پہلے پھینکو مشہور تھے اب چپکو بلائے جاتے ہیں 142

نازی ہٹلر کے یہ سنگھی چیلے، قول وعمل تضاد کے لئے ثانی نہیں رکھتے

نازی ہٹلر کے یہ سنگھی چیلے، قول وعمل تضاد کے لئے ثانی نہیں رکھتے

تحریر: نقاش نائطی
۔ +966562677707

یکم نومبر 2021 دنیا کے بیس بڑے ملکوں کی پیرس گلاسکو میٹنگ دوران بھارت کے پرائم منسٹر مہان نریندر مودی جی کی دل لبھاونی تقریر میں انہوں نے کہا کہ “سبھی ساتھ مل کر چلیں، سبھی مل جل کر میل جول بڑھائیں اور سبھی کے من بھی آپس میں ملے جلے رہیں۔”

نازی جرمن ہٹلر کے پیروکار بھارتیہ سنگھی نظریاتی، بے جے پی پرائم منسٹر،مہان مودی جی کا شروع سے ہی یہ اسلوب رہا ہے کہ جھوٹ کو اتنی دلیرانہ انداز، بلا جھجک مکرر بولا جائے کے، سامنے والا اسے جھوٹ کہنے سے پہلے، سو بار سوچنے پر مجبور ہوجائے۔2002 گجرات اپنے وقتی آقتدار کو حیات دوام بخشنے کے لئے، سرکاری مشینری کا دھڑلے سے استعمال کر، نہایت منصوبہ بند طریقہ سےگجرات فساد برپا کرتے ہوئے، ہزاروں گجراتی مسلمانوں کا قتل عام کروانے والے، ہزاروں حاملہ مسلم نساء کو سرراہ ننگا کرواکر چاقو چھری تلوار سے انکا پیٹ چاک کروا، انکے انجنمے زندہ بچوں کو ترشول پر اچھلوا مروانے والے، ہزاروں مسلم نساء کو سرراہ ننگا کروا،ان کی اجتماعی عصمت دری کروانے والے، 2017 یوپی انتخاب سے قبل اعظم گڑھ فساد میں یہی کچھ دہروانے ہوئے،

مسلمانوں کو دیوار سے لگوا،اپنے آپ کو ھندوؤں کا ویر سمراٹ ثابت کرواتے ہوئے ھندو اکثریتی ووٹ پر قبضہ جمانے والے، ابھی 2020 پڑوسی راجیوں سے فسادیوں کو دہلی لا انکے ہاتھوں دہلی فساد کروانے والے، اور ابھی کچھ مہینوں بعد یوپی میں ہونے والے انتخاب کو مذہبی منافرت کی آڑ میں جتوانے کی کوشش کے تحت، اپنے بنگلہ گرگوں کے ہاتھوں وہاں بنگلہ دیش کے درگا پوجا پنڈال میں قرآن مجید کی بے حرمتی کروا،بنگلہ دیشی کٹر پیتھی مسلمانوں کے ہاتھوں ان کی درگت بنوانے کے بعد، گجرات

گودھرا کانٹ کروا بدلے کی آگ بتا قاتل گجرات بننے والے، بنگلہ دیش ہندو بھائیوں پر ہوئے ظلم کے بدلے کی آگ بتا اور جتا تریپورہ کے انکے ھندو فسطائی شدت پسندوں کے ہاتھوں گجرات و اعظم گڑھ دہلی والا مسلم منافرت کھیل بھارت کی سب سے چھوٹی ریاست میں دہروانے والے، مہان مودی جی کی یہی شان نرالی ہے کہ انکے مسلم مخالفتی عملی اقدامات کے مخالف، عوامی سطح پر جب بھی وہ بولتے ہیں تو،گویا مانو انکے منھ سے پھول جھڑتے ہیں

قول و عمل تضاد ان کی تقریروں میں جو پایا جاتا ہے وہ عالم کے کسی لیڈر کی تقریر میں شاید ہی پایا جاتا ہوگا۔ ابھی آج پیرس منعقد 20 بڑے ملکوں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے،آسمانی وید شاشتروں کے اشلوک پڑھ کر جو مندرجہ ذیل تین نکات انہوں نے پیش کئے، 1)سبھی ساتھ مل کر چلیں، 2)سبھی مل جل کر اپنے تعلقات کو آگے بڑھائیں اور 3)سبھی کے من بھی آپس میں ملے رہیں۔ دیکھنے میں بہت اچھے دل لبھاونے لگتے ہیں لیکن کیا مودی جی کے 12 سالہ گجرات راج اور اب 7 سالہ دہلی راج کے، ان کے اپنے عملی اقدامات، ان کے قول و عمل کی قلعی کھولنے کے لئے کیا کافی نہیں ہیں؟

مسبھی عالم کے انسانوں کو سکھی دیکھنے کی خواہش کا اظہار کرتے مودی جی سے،یہ پوچھنے کی ہمت کیا کوئی کرپائے گا؟ کہ انکے 12 سالہ گجرات راج میں اور اب 7 سالہ لاشرکت غیرے پورے بھارت انکے قائم رام راجیہ میں، بھارت کی 138 کروڑ عوام کو وہ کس حد تک سکھ شانتی عطا کر پائے ہیں؟ سب کا ساتھ سب کا وکاس اور اچھے دن کے دل لبھاؤنے خواب دکھا، بھارت کا اقتدار ہتھیانے والے مودی جی نے، صرف اور صرف اپنے چند برہمن گجراتی پونجی پتیوں کے اچھے دن کے لئے، بھارت کی 138 کروڑ عوام کو، بے روزگاری مہنگائی اور اوپر سے مذہبی منافرت کی چکی میں پیس پیس کر، کس قدر تنگ بدھال و نڈھال رکھ چھوڑا ہے کہ وہ تو سکھ و شانتی سے زندہ رہ پاتے ہیں اور نہ ہی سکون سے مرسکتے ہیں۔ یہی دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے

کہ مہان مودی جی کے قول و عمل میں کس قدر تضاد ہے خود کو “میں تو فقیر ہوں اپنا جھولا اٹھائے کسی بھی وقت، کہیں پر چلا جاؤنگا” کہنے والے، بن بیایے، بن اولاد جوگی منش، اب تو سادھو سنتوں کا آکار بنائے گھومنے والے مودی جی، عوامی ٹیکس پیسوں کے 8ہزار کروڑ اپنے عیش و عشرت کے لئے جہاں خرچ کرتے ہیں وہیں انکی ذات پر خرچ کئے جانے والے 8 ہزار کروڑ، دیا سلائی جیسی معمولی چیزوں پر بھی جی ایس ٹی کی شکل ٹیکس کی صورت ادا کرنےوالےبھارت واسی، پیسے پیسے کے لئے کس قدر خود ترس، خود کشی کر مرنے پر مجبور ہوچکے ہیں یہ عالم کے اور لوگ کیا جانیں؟

مہان مودی کے رام راجیہ کی بس ایک خوبی جو جگ ظاہر ہے وہ یہ کہ سابقہ آئرن لیڈی کے نام سے مشہور بھارت کی مشہور ترین پرائم منسٹر شریمتی اندرا گاندھی کی طرح، ایمرجنسی نافذ کر، دیش کی مین اسٹریم میڈیا کو اپنے قابو میں کرنے کے بجائے، اپنے اقتدار قبل ہی سے، اپنے برہمن گجراتی پونجی پتیوں کو آگے کر، دیش کی تمام مین اسٹریم میڈیا کو، پہلے ہی سے،اپنے قابو میں کرچکے ہیں۔گویا وہ محترمہ اندرا گاندھی والے نام نہاد ایمرجنسی کو شوگر کوٹیڈ انگرئزی دوائیوں کی طرح، اپنے رام راجیہ کے ابتداء ہی سے، 138 کروڑ بھارت واسیوں پر ان دیکھی ایمرجنسی لگا چکے ہیں
وہ جو ہیں۔ تفکراتی ہزار اختلاف باوجود،

اگر بھارت پر اپنی حکومت دوران دیش کی 138 کروڑ عوام کو معشیتی طور خوشحال رکھا ہوتا تو ہر کمیاں خامیاں برداشت کی جاسکتی تھیں۔ لیکن بعد آزادی کانگریس کے پینسٹھ سالہ راج کے مقابلے سنگھی مودی جی کے، ان 7 سالہ رام راجیہ دور میں، بے روزگاری اور مہنگائی شرح اتنی بڑھ چکی یے کہ “عوام کے لئے عوام ہی کی یہ سرکار” عوام کے مستقبل کے لئے وبال جان بن چکی ہے۔ گھر کا بڑا بیٹا خود کماکے گھر آباد کرنے کے بجائے،باپ دادا کی پشتینی جائیداد ہیچ بیچ کھانے لکے تو، اسے نکما ہی کہا جائیگا،

اور جتنی جلد ہوسکے گھر کی ذمہ داری اسکے ہاتھوں سے چھین لی جائیگی۔ کیا یہی کچھ،دیش کی غریب جنتا کے 8 ہزار کروڑ ٹیکس پیسوں کو، اپنی عیاشیوں پر اڑانے والے، ہمارے جھولے بابا کو، جتنی جلد اقتدار سے بےدخل کیا جائے اسی میں دیش کی بھلائی کئا نہیں ہے؟ اس سمت دیش کے اعلی تعلیم یافتہ سول سوسائٹی افراد،دیش واسیوں کو اس وناش کاری مودی یوگی سرکار سے چھٹکارہ دلانے، سڑکوں پر کب نکلتے ہیں یہ دیکھنا اب باقی ہے وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں