منشیات کی لعنت اور معاشرے کی ذمہ داری 139

’ کپتان جی کہاں ہیں، ایک نظر ادھر بھی‘

’ کپتان جی کہاں ہیں، ایک نظر ادھر بھی‘

تحریر: اکرم عامر
فون: 03008600610
وٹس ایپ: 03063241100

پنجاب پولیس میں ضلع کی سطح پر ڈی پی او کے بعد ایس پی انویسٹی گیشن کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، ڈی پی او انتظامی امور کے ساتھ جرائم کے خاتمہ اور امن و امان کے قیام کے لئے کام کرتے ہیں تو ایس پی انویسٹی گیشن کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اپنے ضلع میں درج ہونے والے مقدمات کو تفتیشی افسران سے میرٹ پر یکسو کرائے، اس بناء پر ایس پی انویسٹی گیشن کو ڈی پی او کی نسبت زیادہ سکیورٹی اور عملہ درکار ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے جرائم پیشہ عناصر کیخلاف درج ہونے والے مقدمات کی نگرانی کرنی ہوتی ہے، اس کے نتیجہ میں بڑے جرائم پیشہ عناصر کو ایماندار اور دیانتدار ایس پی انویسٹی گیشن ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ اور جرائم پیشہ عناصر کی جانب سے اکثر ایس پی انویسٹی گیشن کو دھمکیاں بھی ملتی رہتی ہیں، اسی بناء پر پنجاب پولیس میں ڈی پی او کے بعد ایس پی انویسٹی گیشن کو مناسب سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے۔
لیکن جان کی امان پائوں تو سی ایس پی کیڈر سے تعلق رکھنے والے ڈی پی او لیہ سید علی رضا نے ایک حکم کے تحت حال ہی میں ایس پی انویسٹی گیشن لیہ تعینات ہونے والے سید محمد عباس شاہ سے ایک سکہ شاہی حکم کے تحت عملہ جس میں نائب ریڈر محمد جمیل، گن مین محمد یعقوب، گن مین محمد شاہد منیر، گن مین غلام عباس، اردلی محمد اسلان، ڈرائیور عبدالرشید، کمپیوٹر آپریٹر/گن مین اعجاز حسین کو ایس پی انویسٹی گیشن لیہ کے دفتر سے تبدیل کر کے آئندہ تقرری کیلئے پولیس لائن بھجوا دیا ہے،

ایس پی انویسٹی گیشن سید محمد عباس شاہ شیخوپورہ میں تعینات تھے کہ انہیں چند روز بعد تبدیل کر کے جنوبی پنجاب کے ضلع لیہ میں تعینات کر دیا گیا تھا، ذرائع کے مطابق ان کے تبادلہ کے پس پردہ حقیقت یہ تھی کہ ایس پی انویسٹی گیشن لیہ سید محمد عباس شاہ اور ایس پی عاصم افتخار جن کا تعلق صوبائی پولیس سروس سے ہے نے پنجاب کے صوبائی پولیس سروس کے ملازمین کی ترقیوں کے حوالے سے عدالت سے رجوع کر رکھا ہے کہ سی ایس پیز اور صوبائی پولیس سروس کے ملازمین و افسران کو یکساں ترقیاں دی جائیں، کیونکہ صوبائی پولیس سروس کے ملازمین کی نسبت سی ایس پیز کو ترقی کے مواقع زیادہ دے دیئے گئے ہیں

، جو کہ خلاف قانون ہے، اس سے صوبائی پولیس سروس کے ملازمین کانسٹیبل سے افسران تک کی حق تلفی ہو رہی ہے اور صوبائی پولیس سروس کے ملازمین کی ترقیاں محدود ہو کر رہ گئی ہیں، صوبائی پولیس سروس کے ملازمین کے حقوق کی آواز اٹھانے پر انتقامی طور پر پہلے سید عباس شاہ کو شیخوپورہ سے جنوبی پنجاب کے ضلع لیہ بھجوایا گیا، اب سی ایس پی کیڈر نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے ایس پی لیہ سے سکیورٹی اہلکار و سٹاف کی اکثریت واپس لے لی ہے، ڈی پی او لیہ کے اس اقدام سے صوبائی پولیس سروس کے ملازمین میں بے چینی بڑھ گئی ہے کہ پنجاب پولیس میں نوری مخلوق کہلانے والے سی ایس پیز صوبائی پولیس سروس کے ملازمین کے ساتھ انتقامی کارروائیوں پر اتر آئے ہیں، اس طرح پنجاب پولیس میں صوبائی پولیس سروس اور سی ایس پیز میں محاذ آرائی بڑھ گئی ہے، جس کی وجہ صرف صوبائی پولیس سروس کے ملازمین کی جانب سے اپنا حق مانگنا ہے،

جن کا کہنا ہے کہ صوبائی پولیس سروس پنجاب کے ماتحت ہے، ان کی ترقی پوسٹنگ کا اختیار بھی پنجاب کو ہی ہے، جبکہ پولیس رولز کے تحت صوبائی پولیس سروس کا 20 فیصد کوٹہ کٹ کر کے سی ایس پیز کو دے دیا گیا ہے، اس طرح صوبائی پولیس سروس کے کانسٹیبل، اے ایس آئیز، سب انسپکٹر، انسپکٹر، ڈی ایس پیز، ایس پیز تک ترقیوں کے حوالے سے متاثر ہوئے ہیں، کیونکہ ان کی ترقیوں کے آگے سی ایس پیز کو لگا دیا گیا، اس نا انصاف کیخلاف ایس پی انویسٹی گیشن سید عباس شاہ اور ایس پی عاصم افتخار عدالت میں اپنے اور صوبائی پولیس سروس کے ملازمین کے حقوق کی قانونی جنگ لڑ رہے ہیں،

جس کی پاداش میں سی ایس پیز نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے ایس پی انویسٹی گیشن لیہ سے سٹاف اور سکیورٹی کی اکثریت واپس لے لی ہے، حالانکہ پنجاب کے دیگرکسی ضلع سے کسی ایس پی انویسٹی گیشن سے سکیورٹی واپس نہیں لی گئی، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا صرف ایس پی لیہ کے ساتھ ہی کیوں کیا گیا؟ جبکہ پنجاب میں صوبائی پولیس سروس کے دیگر ایس پیز انویسٹی گیشن سے سٹاف واپس نہیں لیا گیا۔ آئی جی پنجاب پولیس رائو سردار صاحب کیا یہ آپ کے علم میں ہے؟ اگر نہیں ہے تو آپ کو باور کرایا جا رہا ہے کہ سی ایس پیز کی جانب سے اپنے حق کیلئے قانونی جنگ لڑنے والے ایس پی انویسٹی گیشن لیہ کیخلاف انتقامی کارروائیاں کی جا رہی ہیں؟ جس سے پنجاب پولیس اور سی ایس پیز میں دوریاں بڑھ رہی ہیں،

اور پنجاب پولیس کے صوبائی سروس کے ملازمین میں بے چینی کی سی کیفیت پائی جا رہی ہے، اور صوبائی پولیس سروس کے ملازمین بے دلی کا شکار ہیں ، یہی صورتحال رہی تو پنجاب پولیس کی کارکردگی متاثر ہونے کا اندیشہ ہے، یہاں آئی جی پنجاب سے سوال ہے کہ ایسا آپ کے حکم پر ہوا ہے تو کیوں ہوا ہے؟ اگر عملہ محدود کرنا تھا تو پنجاب بھر کے ایس پی انویسٹی گیشنز کا کیا جاتا؟ ایسا صرف ایس پی لیہ کے ساتھ کیوں کیا گیا؟ جو ضلع بھر میں ہر طرح کے مقدمات جن میں سنگین نوعیت کے مقدمات بھی شامل ہیں کی نگرانی کرتے ہیں، اور انہیں میرٹ پر یکسو کروانے کا فرض نبھا رہے ہیں، یہی کام پنجاب کے دیگر ایس پی انویسٹی گیشنز کا ہے، تو آئی جی پنجاب صاحب انتقامی کارروائیوں سے جس طبقہ کو دبایا جائے وہ مزید ابھرتا ہے،

جب سے ایس پی سید عباس شاہ کیخلاف انتقامی کارروائیاں شروع ہوئی ہیں، اس وقت سے صوبائی پولیس سروس کے ملازمین میں سی ایس پیز کے بارے کوئی اچھی رائے نہیں پائی جا رہی، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ صوبائی پولیس سروس کے ملازمین کا جائز مطالبہ تسلیم کر کے صوبائی پولیس سروس اور سی ایس پیز کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کیے جاتے تو صوبائی پولیس سروس کے ملازمین بھی کانسٹیبل سے ایڈیشنل آئی جی، آئی جی پنجاب تک پہنچ پاتے، جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے، لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہو گیا، صوبائی پولیس سروس کے ملازمین نے اپنے حق کیلئے آواز کیا بلند کی، سی ایس پیز جو کہ پنجاب پولیس میں نوری مخلوق تصور ہوتے ہیں نے صوبائی پولیس سروس کے ملازمین سے انتقام لینا شروع کر دیا۔ آئی جی پنجاب سے سوال ہے

کہ ایس پی انویسٹی گیشن لیہ سے سکیورٹی سٹاف واپس لے کر ان کی زندگی رسک پر لگا دی گئی ہے؟ خدانخواستہ اگر ان کے ساتھ کوئی ناگہانی واقعہ پیش آیا تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ ڈی پی او لیہ یا آپ جناب؟ یہاں آپ سے یہ بھی سوال ہے کہ کیا ایس پی انویسٹی گیشن لیہ چند ملازمین کے ساتھ ضلع بھر کے مقدمات کی نگرانی کر پائیں گے؟ ایسا ہرگز ممکن نہیں ہے؟ جب عملہ ہی نہ ہو گا تو ایس پی انویسٹی گیشن لیہ کیا کریں گے؟ موصوف صرف دفتر میں بیٹھنے تک ہی محدود رہیں گے۔راقم کے علم میں ہے کہ ایس پی انویسٹی گیشن لیہ کا شمار پنجاب کے دیانتدار افسران میں ہوتا ہے جو جرائم پیشہ عناصر کے سامنے آہنی دیوار بن جاتے ہیں۔اور مظلوم کو انصاف کی فراہمی میں تاخیر نہیں ہونے دیتے۔یہاں ملک کے کپتان سے سوال ہے کہ آپ تو پنجاب پولیس میں کے پی کے کی طرز پر اصلاحات کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے تھے

اور آپ کو پنجاب میں اقتدار میں لانے میں صوبائی پولیس سروس جس کی تعداد لاکھوں میں ہے نے اہم کردار ادا کیا تھا، آپ کے دور اقتدار میں صوبائی پولیس سروس کے ملازمین کیخلاف ایسی انتقامی کارروائیاں آخر کیوں ہو رہی ہیں؟ جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی، کپتان جی آپ کو چاہئے کہ پنجاب کے کپتان عثمان بزدار کو ہدایت فرمائیں کہ اس معاملہ کافوری نوٹس لے اور آئی جی پنجاب اور ڈی پی او لیہ سے وضاحت طلب کرے کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ اور کپتان جی صوبائی پولیس سروس کے ملازمین کے جائز مطالبہ کی طرف بھی توجہ دیں ورنہ پنجاب میں صوبائی پولیس سروس کے ملازمین میں پائی جانے والی بے چینی کا غبار بڑھتا چلا جائے گا، جو پھٹ پڑا تو صوبائی پولیس سروس کے ملازمین دیگر سرکاری ملازمین کی طرح اسلام آباد اور لاہور کی سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آئیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں