غازی علم الدین شہید کا 92 واں یوم شہادت 179

غازی علم الدین شہید کا 92 واں یوم شہادت

غازی علم الدین شہید کا 92 واں یوم شہادت 

تحریر: اکرم عامر سرگودھا
وٹس ایپ: 03063241100
فون: 03008600610

ہندوستان میں 1920 کی دہائی میں اشتعال انگیز کتاب شائع ہوئی، جس میں حضرت محمد ﷺ بارے نازیبا الفاظ تحریر تھے، اس وقت انگریز کی ہندوستان پر حکومت تھی، اور پاکستان کا قیام ہندوستانی مسلمانوں کے دلوں میں ابھی تک ایک دور کا خواب تھا۔ کتاب کی اشاعت سے مسلمانوں میں اشتعال پایا جا رہا ہے تھا اور وسیع پیمانے پر احتجاج کیا جا رہا تھا۔
ایک رپورٹ کے مطابق اس کتاب کو لاہور کے پبلشر راجپال نے شائع کیا، اور 1923 میں کتاب کی اشاعت کی ذمہ داری لی اور مصنف کا نام ظاہر نہ کرنے کا عہد کیا۔ مسلم کمیونٹی کے دباؤ کے نتیجے میں یہ معاملہ سیشن کورٹ لاہور میں لے جایا گیا جس نے راج پال کو مجرم قرار دے کر سزا سنائی۔ راجپال نے ہائی کورٹ میں سیشن کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی۔ جس کی سماعت جج دلیپ سنگھ نے کی اور سیشن کورٹ کا فیصلہ معطل کر کے راجپال کو رہا کر دیا، عدالت کے اس فیصلہ پر مسلم کمیونٹی نے تنقید کی اور احتجاج کیا گیا، اس وقت کسی کو گمان بھی نہ تھا کہ ایک نوجوان کا عمل قانون میں ایک اہم تبدیلی لائے گا۔
علم الدین لاہور کا ایک غیر تعلیم یافتہ نوجوان تھا، علم الدین کی 7 ویں پشت ’’لہنگاسنگھ‘‘ سے ملتی ہے جو مسلمان بادشاہ نور الدین محمد جہانگیر کے زمانہ میں مسلمان ہوئے، 4 دسمبر 1908ء کو طالع مند کے گھر علم الدین پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم مدرسہ سے حاصل کی اور والد سے بڑھئی کا کام سیکھا، 1928ء میں والد کے ساتھ کوہاٹ میں ٹھیکہ لے کر کام کیا، مارچ 1929ء میں لاہور گئے، 28 مارچ 1929ء کو ماموں کی بیٹی سے منگنی ہوئی۔ اس کے والد بڑھئی تھے، ایک دن وہ مسجد وزیر خان کے قریب سے گزر رہا تھا کہ راجپال کے خلاف مسلمانوں کی بڑی تعداد نعرے لگا رہی تھی، اور مقرر نے گرج کر کہا:

’’اے مسلمانو! شیطان راجپال نے اپنی گندی کتاب سے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بے حرمتی کی کوشش کی ہے‘‘۔ علم الدین اس پرجوش تقریر سے بہت متاثر ہوا اور اس نے دل میں کچھ فیصلہ کر لیا، جس کا کسی کو علم نہ تھا، غازی علم الدین 6 ستمبر 1929 کو فجر کی نماز پڑھ کر حضرت داتا گنج بخش ہجویری رحمت اللہ علیہ کی درگاہ پر حاضری دے کر کباڑیے سے خنجر خرید کر میو ہسپتال کے قریب محاشہ راجپال کی دکان کے سامنے پہنچ گیا، راجپال ابھی تک دکان پر نہیں آیا تھا۔ مکار راجپال چکمہ دے کر دکان میں داخل ہوا لیکن کچھ ہی دیر بعد ایک آدمی نے علم الدین کو اطلاع دی

کہ راجپال دکان کے اندر ہے۔ علم الدین دکان میں داخل ہوا، آگے بڑھ کر راجپال پر حملہ کر دیا۔ خنجر اس زور سے راجپال کے سینے میں گھونپا کہ اس کا دل اس کے جسم سے پھٹ گیا۔ راجپال زمین پر گر کر جہنم واصل ہو گیا۔ علم الدین نے فرار ہونے کی کوشش نہ کی، راجپال کے ملازمین اور لوگوں نے اسے پکڑ کرپولیس کے حوالے کر دیا۔ انہیں میانوالی جیل رکھا گیا، مقدمہ عدالت میں چلایا گیا، قائد اعظم محمد علی جناح ان کے وکیل تھے، جنہوں نے علم الدین پر زور دیا کہ وہ اقرار جرم نہ کرے، اور کہے کہ اس نے اشتعال انگیزی کی وجہ سے یہ فعل کیا ہے، 19 سالہ علم الدین نے یہ کہنے سے انکار کر دیا اور اصرار کیا

کہ اسے اپنے عمل پر فخر ہے، قائد اعظم محمد علی جناح یہ واحد کیس ہارے تھے، لاہور کی سیشن کورٹ نے علم الدین کو سزائے موت سنائی، مسلمانوں نے علم الدین کی خواہش کیخلاف ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی جو مسترد ہو گئی اور 31 اکتوبر 1929ء کو علم الدین کو میانوالی جیل میں پھانسی دے دی گئی۔اور بعد ازاں سرکاری حکام نے نماز جنازہ ادا کیے بغیر اسے دفن کر دیا، جس پر ہندوستان میں پھر مظاہرے پھوٹ پڑے، اور مسلمانوں اور ہندوئوں میں کشیدگی بڑھ گئی، لاہور کے رہائشی علم الدین کی میت کو لا کر لاہور میں دفن کرنا چاہتے تھے، شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور میاں عبدالعزیز نے اس بارے تحریک چلائی، جس میں وہ کامیاب رہے، اور انگریز نے بد امنی کے خدشہ کے پیش نظر علم الدین کی میت لاہور لے جانے کی اجازت دے دی،

جب 14 نومبر 1929ء کو علم الدین کی لاش کو اس کی قبر سے نکالا گیا تو اس کے کفن کا رنگ بھی نہیں بدلا تھا۔ دو دن کے سفر کے بعد میت لاہور پہنچی تو نماز جنازہ مسجد وزیر خان کے امام شمس الدین نے پڑھائی، جس میںدو لاکھ کے لگ بھگ مسلمانوں نے شرکت کی، مولانا ظفر علی خان نے تدفین سے پہلے کہا: “افسوس! کاش میں ایسی بابرکت سعادت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا۔ علامہ اقبال نے غازی علم الدین کی لاش کو قبر اتارا اور روتے ہوئے اعلان کیا: ’’یہ ان پڑھ نوجوان ہم پڑھے لکھوں سے بازی لے گیا۔‘‘
علم الدین کی شہادت کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ پینل کوڈ میں ایک شق شامل کی گئی، جس سے کسی بھی طبقے کے مذہبی عقائد کی توہین کو جرم قرار دیا گیا۔ علامہ اقبال کی 1930ء میں ایک علیحدہ مسلم ریاست کی تجویز کے نتیجے میں 1947 میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ پاکستان پینل کوڈ میں بھی کسی مذہبی عقائدکی توہین کے جرم کو برقرار رکھا گیا، 1982ء میں صدر ضیاء الحق نے پاکستان پینل کوڈ میں دفعہ 295B متعارف کرایا جس میں “قرآن پاک کی بے حرمتی” کی سزا عمر قید مقرر کی گئی ہے۔ 1986ء میں سیکشن 295C متعارف کرایا گیا تھا، جس میں اسلام کے حدود (مقرر کردہ سزاؤں) کو برقرار رکھتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں توہین آمیز کلمات کے استعمال پر سزا( سزائے موت) مقرر کی گئی،

ملک میں غازی علم الدین شہید کے نام سے کئی پارکس، ہسپتال اور سڑکیں موجود ہیں۔ اور 31 اکتوبر کو ہر سال پاکستان سمیت کئی اسلامی ملکوں میں غازی علم الدین شہید کا یوم شہادت منایا جاتا ہے، گزشتہ روز غازی علم الدین شہید کا 92 واں یوم شہادت گزر گیا، لیکن افسوس حکومتی سطح پر عاشق رسول ﷺ کی شہادت کے روز کوئی تقریب منعقد نہیں کی گئی، تا ہم ملک کے مختلف شہروں میں اپنے تئیں عاشقان رسولﷺ نے غازی علم الدین شہید کی 92 ویں برسی کے حوالے سے خال خال تقریبات کا اہتمام کیا۔ کاش ملک کو ریاست مدینہ بنانے کی دعویدار حکومت اس دن کو سرکاری سطح پر مناتی اور تقریبات کا انعقاد کرتی؟ لیکن ایسا کیوں نہ ہو سکا اس کا جواب تو حکمران ہی دے سکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں