مسلم دشمنی درشا ھندو ووٹروں کو بے وقوف کرنے کی سنگھی سازش 146

مافوق الفطرت اولاد کی مناسب تربیت وتدریب وقت کی اہم ضرورت

مافوق الفطرت اولاد کی مناسب تربیت وتدریب وقت کی اہم ضرورت

کالم نگار:نقاش نائطی
۔ +966562677707

عصری تعلیم اسرار و رموز، بر وبحر کہ شمس و قمر و عالم فلکیات، سائینسی علوم، فزکس کیمسٹری بایولوجی اور جمع خرچ حساب اور اس کے اوصول الجبراء پر محیط ہے، اور حضرت انسان کی عقل ان میں سے کسی ایک کو، یا بعض وقت کئی علوم کی مہارت کو، اپنے میں پیدائشی پاتی ہے۔ ایسے بچے عموما ہزار میں ایک پیدا ہوتے ہیں

۔ بچپن میں ایسے بچوں کی ذہنی ارتقاء کو پرکھتے ہوئے، انہیں روایتی تعلیم دینے کے بجائے،بچپن ہی سے، انہیں عربی زبان سکھاتے ہوئے، براہ راست علوم قرآن حدیث سے رغبت و استفادہ کے حصول کی تڑپ پیدا کرتے ہوئے، اسکول و کالجز کے بجائے، عصری ترقی پزیر مختبر گاہوں میں،اس لائن کی خصوصی تدریب و تربیت، دی جانی چاہئیے۔اس سے ایسے بچوں کی ذہنی ارتقاء،عام رفتار سے زیادہ ترقی پاتے ہوئے،

نت نئے ایجادات سے عالم کو روشناس کرتے پائے جا سکتے ہیں۔ اور چونکہ ایسا کرنا کسی بھی عام والدین کے لئے ممکن نہیں ہوتا اس لئے، ہم مسلمانوں کے، 2008 میں قائم جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی، 2019 میں قائم جامعہ امام محمد انورشاہ دیوبند، 1920 کی قائم علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، جیسے عصری تعلیمی جامعات و یونیورسٹیز میں، علوم قرآن کی سرپرستی میں علوم عصر حاضر کی جدید ترین مختبر گاہیں

(لیباریٹریز) قائم کی جائیں اور ان میں اعلی تعلیم یافتہ اساتذہ کی خصوصی نگرانی میں ایسے مافوق الفطرت بچوں کی تعلیم وتربیت اور تدریب کا اہتمام کیا جائے تو یقینا بہت ہی کم عرصے میں عالم کو، ہم مسلمان موجدین کی ایک نئی کھیپ سے روشناس کرسکتے ہیں۔

عالم میں صرف 2% آبادی والی قوم یہود ہی ایک ایسی قوم ہے جو اس کی قوم کے ہر پیدا ہونے والی اولاد پرانکے والدین کے ساتھ ہی ساتھ حکومت کا حق،نہ صرف جتاتی ہے بلکہ ان کے پیدا ہونے سے قبل سے، اس انجنمی اولاد کی فکر و تربیت کے راستے تلاشتی پائی جاتی ہے۔ چونکہ اسرائیلی قوم خواندگی میں ملکی سطح پر عالم کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ قوم میں سے ایک ہے اس لئے عموما اکثر اسرائیلی، ایک دو بچوں والی مائکرو فیمیلز ہوا کرتی ہیں۔ اور شادی کے بعد جب وہ بچہ کے امید سے ہوتے ہیں

تو اسرائیلی قانون کی رو سے انہیں حاملہ ہونے کی اطلاع شروع دن ہی سے دینی ہوتی ہے۔ حکومت کی طرف سے متعین ادارے کی طرف سے، اعلی تعلیم یافتہ ذمہ دار کی تفویض حاملہ یہودن کے گھر اس کی کونسلنگ کےلئےبھیجی جاتی ہے، جو ہونے والے بچے کے والدین سے گفت و شنید و ہونے والے بچے کے تعلیمی مستقبل کے بارے میں ان کی آراء جاننے کے بعد، یا حکومت اسرائیل کی حالیہ حربی ضرورت کے تحت مستقبل کا سائینسدان بنانے کی ضرورت و فکر پر والدین کو قائل کرتے ہوئے،

انجنمے بچے کا تعلیمی مستقبل تیار کیا جاتا ہے۔اور جس لائن کی تعلیم دینا طہ پاتا ہے اس لائن کے بہترین اساتذہ کا تقرر کرتے ہوئے،اس حاملہ کی تعلیمی تربیت کرتے ہوئے ماں کے پیٹ میں پل رہے بچے کے ذہن و دماغ میں وہ تعلیمی صلاحیت ودیعت کی جاتی ہے۔ اور یوں، ہر پیدا ہونے والا اسرائیلی بچہ، اپنی عمر کی بچوں سے بہت زیادہ ذہین پیدا ہوتا ہے۔ دوران حمل اسکی ماں کو جتنی تعلیم ان مضامین کی دی گئی ہوتی ہے

اسی پس منظر میں وہ، اپنے نو زائیدہ بچے کو اسکول داخلے کے وقت 3 سال کی عمر تک تربیت دینے لائق بن جاتی ہے۔ کنڈر گارڈن نرسری کی ابتدائی تعلیم بعد، ان بچوں کی ذہنی استعداد کو پرکھا جاتا ہے اور انکے آئی کیو کے اعتبار سے، انکی آگے کی تعلیم سے انہیں روشناس کیا جاتا ہے۔ ثانوی تعلیم کے بعد،عالم بھر میں رائج روایتی تعلیم سے پرے، ان کے لئے مختص تعلیمی تربیت گاہوں یا مختبر گاہوں میں، انکی اعلی تعلیم و تربیت و تدریب کے انتظام ہوتے ہیں۔

لیس چپس و کنڈر گارڈن انڈے نما بیضاوی چاکلیٹ، جیسے عالمی مارکہ والے بچوں کے تمام کھانے پینے کی اشیاء و پیپسی، کوکا کولا،سیون آپ ، میرنڈا، فیزز و ڈبل بل جیسی قوت افضاء مشروبات کے مالک، اسرائیلی کمپنیاں ہونے کے باوجود، ایسی نقصان صحت اغذیہ سے اپنے اسرائیلی بچوں کو ماورا رکھتے ہوئے، ان اغذیہ کے مضر اثرات سے، انہیں آمان میں رکھا جاتا ہے، اب ہر کوئی تصور کر سکتا ہے، کہ ایسے تربیت و نگہداشت و تدریب والے، انسانیت دوست ماہر اساتذہ کی سرپرستی میں اعلی تعلیم پانے والے بچے، اگر ساینس دان بن کر نوبل انعام کے حقدار بنتے ہیں یا، لاسلکی مواصلاتی (ٹیلکومیونیکیشن) گوگل، فیس بک، انسٹاگرام اور ایپل جیسی عالمی کمپنیوں کے مالک بنتے ہیں تو اس میں کونسی بڑی بات ہے؟

کیا ہم بھول گئے خلافت راشدہ، عباسیہ، فاطمیہ،یا عثمانیہ دور حکومت میں، مسلم حکومتی سرپرستی والی مختبر گاہوں اور رسدگاہوں سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے، ان ایام عالم کو نت نئے ایجادات سے مستفید کیا ہم مسلمانوں نےنہیں کیا تھا؟ آج ہم مسلم امہ نے علم عصر حاضر اور علوم قرآن و سنت کو جدا جدا تسلیم کرتے ہوئے، کسی ایک کے ہی ہوکر ہم رہ گئے ہیں۔ اس لئے اتنی تیز تر ترقی پزیری سے محروم ہیں۔

جبکہ یہود و نصاری اپنے سائینس علوم کی اعلی تعلیم حاصل کرنے والے ذہین طلباء کو عربی زبان لازمی سکھاتے ہوئے، اپنی سائینسی ایجادات کے مضامین کے سلسلہ میں براہ راست قرآن مجید سے استفادہ حاصل کرنے، تمام تر سہولیات انہیں فراہم کئے ہوتے ہیں۔ ہم مسلمان ہوتے ہوئے ہمیں عصری تعلیم کی آگہی کے سلسلےمیں قرآنی تعلیمات سے استفادہ کا اتنا یقین نہیں ہے وہ منکرین اسلام ہوتے ہوئے بھی، قرآنی تعلیمات سےاپنی ایجادات کی رہنمائی لیتے پائے جاتے ہیں۔
ہمیں امید ہے

واثق ہے کہ بھارت میں سابقہ سو سال سے موجود دیوبند، دہلی، علیگڑھ کے تین عصری تعلیمی جامعات یا یونیورسٹیز ، دئش بھر کے مسلم زیر اہتمام بڑے تعلیمی ادارے، اپنے یہاں قرآنی تعلیمات کی روشنی میں عصری تعلیمی مختبر گاہیں اور رسد گاہیں تعمیر کریں اور عرب ممالک ہی سے اعلی تعلیم یافتہ عصری تعلیم کے ماہرین کو، انکی تعلیمی تربیت و تدریب پر معمور کریں تو، وہ دن دور نہیں، دیوبند و ندوہ سے دینی علوم کے فارغین نے تقریبا”، پورے عالم کے ممالک کے سفارت خانوں میں عربی مترجم و اسلامی مدرسوں میں تدریس کے لئے، متمیز مقام جو حاصل کئے ہیں ، بہت جلد عالمی سطح پر تمدنی ترقی پزیر عصری ایجادات بھی، اپنے نام کرتے پائے جائیں گے۔انشاءاللہ۔
800 سو سالہ تقریبا” پورے عالم پر اسلامی حکومت اور ابھی سو ڈیڑھ سو سال پہلے تک خلافت عثمانیہ کے پرچم تلے نصف عالم پر خلافتی حکومت سے خائف، یہود و نصاری سازش کندوگان نے، ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت، سابقہ کئی سوسال تک آپس میں لڑنے مرنے والے غیر مسلم ممالک کا گٹھ جوڑ بناکر، نہ صرف عالم کے نقشہ سے خلافت اسلامیہ کے آخری قلعہ خلافت عثمانیہ کو مسمار کیا تھا، بلکہ مملکت عثمانیہ کو روس و فرانس و برطانیہ و امریکہ نے آپس میں بندر بانٹ تقسیم کرتے ہوئے،

اپنی تابعداری میں ہی رکھا تھا۔ جو امریکی جمہوریتی ہوا کے رخ پر، مختلف عرب ممالک کے آزاد ہونے کے باوجود، آج تک یہود و نصاری کے انجانے ذہنی غلام بنے،امت مسلمہ عالم کے، یہود و نصاری کے آگے اسیری کے باعث بنے ہوئے ہیں۔ اب ایک طرف اولین ایٹمی طاقت پاکستان، اپنی ہزار کسم و پرسی باوجود، اور عالمی یہود ونصاری سازش کنندگان کے، پاکستان میں موجود، جمہوریت نواز انکے زر خرید مہروں کی ہزار کوششوں کے باوجود، پاکستانی افواج اںٹیلی جنس، عالمی طاقتوں سے نبزد آزما، جس تیزی سے عالمی سطح پر،حربی طور مضبوط تر ہوتے ہوئے، اپنا مقام متمئز قائم کئے جارہی ہے،

تو دوسری طرف مملکت ترکیہ سابقہ دو دہے سے، انکے پیش رو کی سرپرستی میں، طیب اردغان ایک سوچے سمجھے لاحیہ عمل کے ساتھ، ترکیہ کو حربی و معشیتی طور مضبوط کرتے ہوئے، 2023 “اختتام اسیری ترکیہ عقد لوزین” سے آزاد ہونے کے بعد، مسلم امہ عالم کی نیابت سنبھالتے دکھ رہی ہے، ایسے میں، بعد زوال خلافت عثمانیہ پورے عالم اسلام کے سو سالہ ہزیمت زد دور بعد، اب صاحب امریکہ کے پاس موجود، عالم کی رہبری کا تاج، چائینا کے ہاتھوں چھنتے پیش منظر میں، ترکیہ و پاکستان کا حربی گٹھ جوڑ گر یوجاتا ہے تو ایکیسویں صد کے نصف بعد سے، آئیندہ آنے والا دور، ہم مسلمانوں کے لئے بڑا ہی تابناک نظر آتا ہے۔انشاءاللہ

ابھی کچھ دنوں پہلے یوپی دیوریہ ڈسٹرکٹ، وکاس کھنڈ قصبہ میں، اوراہی گاؤں کے، جنت محسن خان کے گھر میں جنمے صارم خان نے 11 سال کی عمر ہی میں، ساتویں کلاس تعلیم حاصل کرتےہوئے، سائینس ہی کے ایک مضمون فزکس میں،خالق کائیبات کی طرف سے عطا کردہ محدود ذہنی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے، خود اپنی ذاتی محنت سے عالمی شہرت یافتہ سائینس دانوں کی موٹی موٹی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوئے، فزکس مضمون میں نہ صرف مہارت حاصل کرلی ہے بلکہ “ایس کے ونڈر” نامی یو ٹیوب شروع کرتے ہوئے

گوگل کی معرفت عالم کے فزکس سائینس اعلی تعلیم یافتگان کو متحیر العقل کرکے رکھدیا ہے۔ یہ 11 سالہ گلی میں گلی ڈنڈا کھیلنے کی عمر خان بچہ، اپنی ذہانت سے، اپنے طور عالمی شہرت یافتہ آئینسٹائین، آئیزک نیوٹن اور ہوپنکسن اسٹیفن جیسے سائینس دانوں کی تصانیف پڑھتے ہوئے، اپنے سے بڑے،جے این این اسکول 11 کلاس کے طلبہ کو، آن لائن فزکس سائینس پڑھارہا ہے۔ ایسی خداد صلاحیت کے بچے اگر کسی یہودی و مسیحی خاندان میں پیدا ہوئے ہوتے تو، اسرائیلی و امریکی حکومت، اس کی تعلیم و تربیت و تدریب کی تمام تر ذمہ داری اپنے ذمہ لیتے ہوئے، اسے اپنی مختبر گاہوں اور رسد گاہوں میں اعلی سہولیات دیتے ہوئے، اسے یقینی طور پر عالم کا بہت بڑا موجد اور سائینس دان بنارہے ہوتے۔

یہاں ایک بات کا اظہار ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ، 1947 اپنے ایٹمی ہتھیار سے لاکھوں جاپانیوں کی ہلاکت بعد، عالم کی نیابت کے، اس وقت تک کے اکلوتی حربی طاقت والے، یو ایس آیس آر ( روس) سے عالمی طاقت کے شراکت دار بننے والے ملک،صاحب آمریکہ نے، اس وقت کے غریب تر ملک بھارت سمیت، عالم کے غریب ملکوں کی تعلیمی امداد کے بہانے سے، ان ممالک کے تعلیم حاصل کرتے ابتدائی مدارس کے طلبہ درمیان، مجمد میٹھے دودھ کے ڈبے اور اراروٹ(اوٹس سیرئیل) ناشتہ فری تقسیم کروانے کے بہانے سے، اپنے سفارت خانے کی معرفت غریب ممالک کے تمام اسکولوں کی نگرانی کرتے ہوئے،

ابتدائی درجات ہی سے ذہین تر طلبہ پر نظر رکھتے ہوئے، ثانوی تعلیم ہی کے بعد، تعلیمی اسکالرشپ دیتے ہوئے، انہیں اعلی تعلیم امریکہ میں دلوانے کا کہتے، انہیں امریکہ بلوا، خاص نگرانی میں انہیں اعلی تعلیم مع وظائف دیتے ہوئے، انکے تعلیم اختتام بعد، اچھی پرکشش تنخواہ اور امریکی جنسیہ دیتے ہوئے، ایک اعتبار سے ان ذہین دماغ طلبہ کو زرخرید غلام بنائے، انسے استفادہ حاصل کرتے ہوئے، عصری سائینسی ایجادات ان سے کرواتے ہوئے، سائینسی ترقیات میں عالم میں ایک اچھوتا متمئز مقام حاصل کئے ہوئے ہے

۔ابھی کچھ سال قبل دوبئی میں تعلیم حاصل کررہے ایک پاکستانی طالب علم نے کسی عالمی آن لائن مقابلے میں نمایاں کامیابی حاصل کی تھی تو اس کے فورا بعد معروف عالمی ایپل کمپنی کے مالک بل گیٹ کی طرف سے،اس لڑکے کے والد کے نام نہ صرف مبارکبادی پیغام موصول ہوا، بلکہ حوصلیابی انعام کے طور، اس طالب علم کو، اسکے والدین کےہمراہ، ایپل کمپنی کے مصارف پر، امریکہ ایپل کمپنی دیکھنے وزٹ آنے کی

دعوت دے ڈالی، اور انکے امریکہ دورے میں، اس لڑکے کی اعلی تعلیمی تدریبی مصارف برداشت کرتے ہوئے،انہیں وہیں امریکہ میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کی پیشکش کرتے ہوئے،اس پاکستانی بچے کے مستقبل کے ذہن کو اس کی اعلی تعلیمی تربیت کے بہانے خریدنے کی کوشش کی تھی۔ یہی تو اصل تجار ذہن عالمی تاجر کا وطیرہ ہوا کرتا ہے کہ کچھ پانے کی کوشش میں، کچھ خرچ کیا جاتا ہے
ہمیں یاد پڑتا ہے چالیس پینتالیس سال قبل کسی کام سے کرناٹک شیموگا ڈسٹرکٹ کے کسی چھوٹے قریہ نما گاؤں میں ہمارا جانا ہوا تھا۔ وہاں اپنا کام نکلوانے، کسی با اثر مسلم شخصیت کو تلاش کرتے ہوئے پتا چلا تھا کہ وہاں ان ایام ہوائی جہاز بنانے کی صلاحیت والےکوئی مسلم سائینسدان رہتے ہیں۔ چونکہ کالج زمانہ تلمیذی دوران ہمارا وہاں جانا ہوا تھا، تو ان سے ملنے کی جبلت ہمیں انکے گھر دستک دینے پر مجبور انکے در لے گئی تھی

۔ہمیں یاد پڑتا ہے ان ایام پانی کے بہاؤ طاقت سے یا پانی کو بھاپ میں منتقل کر، اس سے بجلی پیدا کرنے سے یا پیٹرول سے بجلی پیدا کرنے کی سہولت سے پرے، انہوں نے ہوا سے بجلی پیدا کرنے والا آجکل کا معروف ایرٹربائین بنانے کی طرف کچھ پیش رفت کی تھی اور اس سمت انکے لکھے مقالے دہلی کی کسی سائینسی میگزین میں طبع ہوتے ہوئے، پونا مہاراشٹرا ،منی پال کرناٹک کی تعلیم گاہوں سے پرکشش آفر بھی ملے تھے۔ لیکن وہ کچھ تنگ نظر تھے اس خوف سے کہ انکا فارمولا ہاتھ لگنے کے بعد، انہیں لاتعلق کر، اس کا پورا استفادہ وہ لوگ نہ لے لیں اس لئے،کسی مسلم ادارے کے وہ متلاشی تھے

۔ ہم نے ان سے ان کے مطبوعہ مقالوں کی نقل لیکر، اپنے مقامی انجینئرنگ کالج مینجمنٹ تک، نہ صرف پہنچایا اوراس پروجیکٹ کی سرپرستی کرنے کی استدعا بھی کی تھی،بلکہ ان مطبوعہ نقول کو 1983 مملکت سعودی عرب اپنے ساتھ لاتے ہوئے، ان ایام الخبر یو پی ایم یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہمارے دوست کی معرفت اس ہوا سے بجلی پیدا کرنے والےٹربائن پروجیکٹ کے پیپر نقول پیٹرولیم یونیورسٹی تک پہنچائے بھی تھے۔ بعد کے دنوں میں جستجو پر پتا چلا تھا کہ نؤئے کی دہائی میں ایرانی حکومت کی دعوت پر وہ ایران چلے گئے تھے

غالبا نؤے کی دہائی میں جدہ سے شروع ہونے والے مشہور اردو روزنامہ”اردو نیوز” اخبار معرفت، حکومت سعودیہ کو،کچھ اسی قسم کی صلاح ہم نے، اس اخبار میں چپھے اپنے مقالے میں دی تھی کہ عالم کے انجینیرنگ طلباء کو، الخبرکے آرامکو پیٹرولیم یونیورسٹی میں، تعلیم حاصل کرنے وضیفیاتی اسکیم کے تحت بلائے جیسا، مسلم دنیا کے پیدائیشی اعلی ذہن طلباء کو، اپنے سفارت خانہ کے ذریعہ سے، وضیفیاتی تعلیم دلوانے کے بہانے ،

مملکت سعودیہ بلواتے ہوئے، بعد اختتام تعلیم انہیں، یہاں پرکشش نوکری اور سعودی مستقل طویل مدتی رہائشی ویزے یا سعودی نیشنیلٹی دیتے ہوئے، مسلم دنیا کے ذہین تر دماغ کو سعودی عرب میں بساتے ہوئے، امریکی طرز سائینسی ترقی حاصل کی جائے، اب فرمان روائے مملکت سعودی عرب، ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان آل سعود کی دور رس نگاہ، وزن 2030، مملکت کو پیٹرول سے ماورا،دیگر ذرائع آمدنی سے، عالمی سطح کی تجارتی مملکت بنانے کی، اپنی حکمت عملی کے تحت، مختلف ممالک کے اعلی تعلیم یافتگان و ہنر مندوں کو سعودی نیشنیلٹی تحفطا” عنایت کی جارہی ہے

کاش کہ یوپی اوراہی گاؤں کے صارم جیسے پیدائشی ذہین طلبہ کو، جامعہ ملیہ دہلی، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، جیسے ادارے، اپنے یہاں وضیفہ یاب پرکشش اسکیم کے تحت انہیں اپنی سر پرستی میں لیتے ہوئے، خصوصی نگرانی میں، انہیں ہر اقسام کی تعلیمی تدریبی سہولیات مع مختبر و رسدگاہ مہیا کرواتے ہوئے، یا بھارت کے ہزاروں مسلم تونگروں میں سے کوئی، ایسے پیدائیشی خداد صلاحیت والے غریب و گمنام طلباء کی تعلیمی سرپرستی کرتے ہوئے، مستقبل کے مسلم سائینس دان بنائے جائیں، ورنہ یوپی دیوریہ والے صارم کے اپنا یوٹیوب کوچنگ کلاس شروع کر، کچھ ہزار لاکھ کما، اپنی عمر گمنامی میں بسر کرتے پائے جائیں گے۔ واللہ الموافق بالتوفیق الا باللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں