سکون کی تلاش
جمہورکی آواز ایم سرورصدیقی
٭ ایک اللہ والے سے کسی شخص نے اپنی بیوی کے عیب بیان کرنے شروع کردئیے وہ چپ چاپ سنتے رہے جب وہ شخص بیان کر چکا تو انہوںنے پوچھا تمہارے کپڑے کون دھوتاہے؟’’میری بیوی ۔۔ اس نے جواب دیا’’گھر میں کھانا کون تیارکرتاہے؟بزرگ نے پھر پوچھا۔۔۔میری بیوی ۔۔ اس نے بلا تامل جواب دیاگھر اور مال کی حفاظت کون کرتاہے؟۔۔۔ اس نے پھر جواب دیا۔۔۔میری بیوی
’’اچھا یہ بتائو ۔۔بزرگ نے استفسارکیا اپنے ماں باپ کا گھر بار چھوڑ کر ساری عمر کے لئے تمہارا ساتھی کون بنا ہے؟پریشانی ،مشکل اور دکھ درد میں تمہاری دل جوئی کون کرتاہے؟ تمہاری اولاد کی دیکھ بھال کون کرتاہے؟ اس ظخص نے فوراً کہا ظاہرہے یہ سب کام میری بیوی ہی کرتی ہے’’اچھا بزرگ نے تفہیمی اندازمیں سر ہلاتے ہوئے ایک بار پھر پوچھا تمہاری بیوی ان سب کاموںکی تم سے اجرت مانگتی ہے؟۔۔۔اس نے کہا جی نہیں
انہوںنے کہا تم نے چند عیب تو تلاش کرلئے لیکن بیوی کی یہ خوبیاں نظر نہیں آئیں بھلے آدمی تم سب کاموں کے لئے نوکر بھی رکھ لو جتنی دلجوئی ،محبت اورخلوص سے بیوی سب امور انجام دیتی ہے کوئی ملازم دے ہی نہیں سکتا۔۔۔اچھی بیوی کوبلاشبہ اللہ تعالیٰ کاانعام کہا جا سکتاہے قرآن نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قراردیا ہے اچھی بیوی اپنی صلاحیت ،محبت اورگھرہستی سے اپنے گھرکو جنت بنا دیتی ہے
٭ہم جتنے ہی طاقتور، امیرکبیر کیوںنہ ہو جائیں ہر شام زندگی کا ایک دن کم ہورہاہے اور ہم اسے روک بھی نہیں سکتے لیکن اللہ کتنا مہربان ہے وہ اپنے بندوںکو نئی صبح دے کر پھرمہلت د ے دیتاہے شاید میرا بندہ راہ ِ راست پر آجائے توبہ کرلے تو میں اسے بخش دوں بندہ خواب ِ غفلت کا شکارہے یقینا اسی لئے کہا گیاہے کہ بے شک انسان خسارے میں ہے اس کے باوجودکوئی عورکرنا پسندنہیں کرتا
سامان سو برس کا پل کی خبرنہیں
٭ایک بوڑھا شخص ہاتھ میں موبائل پکڑے موبائل ریپئیرنگ شاپ میں داخل ہوا دکاندارکو موبائل دیتے ہوئے بولا اس کو چیک کریں دیکھوکیا مسئلہ ہے؟نوجوان دکاندارنے موبائل فون کو چیک کیا الٹ پلٹ کر دیکھا کال بھی کی سب کچھ ایک دم ٹھیک تھا موبائل فون درست کام کررہا تھا۔۔۔یہ تو بالکل ٹھیک چل رہاہے بابا جی۔۔دکاندارنے موبائل فون واپس کردیا۔۔بابا جی نے موبائل فون لیتے ہوئے حیرت سے اس کی جانب دیکھا اور کہا بیٹا یہ بجتاکیوں نہیں اس پرمیرے بچوںکے فون کیوں نہیں آتے ۔۔اس کی بوڑھی آنکھوںمیں آنسو تھے۔۔۔کسی کے عیب تلاش کرتے رہنا یاپھراپنوںکو نظراندازکرنا ان کو جیتے جی قتل کرنے کے مترادف ہے
حالانکہ انسان کی سرشت میں شامل ہے وہ دو چہروں کو بھلانا بھی چاہے تو نہیں بھلا سکتا پہلا مشکل میں ساتھ چھوڑ جانے والا اور دوسرا مشکل میں ساتھ دینے والا۔۔۔اب تو ایسی نفسا نفسی آن پڑی ہے کہ الحفیظ و الامان ویسے سب انسانوں میں بشری کمزوریاں ضرور ہوتی ہیں ویسے انسان کبھی فرشتہ ہو ہی نہیں سکتا انسان اگر اپنے عیبوںپر نظردوڑائے تو یقین جانئے جہان میں ایک بھی برا نظرنہیں آئے گازندگی کی سب سے بڑی سچائی موت ہے جسے ہم بھلا بیٹھے ہیں سچ تویہ ہے کہ ہم جتنے ہی طاقتور، کتنے ظالم یا امیرکبیر کیوںنہ ہو جائیں ہر شام زندگی کا ایک دن کم ہورہاہے اور ہم اسے روک بھی نہیں سکتے لیکن اللہ کتنا مہربان ہے
وہ اپنے بندوںکو نئی صبح دے کر پھرمہلت د ے دیتا ہے شاید میرا بندہ راہ ِ راست پر آجائے توبہ کرلے تو میں اسے بخش دوں ۔۔خوفناک بات یہ ہے کہ ہم سمجھتے کیوں نہیں ؟ بے شک مشکل وقت کے دو چہروں کو فراموش کردینے والے کتنے خسارے میں ہیں ان کو اندازہ ہی نہیں نہیں کہاوت جیسی بات ہے اچھے لوگ بھینس کی مانند ہوتے ہیں جو روکھی سوکھی کھاکر بھی قیمتی دودھ دیتی ہے جبکہ برے لوگ سانپ جیسے ہوتے ہیں جو میٹھا دودھ پی کر بھی اپنے محسنوں کو ڈس لیتے ہیں اب یہ انسان کا اختیار ہے کہ وہ کیا بننا پسند کرتاہے؟شنیدہے بعض انسانوںکے سامنے تو سانپ بھی شرماکر دم دباکر اپنے بلوں میں بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔
۔ اپنوں کااحساس نہ کرنے والے تو سانپ کی خصلت کے مالک ہوئے نا۔۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے انسان کو درددِل کے واسطے پیداکیا لیک نیلسن منڈیلا کا کہناہے انسان پیدائشی طورپر کسی سے نفرت نہیں کرتا اسے نفرت کرنا سکھایا جاتاہے نفرت کرنا حالات سکھاتے ہیں ۔۔والدین سکھاتے ہیں۔۔کتابیں سکھاتی ہیں۔۔میڈیا سکھاتاہے ورنہ انسان کی فطرت تو محبت کرناہے اسی لئے تو کہا جاتاہے دنیا کا سب سے بڑا مذہب انسانیت ہے غورکریں ۔۔ انسانیت کی خدمت کرنے والے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ان کا نام ضرب المثل بن کر جاوداںہو جاتاہے دنیا کا کوئی مذہب نفرت کرنا نہیں سکھاتا یہ انسان ہی ہے جس نے مذہب کو انسانیت پرفوقیت دے دی ہے
اس کے لئے مذہبی رہنمائوںکا کردار انتہائی گھنائوناہے اسلام نے تو حالت ِ جنگ میں بھی دشمن کے بچوں،خواتین اور بوڑھوںکو نقصان پہچانے سے منع کیا ہے اور پیغمبرِ اسلام ﷺ کو اسی لئے اللہ تعالیٰ نے دونوں جہانوں کیلئے رحمت اللعالمین بناکر بھیجا۔۔۔عیب تلاش کرنا انتہائی آسان کام ہے یہ بات دعوے سے کہی جا سکتی ہے عیب تلاش کرنے کا فن سیکھتے سیکھتے انسان انتہا پسند بن جاتاہے پھردل سے مسجد،مندر،چرچ،سکول کی تمیز ختم ہو جاتی ہے ۔۔مذہب، مسلک اور زبان کا فرق بھی مٹ جاتاہے ،دلوںمیں نفرت کی فصل کاشت کرنے والے یقینا جہنمی ہیںپرلے درجے کے منافق اور انسانیت کے دشمن۔۔۔
سچ تویہ ہے کہ ہم جتنے ہی طاقتور، کتنے ظالم یا امیرکبیر کیوںنہ ہو جائیں ہر شام زندگی کا ایک دن کم ہورہاہے اور ہم اسے روک بھی نہیں سکتے لیکن اللہ کتنا مہربان ہے وہ اپنے بندوںکو نئی صبح دے کر پھرمہلت د ے دیتاہے شاید میرا بندہ راہ ِ راست پر آجائے توبہ کرلے تو میں اسے بخش دوں ۔ اللہ کے فرشتے ہر پل یہ منادی کرتے پھرتے ہیں دیکھنایہ ہے کہ محبت کون بانٹنا چاہ رہاہے۔ انسانوںکے دکھ دردپر کون بیقرار ہے۔۔۔ یہ بات طے ہے جن کے دلوںمیں انسانیت کی خدمت کا جذبہ ہے طمانیت انہی کا نصیب ہے ۔۔۔ہے کوئی جسے اس بے سکونی کے دور میں سکون کی تلاش ہے وہ مخلوق ِ خداکی بھلائی کے لئے کمربستہ ہوجائے زیادہ وسائل کی کوئی شرط نہیں اللہ تعالیٰ جذبہ دیکھتاہے وہ قادر ِ مطلق ہے نیت کا حال جانتاہے انسان کو نیکی کرتے رہنا چاہیے وہ چاہے تو راستے سے کانٹے ہٹا دینے پر راضی ہو جائے اور بخش دے آج سے محبت کی آبیاری مقصدبنا لیں سکون آپ کو تلاش کرتا پھرے گا ازمائش شرط ہے۔
٭ نوکیا کمپنی جب بکنے لگی اور مائیکرو سافٹ اسے لینے کا اعلان کرنے لگا تو اس پریس کانفرنس کے دوران ، نوکیا کے سی ای او نے آبدیدہ آنکھوں سے انتہائی دل سوز انداز میں اپنی تقریر کا اختتام یہ کہہ کر کیا: “ہم نے کچھ غلط نہیں کیا ، لیکن پھر بھی ہم ہار گئے۔” اس کے ساتھ ہی ، پوری مینجمنٹ ٹیم ، بشمول وہ خود سب رو پڑے۔ساری دینا جانتی ہے نوکیا ایک قابل احترام سیلولرکمپنی تھی۔ اس نے اپنے کاروبار میں کچھ غلط نہیں کیا لیکن دنیا بہت تیزی سے بدلی اور وہ سیکھنے سے محروم رہے اور وہ تبدیلی سے محروم ہو گئے ، اور اس طرح انہوں نے ایک قیمتی موقع ضائع کر دیا جو کہ ایک بڑی کمپنی بننے کا تھا۔ انہوں نے نہ صرف بڑی رقم کمانے کا ایک موقع گنوایا ، بلکہ انہوں نے زندہ رہنے کا موقع بھی گنوا دیا!
اس کہانی میں یہ پیغام:پوشیدہ ہے کہ اگر آپ تبدیل نہیں ہوتے ہیں تو آپ مقابل لوگوں سے ہار جائیں گے اور ماضی کی داستان بن جائیں گے۔ اگر آپ نئی چیزیں نہیں سیکھنا چاہتے اور آپ کے خیالات اور ذہنیت وقت کے ساتھ نہیں بدل رہی تو آپ وقت کے ساتھ ختم ہو جائیں گے! انسان تب تک کامیاب رہتا ہے جب تک وہ سیکھتا ہے ، اور اگر اسے لگتا ہے کہ اس نے کافی کچھ سیکھ لیا ہے اور یہ اسکے لیے کافی ہے تو اس نے اپنے آپ کو ناکامی کی طرف دھکیل دیا ہے جو ایک دن اسے یہ سوچ سٹیوو بالمر جیسے کامیاب کمپنی کے مالک کی طرح رونے پہ مجبور کر دے گی اور وہ سکون کی تلاش میں بھٹکتا پھرے گا۔