے کی سعی میں عموما رسی ٹوٹ جایا کرتی ہے۔

کچھ ایسا ہی ہوتا ہے خوبصورت نازک لڑکیوں کے ساتھ۔ کچھ انکی لغزشوں سے انکی زندگی کا رشتہ ٹوٹنے کی کگار پر جب پہنچتا ہے تب بھی انہیں انکا یہ گمان یہ وہم کہ انکے شوہر تو انکے حسن کے دیوانےہیں،جھک مار کر وہ لوٹ آئیں گے اور انہیں منا لے جائیں گے۔ اسی انائیت کا شکار جب رشتہ ٹوٹتے ہوئے

نوبت طلاق تک پہنچتی ہے، تو بھی اپنی غلطی تسلیم کر، معافی تلافی کر، زندگی برباد ہونے سے بچانے کے بجائے، الٹا اپنے حسن و جوانی کے نشے میں، اپنے شوہر ہی کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر، اسے برباد کرنے کی جستجو ہوتی ہے۔ انہیں اس بات کا پتہ نہیں ہوتا کہ قرآن میں مالک کائیبات کے خود کہے مطابق “وَمَكَرُواْ وَمَكَرَ ٱللَّهُ ۖ وَٱللَّهُ خَيْرُ ٱلْمَٰكِرِينَ”
“اور انہوں نے تدبیر کی اور خدا نے تدبیر کی اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والوں میں سے ہے۔”

اوپر آسمانوں میں عرش معلی پر براجمان خالق کائیبات، دنیا میں ہر کسی کے ساتھ ہونے والے، خیر و بد، عمل کا علم رکھتا ہے اور جب کوئی بندہ یا بندی اپنے جھوٹ مکر سے کسی بے گناہ کے خلاف سازش کرتے پائے جاتے ہیں اللہ کی تدبیر کے سامنے انکی سب تدبیریں خاک میں مل جاتی ہیں یہی کچھ ہوا ہمارے ایک عزیز کے ساتھ۔ انہیں اپنی بیوی سے محبت لگاؤ تو تھا ہی مگر اپنے بچوں سے حد درجہ پیار بھی تھا۔ بچوں سے حد درجہ پیار کو انکی کمزوری کے طور لیا گیا اور انہیں دام الفت میں جکڑے رکھنے کی سعی کی جاتی رہی۔ ایسے پس منظر میں فی زمانہ میاں بیوی درمیان مفاہمت کرنے والوں کی بنسبت

، ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانے والوں کی بہتات دونوں طرف ہوتی ہے۔ ایسے میں معاملہ جب پہلی طلاق تک پہنچا تو ہم نے دونوں کے درمیان مفاہمت کی کوشش کی، نازک اندام حسینہ ایک حد تک مائل مفاہمت بھی ہوچکی تھیں۔ تحریری معافی تلافی بعد امید تھی مفاہمت ہوجائے گی، لیکن اچانک کسی کے بہکاوے میں اکڑ دکھاتے ہوئے،سلسلہ تعلق منقطع کیا گیا۔چونکہ ایک طلاق دی جاچکی تھی اس لئے بحکم قاضی شہر، عدت ایام گزارے جارہے تھے۔ قاضی شہر نے، قبل ختم عدت ،خلیج کے ریگزار میں مصروف معاش شوہر کو وطن آنے پر زور بھی دیا تھا تاکہ قبل اختتام عدت ایک دوسرے کو رجوع کراتے ہوئے زوجین کے درمیان مفاہمت کرائی جائے، اور شوہر نامدار بحکم قاضی, قبل اختتام عدت وطن آنے پر رضامند بھی ہو چکے تھے۔ اور امید تھی

قاضی شہر اور علماء کرام کی مفاہمتانہ کوششوں سے، دونوں کے درمیان مفاہمت ہوجائے گی۔ لیکن مشیت ایزدی کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ دوران عدت صنف نازک کی طرف سے، نامحرم خیر خواہاں اور وکلا سے مشاورت جاری تھی۔ اچانک شوہر کے وطن لوٹنے سے ایک دو دن قبل، اس کورونا کال محدود چارٹرڈ پروازوں کے بیچ، ایک نازک اندام مطلقہ، ماقبل اختتام عدت،خاوند کے علم بنا ہی، بغیر محرم کے، تین عدد ننھے بچوں کے ساتھ بھارت سے ہزاروں کلو میٹر دور، دوبئی پہنچتی ہیں۔ اور شوہر کے وطن لوٹنے کے بعد، الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے مثل مصداق، دوبئی کی شرعی عدالت میں، صاحب ریش گواہوں کے جھوٹے حلف ناموں کے ساتھ، شوہر کے خلاف جھوٹ افترا پروازی پر مبنی، انکے اور بچوں کےگزر بسر اور ہرجانے کا مقدمہ دائر کیا جاتا ہے۔

اور ہندستانی عدالتوں میں کھیلے جانے والے مکر پر مبنی کھیل کی طرح ، شوہر کا غلط موبائل نمبر دوبئی شرعی عدالت میں جمع کرواتے ہوئے، عدالت کی طرف سے کال کر یا پیغام رسانی کے ذریعہ بھیجے گئے پیغام پربھی، شرعی عدالت حاضر نہ ہونے پر، یک طرفہ فیصلہ اپنے حق میں کروانے کی کوشش کی جاتی ہے اور انہیں ایک حدتک کامیابی بھی ملتی ہے۔ دوبئی شرعی عدالت سے ماہانہ کچھ یزآر درھم پرورش اطفال و بیوہ ادائیگی کا حکم بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ لیکن جھوٹ کی عمر بھی کم ہی ہوتی ہے۔

مقامی قاضی شہر کے حکم پر، وطن لوٹے شوہر،مطلقہ بیوی کی وطن غیر حاضری میں مقامی محکمہ شرعیہ عدالت سے باقاعدہ طلاق واقع ہونے کے شرعی کاغذات لئے, چھٹی بعد دوبئی واپس پہنچنے ہیں یہاں واپس پہنچنے پر یک طرفہ عدالت کے انکے خلاف دئیے فیصلہ کا علم ہوتا ہے وہ بھی کسی اچھے وکیل کی خدمات حاصل کرتے ہوئے، انکی غیر حاضری میں دئیے گئے ایک طرفہ فیصلے کو اوپری عدالت میں نہ صرف چیلنج کرتے ہیں بلکہ الٹا فریقین سے بغیر جرح اتنی جلدی یکطرفہ فیصلہ سنانے کے خلاف اپیل دائر کی جاتی ہے۔ آج 29 ستمبر 2021 دوبئی شرعی عدالت میں انکے دائر کردہ کیس پر پہلی پیشی ہی میں،

سابقہ تمام فیصلوں کو مسترد کئے جانے کا فیصلہ ، گویا ایک حد سے شوہر کے حق میں آتا ہے۔ مستقبل میں اس تنازعہ کا جو بھی فیصلہ آئیگا اس کا تو علم کسی کو نہیں ہے لیکن زوجین کے درمیان طلاق پر ایک سال پورا ہورہا ہے۔ دونوں فریق خود سے اپنے اپنے طور، اپنا لائف پارٹنر تلاش کر، اپنی نئی زندگانی شروع کرنے کے لئے آزاد ہیں لیکن صدق دل سے یہ سوچا جائے کہ آج خسارے کی زندگی بسر کرنے پر کون مجبور ہوا ہے؟ وہ تو چالیس سے ایک دو سال کم بانکا جوان ہے۔ بچوں کی پرورش کی ذمہ داری بھی خود سر مطلقہ کے ذمہ ہے، ایسے میں اپنے انداز سے ازسر نو زندگی بسانے میں کوں کامیاب ہوگا؟ یہ ہر کوئی تصور کرسکتا ہے۔ ایسے میں مفاہمت کی کوششوں کے پایہ تکمیل تک پہنچنے سے پہلے، مفاہمت کے دروازے اپنے پر بند کرنے والی مطلقہ کے لئے مفاہمت بعد اپنے اکلوتے شوہر کے سامنے ایک حد تک جھک کر دوبارہ زندگی شروع کرنا اس کے لئے بہتر تھا یا اب بعد طلاق، ہر کسی کی بری نظروں کی تاب سہتے، الزامات بہتانات سے ڈر ڈر کر جینے والی زندگی اسکے لئے بہتر تھی یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔آج ہی کے دن کسی اور ایسی خودسر مطلقہ کی کہانی پر مبنی آئی اس ویڈیو کلپ نے ہمارے اپنے کے اس واقعہ کو، فی زمانہ نوجوانوں نسل کے سامنے رکھتے ہوئے، ہم ان سے بس اتنا کہنا چاہتے ہیں

کہ اچھےسےاچھا خوبصورت سےخوبصورت لائف پارٹنر حاصل کرنے کا خواب دیکھنے کو ہر کوئی آزاد ہے۔ لیکن مقدر کا جو بھی لائف پارٹنر ملا اسی پر اللہ رب العزت کا شکر ادا کر کچھ اپنی، کچھ فریق ثانی کی لغزشوں کے ساتھ، سمجھوتہ والی زندگانی بتانے میں جو خیر ہے وہ جدا جدا راہیں تلاش کرتے، زندگی بھر پچھتانے سے اچھا ہے۔ فی زمانہ کون تمام تر اچھی خصوصیات کے ساتھ صد فیصد اچھا ہے جو تمام تر خوبیوں والے صف فیصد اچھے کی خواہش پالے، جو اسےمقدر کاملا ہے اس پر ناشکری کرتے ہوئے، اپنی ہنسی خوشی ایک حد تک امن چین سکون سے بتانے والی زندگانی خراب کرتا یے۔ وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں