ظالم سماج اور فضول رسومات
تحریر: محمد آصف سلطانی
دنیا اکیسویں صدی میں سانس لے رہی ہے اور پاکستان اس سال اپنی آزادی کے 74سال مکمل کر چلا لیکن حیران ہونے کی کوئی بات نہیں یہاں قانون بنانے والے قوانین کی دھجیاں اُڑا دیتے ہیں کئی ایسی کہانیاں موجود ہیں خیر سخت ترین قوانین کی موجودگی کے باوجود ملک میں کئی فضول رسومات آج بھی زندہ ہیں جبکہ ان کے عوض انگنت انسان متاثر یا اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں آج کا موجودہ انسان اشرف المخلوقات کا لقب پانے کے باوجود فرسودہ رسومات کا غلام ہے۔ وہ چاہے شادی پروگرام کی شکل میں ہوں یا پھر نائٹ پارٹیز کی شکل میں عوام کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ ان کی فضول خرچیوں کے نتیجے میں اپنے معاشرے پر کتنا بُرا اثر ڈال رہے ہیں، ملک جس بحران کا شکار ہے اس کے اندازہ سے آپ سب بخوبی واقف ہوں گے۔
تمام فضول خرچیوں کو اگر نظر انداز کر کے صرف شادی بیاہ کی فضول رسومات اور شادی فنگشنز وغیرہ کا جائزہ لیا جائے تو ماڈرن انسان کی انسانیت مردہ حالت میں ملتی ہے کہ اک طرف شادی کے نام پر عیاشی وفضول خرچ اور دوسری طرف غربت میں لپٹا انسان و جہیز جیسی لعنت کی ڈیمانڈ۔ ایک ایسی مجبور ماں کی کہانی آپ کے ساتھ شیئر کرتا ہوں پڑھ کے خود اندازہ لگائیے کہ کیا ہم اشرف المخلوقات جیسے لقب کے قابل ہیں۔ چند سو روپے دیہاڑی پہ مزدوری کرنے والے شخص نے آج سے ٹھیک ایک ماہ قبل اپنی چوتھی و آخری بیٹی کی شادی کی تو بیٹی کی بیمار ماں آج ایک عالم و مسجد امام کے پاس آئی اور کہا
بیٹا معصوم بیٹی کی شادی کو آج ہی ایک ماہ ہوا ہے باپ اور رشتے داروں سے جتنا ہو سکتا تھا جہیز میں دیا، حتٰی کہ کسی ہمسائے نے غریب کی بیٹی سمجھ کر ثواب کی نیت سے واشنگ مشین بھی لے کر دی میرے داماد نے کل یہ کہہ کر میری بیٹی کو گھر سے نکال دیا کہ تمہارے والدین واشنگ مشین دے سکتے تھے تو جہیز میں ایک موٹر بائیک لے کر کیوں نہیں دی اور مختلف بہانے بنا کر ظلم بھی کرتا ہے اور سارے گھر والے بار بار جہیز کا طعنہ بھی دیتے ہیں، بیٹا میں فالج کی مریضہ، بچی کا باپ ضعیف و آخری عمر کا مزدور، کہاں سے موٹر بائیک دے سکتے ہیں، یہ کہتے کہتے اُس خاتون کے دوپٹے کا پلّو آنسؤں سے تَر ہو گیا،
بخُدا اُس ماں کی کسمپرسی کی یہ حالت مُجھ سے بھی نہ دیکھی گئی میرے بھی آنسو نکل آئے مجھے بھی اپنی بہنیں اور اُن کا نصیب آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا، وہ خاتون کہنے لگی بیٹا شریک کیا کہیں گے ابھی تو ایک ماہ ہوا ہے شادی کو بیٹی کو گھر بٹھا دیا، بیٹا کِس کِس کو میں بتاتی پِھروں گی کہ بیٹی کو ہم نے بٹھایا نہیں بھیج دیا گیا ہے بیٹا کوئی وظیفہ بتا دو جب ہم بیٹی کو اُس کے گھر پہنچا آئیں اس کے گھر والے بار بار جہیز کا طعنہ دے کر زلیل نہ کریں اور داماد موٹر بائیک کا مطالبہ نہ کرے بلکہ اِس بات کو بھول جائے، خاتون کو عالم صاحب نے پانی پلایا، تسلی بھی دی اور ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔
عزیزو!!
کِس کِس کا دکھ لکھوں، ہر آدمی یہاں دکھی ہے قسم خدا کی جب دوسروں کے دکھ سامنے آتے ہیں اپنے غم ہلکے لگنے لگتے ہیں پستی کی اتھاہ گہرائیوں کا یہ عالم ہے کہ بُھوکے درندے ہونے لگے ہیں ہم، احسان میں یہ تھوڑا ہے کہ کوئی اپنے جگر کا ٹکڑا حکمِ ربی سمجھتے ہوئے دے دیتا ہے پھر بھی مال و متاع کی جانب خیال جاتا ہے، بیحسی کی انتہا کہوں یا غیرت کا فُقدان مَرد ہو کر، صحیح سالم ہو کر ذہن کے بیمار ہیں ہم لوگ مَردانگی اِسے سمجھتے ہیں کہ عورت سب کچھ سَہہ جائے پَر کچھ کَہہ نہ پائے
ظالم سماج کی جاہلانہ رسومات اپنا رکھی ہیں ہم نے یہ ظالم سماج جب تک شادی میں لاکھوں روپے لگا کر رقاصہ و موسیقی کا انتظام نہ کرے شادی کو شادی ہی تسلیم نہیں کرتا کیا مسلمان ہونے کے ناطے ایسے ہی سنتیں پوری ہوتی ہیں کیا تم مُسلم نہیں ہو خدارا ہوش کے ناخون لو اگر خدا نے تمہیں اپنے خزانے سے نوازا ہے تو اسکا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ تم لوگوں کا جینا حرام کر دو خدا کیلیے فضول رسومات کو ترک کریں نکاح کو سستا کریں سنت پر عمل کریں تاکہ بُرائیاں کم ہوں خود بھی سکون کی زندگی جئیں دوسروں کو بھی جینے دیں یہ اصلاحات کب ہوں گی اس بارے میں فوری طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے مگر امید کی جاسکتی ہے کہ جب بھی ایسا ہوگا انسانیت پر نیا ایک ”احسان” ہوگا۔ دعا ہے ربِ تعالیٰ ہمیں خدمتِ خلق کرنے اور نیک راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)