محسن پاکستان، عبدالقدیرخان بھی آسودہ خاک 176

پنجاب پولیس میں بے چینی کی کیفیت کیوں؟

پنجاب پولیس میں بے چینی کی کیفیت کیوں؟

تحریر اکرم عامر سرگودھا
فون نمبر 03008600610
وٹس ایپ،03063241100

ملکی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ پاک فوج کے بعد پولیس ایسا ادارہ ہے جو دفاع وطن اور قانون کے عملدرآمد کے ساتھ قانون شکن عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹتا ہے، پاک فوج کے بعد ملک میں دفاع وطن اور جرائم پیشہ عناصر کی بیخ کنی کے دوران سب سے زیادہ شہادتیں بھی پولیس فورس کے افسران و جوانوں نے حاصل کی ہیں، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ پولیس فورس پاکستان کا ایک اہم ادارہ ہے، جس کے جوان چوبیس گھنٹے ڈیوٹی کرکے جرائم پیشہ عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ دفاع وطن کیلئے کوشاں ہیں ،تھانہ، کچہری، مساجد،امام بارگاہوں، گرجا گھروں، سرکاری دفاتر،

بینک، حساس مقامات، حتیٰ کہ ایسے بیسیوں مقامات پر سیکورٹی ڈیوٹیاں بھی پولیس کے جوان احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں ، مہذب ممالک کے معاشرے میں پولیس فورس کو عزت احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور عوام دوران ڈیوٹی اپنے وطن کے رکھوالوں کو ان کی ہر سطح پر حوصلہ افزائی کرتے ہیں، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ وطن عزیز میں سب سے زیادہ تنقید کانشانہ پولیس فورس کو بنایا جاتا ہے ، حالانکہ ملکی تاریخ میں یہ واحد محکمہ ہے جو چوبیس گھنٹے یعنی رات دن ڈیوٹی دیتا ہے، پولیس کے جوان جاگ کر شاہراہوں، گلی محلوں، چوکوں، چوراہوں پر پٹرولنگ کرتے ہیں تو عوام سکون کی نیند سوتے ہیں۔
راقم کی ذاتی رائے کے مطابق پنجاب پولیس میں ترقیوں کا طریقہ کار درست نہیں ہے،جس کی مثال کچھ یوں ہے کہ پنجاب میں صوبائی پولیس سروس کے افسران و ملازمین اپنے حقوق نہ ملنے پر قانون کا سہارا لیتے ہوئے عدالت پہنچ چکے ہیں، اور ایس پی عہدہ کے دو افسران سید محمد عباس اور عاصم افتخار نے اپنے وکیل میاں بلال بشیر کی وساطت سے عدالت عالیہ لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس کی سماعت جسٹس شاہد کریم کر رہے ہیں، صوبائی پولیس سروس کے ان افسران کی درخواست پر وفاقی اور صوبائی حکومت و آئی جی پنجاب سے جواب بھی طلب کر لیا گیا ہے، درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ 1956، 1962، 1973 کے پاکستان کے آئین کے مطابق پنجاب پولیس سروس حکومت پنجاب کے ماتحت اور تمام عہدے ان کیلئے مختص ہیں۔
اس طرح پولیس سروس آف پاکستان (PSPs) کے افسران اور صوبائی پولیس سروس کے افسران کے درمیان قانونی جنگ شروع ہو چکی ہے، یہاں ستم ظریفی یہ ہے کہ اس تحریک کے محرک ایک سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی سید محمد عباس) کو سابق آئی جی پنجاب انعام غنی نے تعیناتی کے چند روز بعد شیخوپورہ سے جنوبی پنجاب تبدیل کر دیا، جس کی وجہ یہ تھی کہ ایس پی سید محمد عباس موصوف صوبائی اسمبلی کے ذریعے قوانین میں ترمیم کیلئے صوبائی وزیر قانون، چیف سیکرٹری پنجاب سمیت حکام بالا سے کئی ملاقاتیں کر چکے تھے، جس پر اپنے آپ کو نوری مخلوق سمجھنے والے پی ایس پیز کے دبائو پر سابقہ آئی جی پنجاب انعام غنی نے متذکرہ ایس پی انویسٹی گیشن کو شیخوپورہ سے جنوبی پنجاب تبدیل کیا گیا، ٹرانسفر پوسٹنگ نوکری کا حصہ ہوتا ہے، اسی بنیادپر سیدمحمد عباس اب ایس پی انویسٹی گیشن لیہ فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
سو بات ہو رہی تھی عدالت میں دائر درخواست کی تو دونوں ایس پیز نے اپنے دفاع میں مذکورہ بالا مسئلہ کے پس منظر کے ساتھ قانونی نکات اٹھائے ہیں، تا کہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ پنجاب پولیس میں تمام نشستیں صوبائی پولیس کے افسران کی ہیں جن پر پی ایس پیز کا قبضہ ہے، ان کا موقف ہے کہ صوبائی افسران کی تعیناتی صوبائی پبلک سروس کمیشن کے تحت کی جاتی ہے، جبکہ وفاق میں سرکاری ملازمین کی تعیناتی فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہوتی ہے، یوں دونوں کے تقرر کے اختیارات مختلف ہیں، Encadrement کے نام پر ایک حکومت یا سروس سے کسی ملازم کو دوسری سروس میں تعینات کرنے کیلئے نہ تو کوئی شق ہے

اور نہ کوئی جواز۔ اس لئے پولیس سروس آف پاکستان رولز 1985ء کہلانے والے قوانین آئین اور قانون کیخلاف ہیں۔ 18ویں ترمیم کے بعد پنجاب حکومت نے ترمیم کی تھی اور نیا پنجاب رولز آف بزنس 2011ء متعارف کرایا گیا، اور ان ترمیم شدہ قواعد کے چوتھے شیڈول کے مطابق ایس ایس پی، ڈی آئی جی تقرریوں، ترقیوں اور تبادلوں سے متعلق معاملات کیلئے ایڈیشنل آئی جی کو وزیر اعلی پنجاب کی منظوری درکار ہے۔ درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ پی ایس پی افسران کی تقرریوں، ترقیوں اور تبادلوں کے حوالے سے وفاقی قوانین میں ایسی کوئی شق نہیں ہے اس لئے یہ واضح ہو گیا ہے کہ 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 139 کے مطابق پنجاب پولیس حکومت پنجاب کے ماتحت ہے۔ دو ایس پیز کی درخواست پر عدالت عالیہ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے وفاقی اور صوبائی حکومت و آئی جی پنجاب سے جواب طلب کر لیا ہے، اس طرح اب پی ایس پیز اور صوبائی پولیس سروس کے ملازمین و افسران میں قانونی جنگ شروع ہو گئی ہے، یہ جنگ کون جیتے گا؟ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے ۔
یہاں یاد دلاتا چلوں کہ سابقہ آئی جی پنجاب انعام غنی نے اپنی ملازمت کے آخری ایام میں ایک حکم جاری کیا تھا کہ اپنے ضلع کا ڈومیسائل رکھنے والے پولیس افسران اپنے اضلاع میں تعینات نہیں ہو سکتے، ان احکامات پر موجودہ آئی جی پنجاب کے دور میں عملدرآمد ہو رہا ہے، پنجاب بھر کے تمام اضلاع میں اپنے ضلع کا ڈومیسائل رکھنے والے ایس ایچ اوز سے لے کر انسپکٹر، اے ایس آئیز تک کو تبدیل کر دیا گیا ہے، یہاں توجہ طلب امر یہ ہے کہ اس تبدیلی کے نتیجہ میں جرائم کی شرح میں دن بدن اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے،

کیونکہ دوسرے ضلع سے آ کر نئے ضلع کے تھانوں میں تعینات ہونے والے ایس ایچ اوز کو اپنے نئے علاقوں کے نہ تو جرائم پیشہ عناصر کا پتہ ہے اور نہ ہی جرائم کے ٹھکانوں کا، اس طرح نئے ایس ایچ اوز کی ضلع بدری سے جرم اور جرائم پیشہ عناصر کو ڈھیل ملی ہے، کیونکہ نئے تعینات ہونے والوں کو کئی ماہ تک اپنے ضلع میں جرائم پیشہ عناصر کا سراغ لگانے کیلئے کوشش کرنا پڑے گی، تب جا کر وہ اپنے تھانہ کے علاقہ کے شرفاء اور جرائم پیشہ لوگوں کو سمجھ سکیں گے۔
سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی بات ہو رہی تھی صوبائی پولیس سروس کے ملازمین کی جانب سے اپنے حق کیلئے عدالت عالیہ لاہور ہائیکورٹ میں دائر کی جانے والی رٹ کی جو دو ایس پیز سید محمد عباس اور عاصم افتخار نے کی ہے، راقم کی ذاتی رائے کے مطابق صوبائی پولیس سروس کے ان افسران و ملازمین کے مطالبات جائز نظر آتے ہیں، اور یہ افسران و ملازمین ایک طویل عرصہ سے اپنا حق مانگ رہے ہیں، اس دوران کئی حکومتیں آئی اور چلی گئیں، لیکن کسی بھی حکومت نے صوبائی پولیس سروس کے ان ملازمین کے جائز مطالبات کو پورا کرنے کی ہمت نہیں کی؟ جس سے ایسا لگ رہا ہے جیسے ہر حکومت نوری مخلوق (PSPs) سے خوفزدہ ہے؟
کپتان جی آپ بھی کے پی کے کی طرز پر دیگر صوبوں میں پولیس میں اصلاحات کا نعرہ لگا کر اقتدار تک پہنچے ہیں، لیکن آپ کے دور حکومت میں صوبائی پولیس سروس کے ملازمین اپنا حق مانگتے مانگتے عدالت جا پہنچے ہیں، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آپ اقتدار میں آتے ہیں کے پی کے کی طرز پر پنجاب پولیس میں بھی اصلاحات کا اعلان کرتے، لیکن ایسا نہ ہو سکا؟ جس کی وجہ سے لوگوں کو انصاف دینے والے صوبائی پولیس سروس کے افسران و ملازمین خود انصاف کیلئے ترس رہے ہیں اور انصاف حاصل کرنے کیلئے انہیں عدالت کا سہارا لینا پڑا ہے، کپتان جی آپ کی حکومت کا 3 سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے،

اور 2 سال سے کم عرصہ رہ گیا ہے، اب بھی وقت ہے کہ صوبائی پولیس سروس کے ملازمین سمیت دیگر محکموں کے ملازمین جو اپنا حق مانگنے کیلئے لاہور اسلام آباد کی سڑکوں پر احتجاج کرتے دیکھے جاتے ہیں، کے جائز مطالبات حل کرنے کیلئے کوئی پالیسی مرتب کریں تا کہ ان لاکھوں سرکاری ملازمین کوبھی ان کا حق مل سکے۔ ورنہ کپتان جی آپ کی جماعت نے بھی دیگر جماعتوں کی طرح 2023ء کے انتخابات میں ووٹ کیلئے عوام اور انہی ملازمین کے دروازے پر جانا ہے تو اگر ان کے مسائل حل نہ ہوئے تو یہ سرکاری ملازمین کیوں آپ کو ووٹ دیں گے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں