محسن پاکستان، عبدالقدیرخان بھی آسودہ خاک 160

محسن پاکستان، عبدالقدیرخان بھی آسودہ خاک

محسن پاکستان، عبدالقدیرخان بھی آسودہ خاک

تحریر: اکرم عامر سرگودھا
فون نمبر: 03008600610
وٹس ایپ: 03063241100

پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کچھ دن سے کرونا کے مرض میں مبتلاء ہو کر ہسپتال میں زیر علاج تھے کہ 10 اکتوبر کو اچانک الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر خبر سے پتہ چلا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان دنیا فانی سے رخصت ہو گئے ہیں، ملکی و غیر ملکی میڈیا کو اس خبر کو بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کیا، اس طرح ایٹم بم بنا کر پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے قومی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان جہان فانی سے رخصت ہو گئے، اور ملک میں ان کی وفات پر سوگ کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ ان کی رحلت سے قبل ان کے ساتھ حکومت کا جو رویہ تھا اس پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کئی سال سے نالاں نالاں نظر آ رہے تھے،

چند ماہ قبل سندھ کے وزیر اعلی نے انہیں پھولوں کا گلدستہ بھجوایا تو جواب میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے سندھ حکومت کو خط لکھ کر شکریہ ادا کیا اور دیگر صوبوں اور وفاق کی حکومت کے بارے میں اچھے تاثرات کا اظہار نہ کیا، حکومت کا ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ جو بھی رویہ رہا، وہ ایک الگ بات ہے، لیکن پاکستان اور امت مسلمہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اپنا ہیرو مانتی ہیں۔ کیونکہ آج ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں، اسے ایٹمی طاقت بنانے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا اہم کردار تھا، ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے دشمن ممالک بالخصوص بھارت پاکستان سے خوفزدہ ہے؟ اگر پاکستان ایٹمی طاقت نہ ہوتا تو پاکستان کے ساتھ محاذ آرائی یا جنگ جیسی کیفیت پیدا رکھتا؟لیکن چونکہ پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا اس لئے بھارت سمیت کسی ملک جرات نہیں کہ وہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکے۔ پاکستان سے پنگا لینے سے پہلے ملک دشمن ممالک کو سوبارسوچنا ہو گا؟
ڈاکٹر عبدالقدیر خان 1936ء میں ہندوستان کے شہر بھوپال میں اردو بولنے والے پشتون گھرانے میں پیدا ہوئے، 15 برس یورپی ممالک میں رہنے کے دوران مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ، بیلجیم کی یونیورسٹی آف لیوئون میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1971ء کی جنگ میں پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد 1976ء میں پاکستان سے محبت کے نتیجہ میں وطن آئے، ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ہالینڈ سے ماسٹر آف سائنس جبکہ بیلجیم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی

ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد 31 مئی 1976ء میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹی سے ملاقات کر کے ’’انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز‘‘ میں پاکستان کے جوہری پروگرام میں شمولیت اختیار کی، بعد ازاں جب جنرل محمد ضیاء الحق جب صدر پاکستان بنے تو یکم مئی 1981ء کو اس ادارے کا نام تبدیل کر کے ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز رکھ دیا گیا، یہ ادارہ پاکستان میں یورنیم کی تیاری میں نمایاں مقام رکھتا ہے، ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے نومبر 2000ء میں ملک میں ایک جدید تعلیمی درسگاہ ککسٹ کی بنیاد رکھی۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان دنیا کے وہ مایہ ناز سائنسدان ہیں جنہوں نے 8 سال کے انتہائی مختصر عرصہ میں اپنے ساتھی سائنسدانوں کے ساتھ مل کر محنت و لگن کے ساتھ کام کر کے پاکستان میں ایٹمی پلانٹ نصب کر کے دنیا بھر کے ممالک کے حکمرانوں اور نامور سائنسدانوں کو ورتہ حیرت میں ڈال دیا، موصوف نے میاں محمد نواز شریف جو کہ 1998ء میں وزیر اعظم تھے کو بھارت کے مقابلے میں ایٹمی تجربہ کرنے کا کہا تو 28 مئی 1998ء کو چاغی کے مقام پر 6 کامیاب ایٹمی دھماکے تجربہ کے طور پر کیے گئے تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پوری دنیا کو پیغام دیا کہ ہم نے پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بنا دیا ہے،

یوں ڈاکٹر عبدالقدیر خان پوری دنیا میں مقبول ہو گئے، سعودی مفتی اعظم نے عبدالقدیر خان کو امت مسلمہ (اسلامی دنیا) کا ہیرو قرار دیا اور پاکستان کیلئے خام حالت میں تیل مفت فراہم کرنے کا شاہی فرمان جاری کیا، ذرائع کے مطابق اس وقت سے پاکستان کو خام تیل سعودیہ کی جانب سے بغیر معاوضہ کے فراہم کیا جا رہا ہے، ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ڈیڑھ سو سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی تحریر کیے جو سائنس کے طالبعلموں کیلئے مشعل راہ ہیں۔ملکی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اگرچہ ہم محسن کش قوم ہیں، اس کے باوجود اللہ پاک ہر مشکل وقت میں ملک کو بچانے کیلئے کوئی نہ کوئی مسیحا بھیج دیتا ہے، انہی میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی شامل تھے، جنہوں نے ایسے وقت میں ایٹمی تجربہ کیا

کہ اگر اس میں تاخیر ہو جاتی تو پاکستان کا ازلی دشمن بھارت پاکستان پر حملہ کر سکتا تھا؟ حکومت پاکستان اور ہم نے محسن پاکستان کو زندگی کے آخری سالوں میں وہ عزت و احترام نہیں دیا جس کے ڈاکٹر عبدالقدیر خان مستحق تھے، ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کو جوہری صلاحیت بنانے کے بعد کتاب ’’سحر ہونے تک‘‘ بھی لکھی اس کتاب کی تقریب رونمائی میں بڑے بڑے نامور ادیبوں، دانشوروں اور مقتدر شخصیات نے انہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ پوری دنیا اور قوم جانتی ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر نے ایٹم بم بنا کر پاکستان کو احساس تحفظ فراہم کیا، اور ملک کو ناقابل تسخیر بنا دیا ہے۔

لیکن کیسی ستم ظریفی اور ظلم یہ تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے ملک میں زیر عتاب ہونے کے باعث اپنی کتاب کی تقریب رونمائی میں موجود نہیں تھے اور نظر بندی کی زندگی گزار رہے تھے۔ صاف ظاہر ہے کہ امریکہ کے حکمرانوں کے کہنے پر ایسا کیا گیا تھا؟ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جو کہ بیرون ملک اسائشیں چھوڑ کر پاکستان آئے ان پر یورپی ممالک نے کئی سنگین الزامات عائد کیے، لیکن کسی کی پرواہ کیے بغیر موصوف نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا، حکومت کی جانب سے انہیں تین بار ملک کے اعلی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا، مگر اس کے باوجود بے حس حکمرانوں اور قوم نے انہیں نظر بند کیا، جس پر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان کی نظر بندی پر پوری قوم سراپا احتجاج بن جاتی، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اور کسی نے ڈاکٹرعبدالقدیر خان کی نظر بندی پر کوئی خاص رد عمل ظاہر نہ کیا۔ حکومت کے نا مناسب رویہ کا ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنی زندگی میں گاہے بگاہے الیکٹرانک، پرنٹ و سوشل میڈیا کے ذریعے اظہار بھی کرتے رہے۔
سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی بات ہو رہی تھی پاکستان کے جوہری پروگرام کے روح رواں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے انتقال کی جس پر ملک میں سوگ کا سا ماحول ہے، موصوف پاکستان کے ہی نہیں امت مسلمہ کے بھی ہیرو اور محسن مانے جاتے تھے، انہیں مغربی دنیا کی جانب سے تنقید کا بھی سامنا رہا، ڈاکٹرعبدالقدیر خان کی زیر نگرانی بننے والے ایٹم بم کو مغربی دنیا نے اسلامی بم کا نام دیا، مرحوم کی ملک و قوم کیلئے خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں، مگر ملک کے حکمرانوں اور قوم نے ان کے ساتھ جو سلوک کیا وہ بھی تاریخ کا ایک حصہ رہے گا، دیکھا جائے تو پاکستان کے جوہری پروگرام میں تین اداروں نے نمایاں کردار ادا کیا، تا ہم اس میں ایک ادارہ جس کے سربراہ ڈاکٹرعبدالقدیر تھے کا کردار سب سے نمایاں تھا، موصوف کی پیشہ وارانہ مہارت بھی قابل ستائش تھی

، وہاں ان کا یہ کردار کہ انہوں نے دوسرے ممالک سے ایٹم بم بنانے کی تمام ٹیکنالوجی پاکستان منتقل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا، ان کو اس کردار پر امت مسلمہ جہاں ہیرو کا لقب دیتی ہے وہاں یورپی ممالک ان پر کڑی تنقید بھی کرتے رہے، ڈاکٹر عبدالقدیر خان بہترین انجینئر تھے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے ادارہ کو انتہائی عمدہ طریقہ سے چلایا اور جونیئر سائنسدانوں کی رہنمائی کی، اور ملک کے سائنسدانوں نے ایک ٹیم کی طرح رات دن محنت کی اور پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا۔ یہاں واضح کرتا چلوں کہ ایک مخصوص طبقہ نے اس کارنامے کا کریڈٹ ایک اور غیر معروف سائنسدان کو دینے کی بھی کوشش کی، لیکن اس عظیم انسان نے میزائل ٹیکنالوجی سے بھی ملک کو وہ مقام دلایا جس کا تصور کرنا بھی آسان نہیں تھا؟

جہاں تک ملک کے دفاع کو نا قابل تسخیر بنانے کا تعلق ہے تو اس میں تین اداروں کا اپنا اپنا کردار تھا، اس میں کسی کو کمتر ثابت کرنا مناسب نہیں۔بات ہو رہی تھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وفات کی تو افسوسناک بات یہ ہے کہ ان کے نماز جنازہ میں ملک کی ان مقتدر شخصیات نے شرکت نہیں کی جنہیں جنازہ میں شامل ہونا چاہئے تھا حالانکہ ان کی تدفین اسلام آباد میں ہوئی اور وزیر اعظم سمیت تمام وزراء اور مقتدر شخصیات اسلام آباد میں ہی رہتی ہیں، اس طرح محسن پاکستان ہزاروں سوگواروں میں موجودگی میں آسودہ خاک ہو کر اللہ کے حضور پیش ہو چکا ہے اور اب قوم نے اپنے تئیں کئی شہروں میں ان کی غائبانہ نماز جناز بھی ادا کی ہے، جس کی ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی زندگی میں وصیت کی تھی۔ اللہ پاک محسن پاکستان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائی، آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں