تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آگئی ہے 147

تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آگئی ہے

تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آگئی ہے؎

تحریر:سیفی ملک
یہ ان دنوں کی بات ہے جب مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف ملک کے وزیراعظم ہوا کرتے تھے۔کرپشن نے نواز شریف کے تخت کی جڑیں کھوکھلی کر دیں۔نواز دور کے وسط میں پانامہ لیکس کا معاملہ ظاہر ہوا جس نے بے چارے نواز شریف کا کچھا چٹھا کھول کے رکھ دیا۔اس پانامہ لیکس کو پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور موجودہ وزیراعظم عمران خان نے بڑھاوا دیا اور اسی کو بنیاد بنا نواز حکومت کی پاکستان میں ساکھ تقریباً ختم کر دی۔اس وقت خان صاحب نے ایک نعرہ لگایا “تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آگئی ہے”۔
عمران خان صاحب ہر فورم پہ کہتے تھے میں اس ملک میں تبدیلی لاؤں گا۔ایک نظر سے دیکھا جاۓ تو ہمارا ملک پوری طرح سے تباہ ہو چکا تھا۔تھانہ کلچر تباہ، معیشت تباہ،نظام عدل تباہ،بیرونی قرضے،مہنگائ الغرض یہ ملک سیکڑوں بلکہ ہزاروں مسائل میں گھرا ہوا تھا۔اسی نظام کو بدلنے کی خان صاحب نے ٹھان لی۔الیکشن سے پہلے خان صاحب نے طریقے بھی بتا دیے کہ میں کس طرح یہاں تبدیلی لاؤں گا۔لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس نکلی۔
لوگ آج کل شکایت کرتے ہیں کہ خان صاحب تبدیلی کہاں ہے جو آنی تھی؟ آپ تبدیلی کے اتنے دعوے کرتے تھے۔کیا بنا ان دعووں کا؟ جو نظام پاکستان بدلنے کی اتنی باتیں کرتے تھے ان پر عمل کیوں نہ ہوا؟ اسی طرح کے سیکڑوں سوالات ہیں جو آج کل پاکستانی عوام ایک دوجے سے پوچھ رہی ہے۔کیوں کہ حکومت کی طرف سے صرف تقاریر ہی سامنے آ رہی ہیں۔یا قومی خطاب میں اگلے لائحہ عمل بتا دیے جاتے ہیں۔
درحقیقت ہمارے لوگوں کو ایک بات سمجھ نہیں آ رہی یہی کہ “تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آگئی ہے” جی ہاں واقعی۔ آئیے تبدیلی پہ ایک نظر ڈالتے ہیں۔ چینی جو کبھی 55 روپے ملتی ہے آج 100 روپے کے قریب ہے۔ تبدیلی آئی؟ تیل کو کبھی 90 یا 100 روپے لیٹر تھا آج 130 کراس کر چکا ہے۔تبدیلی آئی؟ پیٹرول جو کبھی ڈیزل سے بھی سستا ہوا کرتا تھا آج 150 کے قریب ہے۔تبدیلی آئی؟ وہ گھی جو 150 روپے کلو تک ملتا تھا آج 300 سے بڑھ چکا ہے۔ تبدیلی آئی؟ سبزیوں کے نرخ آسمان چھونے لگے۔تبدیلی آئی؟

الغرض مہنگائی کا طوفان برپا ہے۔نظام عدل اسی چوکھٹ پہ کھڑا ہے، قرضے مزید بڑھ چکے ہیں مشکلات اور بڑھ گئی ہیں۔ کاش خان صاحب نے یہ بتا دیا ہوتا کہ تبدیلی کس رنگ میں لاؤں گا۔ یہاں جو چیزیں مینشن ہیں دراصل دیکھا جاۓ تو ہمارے ملک کی یہی پہلی ضروریات ہیں۔خود سوچیں آٹا،گھی،چینی ٹرانسپورٹ کے لیے تیل/پیٹرول ہی اگر میسر نہیں ہوگا تو انسان نے سنور کر ملک کے لیے کچھ کرنا ہے؟اگر حکومت یہ کہتی ہے کہ عالمی سطح پر مہنگائی بڑھ چکی ہے اس لیے ہمارے ملک میں بھی اس کے اثرات ہیں تو ہمارا سوال ہے کہ عالمی سطح پر دیہاڑی دار طبقے کی ماہانہ آمدنی کتنی ہے؟ عوام کے پاس بھی جواب ہیں۔
بہرحال ہماری آج بھی خان صاحب سے توقعات ہیں کہ اس ملک کو سدھاریں گے اور وہ دن آۓ گا جب اس ملک میں امن و شانتی ہوگی کیوں کہ گزشتہ حکومتوں کو ہم آزما چکے ہیں بے شک مہنگائی کو کچھ لگام تھی لیکن انہوں نے ذاتی طور پر اس ملک کو لوٹا۔ خان صاحب کو اب ہر قدم سنبھال کر رکھنا ہوگا

کیوں کہ دشمن اب موقع کی تلاش میں ہیں۔پچھلے سالوں میں اپوزیشن کھل کر سامنے آ رہی ہیں اور خان صاحب کی تبدیلی کے دعووں کو جھوٹا ثابت کرنے کی سرتوڑ کوششیں کر رہی ہیں۔ خان صاحب تبدیلی لانے سے قاصر رہے کیوں کہ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ اس ملک کا نظام کس قدر بگڑا ہوا ہے۔ خان صاحب کو اب بیرونی اور اندرونی دونوں نظاموں سے بھرنا ہوگا۔دعا ہے خدا خان صاحب کی مدد فرمائے اور اس ملک کی مشکلات آسان فرمائے آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں