نگاہ حقیقت "سیاحتی مقام ملکہ کوہسار مری گاڑیاں تابوت بن گئیں اورخوشیاں ماتم میں بدل گئیں 136

سیاحتی مقام ملکہ کوہسار مری ۔ گاڑیاں تابوت بن گئیں اورخوشیاں ماتم میں بدل گئیں”

سیاحتی مقام ملکہ کوہسار مری ۔ گاڑیاں تابوت بن گئیں اورخوشیاں ماتم میں بدل گئیں

نگاہ حقیقت

تحریر ۔ خالد حسین
ملکہ کوہسار مری ، شمالی علاقہ جات کا شہر ہے اور صوبہ پنجاب کے ضلع راولپنڈی کا ایک صحت افزاء مقام ہے راولپنڈی سے مری کا فاصلہ تقریباً 39 کلومیٹر ہے جوکہ ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع ہیـ اس علاقہ کی خاص با ت گھنے جنگلات، بہتے ہوئے صاف ستھرے پانی کے خوبصورت آبشاروں ، دریاوں اور حد نگاہ پہاڑوں پر سرسبز درختوں کی وجہ سے یہ دنیا بھر میں مشہور ہے جہاں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی بڑی تعداد ہر سال اِن دلفریب مناظر کا نظارہ کرنے آتی ہے ، موسم سرما میں یہاں پڑنے والی برف باری سے ہر طرف ایک سفید چادر بچھ جاتی ہے اور سال بھر پہاڑوں پر دور دور تک اس کے آثار دکھائی دیتے ہیں

موسم گرما میں مری کے سرسبز پہاڑ سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہیں اور سیاحوں کی بڑی تعداد اس خوبصورتی کو دیکھنے کے لیے اُمڈ آتی ہے، ملکہ کوہسار مری سے جنت نظیر وادی کشمیر کی برف پوش چوٹیوں کا نظارہ بھی کیا جاسکتا ہے ، مری میں جولائی اور اگست کے مہینے میں بھی بادلوں کی آنکھ مچولی سیاحوں کے لیے دلکش نظارہ ثابت ہوتی ہے یہ شہرسطح سمند ر سے 2300 میٹر یعنی 8000 فٹ کی بلندی پر واقع ہے اس کی بنیاد 1851 ء میں رکھی گئی تھی اور یہ برطانوی دور حکومت میں گرمائی صدر مقام بھی رہا ہے

اس شہر کی مرکزی سڑک کو مال روڈ کہا جا تا ہے جہاں 1947 ء تک غیر یورپی افراد کا داخلہ ممنوع تھا اس علاقے سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے ہر دور میں ملکی سیاست میں ایک اہم کردار اد ا کیا ہے اور یہاںسے ملک کے کئی بلند پایہ سیاست دان حکومتی ایوانوں میں برسر اقتدار رہے ہیں۔
قارئین ! گزشتہ کئی برسوں سے برسراقتدار آنے والی حکومتوں نے ملک میں سیاحت کے فروغ کے لیے لاتعداد منصوبے بنائے اور اربوں روپے کی لاگت سے یہاں مختلف سیاحتی منصوبوں کومکمل کرنے کے دعوئے بھی کئے جوکہ سیاحت کی ترقی اور یہاں کے مکینوں کی بہبود اور زریعہ معاش کے لیے ایک خوش آئند اقدام تصور کیا جاتا ہے

مگرہر سال موسم سرما میں کئی کئی فٹ پڑنے والی برف کے بعد سارے کے سارے دعوئے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور شہر اذیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں سیاحوں کے لیے سڑکیں بلاک ہوجاتی ہیں اور سخت سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے سیاح اپنے گھروں کو واپسی کے راستے تلاش کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
قارئین ! گزشتہ ہفتے مری اور گلیات میں پڑنے والی برف باری نے 10 سال کا ریکارڈ توڑ ڈالا اور صرف مری میں ابتدائی 24 گھنٹوں میں 17 انچ سے زائد برف باری ریکارڈ کی گئی اس برف باری نے جہاں ملک بھر سے سیاحوں کو دلکش نظارے دیکھنے کے لیے مری کی طرف آنے پر مجبور کیا وہاں سردی سے

ٹھٹھر کر اور آکسیجن کم ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کے اندرہی زندگی کی بازی ہار جانے والے سیاحوں کی اندوہناک اموات سے پورا ملک سوگوار ہوگیا اگر چہ اس سانحہ کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں مگر حکومتی سطح پر جس بات پر زیادہ زور دیا جارہاہے وہ گنجائش سے زیادہ گاڑیوں کا مری میں داخلہ پارکنگ کی جگہ کا کم پڑجانا اور سیاحوں کی طرف سے اپنے لیے سردی سے بچاو کے انتظامات کا
(2 )
نہ ہونا ہے مگر وجوہات جو بھی ہوں انتظامیہ کی کارکردگی کو نظر انداز کر نا مناسب نہیں ہوگا محکمہ موسمیات کی جانب سے برف باری کی شدت سے قبل وارننگ الرٹ جاری ہونے کے باوجود بھی انتظامیہ کی طرف سے سست روی اور غفلت کا مظاہر ہ اس سانحہ کا ایک پہلو ہے حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس قدر مشہور اور پُر ہجوم سیاحتی مقام کی سڑکوں سے برف ہٹانے کے لیے بھاری مشنری کا نہ ہونا جب کہ اس مقام پر ہرسال کئی کئی فٹ برف باری ہوتی ہے، تو دوسری طرف سیاحوں کی جانب سے سڑک کے

درمیان اپنی گاڑیوں کو بے ہنگم چھوڑ کر محفوظ مقامات پر پناہ لینے کے لیے چلے جانا بھی امدادی کارروائیوں اور سڑک کلیئر کرنے میں رکاوٹوں کی ایک بڑی وجہ دکھائی دی ہے، ملکہ کوہسار مری میں سیاحوں کی سہولت کے لیے کم وبیش 500 چھوٹے بڑے ہوٹلز اور اقامت گاہیں ہیں مگر افسوس کی بات تویہ ہے کہ اُن میں سہولیات کا فقدان ہے ان ہوٹلوں اور اقامت گاہوں میں بجلی ، پانی اور بیت الخلاء جیسی اہم ضرورتوں کا فقدان ہے، سیاحوں کی بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے ہوٹلوں اور اقامت گاہوں میں جگہ کم پڑجاتی ہے جس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے من مانے کرایے طلب کئے جاتے ہیں اس الخراش سانحہ کے

دوران ایک کمرے کا کرایہ چالیس سے پچاس ہزار روپے ، گیس کے سلنڈر کا کرایہ فی گھنٹہ ہزار روپے ، فی انڈہ پانچ سو روپے اور اللہ جانے کس بے دردی سے اشیاء خوردونوش کی قیمتیں وصول کی گئیں ہیں جس کا برملا اظہار ماضی کی طرح اس بار بھی سیاحوں نے کیا ہے مگر کبھی بھی اس سنگین صورتحال کا حکومتی سطح پر نوٹس نہیں لیا گیااور اگر اس دلخراش سانحہ کے بعد بھی حکومت نے اس بے قاعدگی اور لوٹ مار کا نوٹس نہ لیا تو کم ازکم ملکہ کوہسار مری جسے اہم اور دنیابھرمیں مشہورسیاحتی

مقام میں سیاحت کا فروغ خطرناک حد تک گراوٹ کا شکار ہوگا ، ایک محتاط اندازے کے مطابق مری میں 32 ہزار گاڑیاں پارک کرنے کی گنجائش ہے جب کہ جمعرات کے روز برف باری کا نظارہ کرنے کے لیے ایک گاڑیوں کا مری میں داخل ہونا کسی سونامی سے کم نہیں ہے وزیر اعلیٰ پنجاب کو پیش کی گئی ابتدائی رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ گاڑیوں میں سے صرف 12 ہزار گاڑیاں واپس آئیں جب کہ باقی سب پھنس گئیں

اور ضرورت سے زیادہ گاڑیوں کے دباو کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک کی روانی برقرار رکھنا ممکن نہ رہا ہوٹلز اور اقامت گاہوں میں سہولیات کی کمی اور کئی گنا اضافہ کے ساتھ کرایوں کو دیکھتے ہوئے سیاحوں نے اپنی گاڑیوں ہی میں ہیٹر چلا کر رات بسر کرنے کا فیصلہ کیا، افسوسناک امر یہ ہے

کہ جس گاڑی کو یہ محفوظ سمجھ رہے تھے دراصل وہی موت کا تابوت ثابت ہوئی برف کے باعث گاڑیوں کے سائلنسر یعنی گیس کا ایگزٹ سوراخ بند ہونے سے کاربن مونو آگسائیڈ جوکہ بو کے بغیر گیس ہوتی ہے اور وہ اس قدر خطرناک ہے کہ چند منٹوں میں انسان کو موت کی نیند سلا دیتی ہے یہی گیس اکثر سیاحوں کی موت کا سبب بنی ہے ۔
قارئین ! قدرتی آفات سے نمٹنے اور حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کے لیے شہریوں میں شعور اُجاگر کرنابہت ضروری ہوگیا ہے مگر افسوس کی بات تویہ ہے کہ اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جاتی ایسے سرد یا گرم مقامات پر جانے کے لیے سیاحوں کو اُس مقام کے بارے میں علم ہونا چاہئے اگر نہیں تو کسی ایسے فرد سے

معلومات لے لی جائیں جو پہلے اُس مقام پر جا چکا ہو یا پھر سیاحت کا مطالعہ کرلیا جائے سیاح کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اُن کی ضرورت کی کون کو ن سی چیزیں اہم ہیں اگر چھوٹے بچے ساتھ ہیں تو اُن کے لیے کیا کیا لوازمات ضروری ہیں مگر اس
(3 )
جانب کوئی توجہ نہیں دی جاتی ، سیاحت کے شوقین افراد کو گاڑیوں میں اندھن ، خوراک ، پانی ، موسم کے اعتبار سے گرم و ٹھنڈے کپڑے ،روشنی ، آگ جلانے کے لوازمات وغیرہ سے متعلق آگاہی ایسے سانحات سے بچاو میں مددگار ثابت ہوتی ہے سیاحوں کو محکمہ موسمیات کی جانب سے جاری وارننگ الرٹ کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے مگر اس جانب بھی کوئی توجہ نہیں دی جاتی ،08 جنوری کو جب مری میں الخراش سانحہ کے متاثرین کی بحالی کا کام جاری تھا تو اُس وقت بھی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد مری کا رخ کرچکی تھی

اور وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید ایک نجی ٹی وی چینل پر چیخ چیخ کر سیاحوں سے اپیل کررہے تھے کہ وہ مری کی طرف نہ جائیں مگر بقول وزیر داخلہ کے کہ سیاح پولیس کے روکنے کے باوجود بھی نہیں رک رہے جس کی وجہ سے ایک طرف تو امددی کارروئیوں میں خلل پیدا ہورہا ہے تو دوسری طرف بند سڑکیں کھولنے میں دشواری پیش آرہی ہے اور آخر کار مزید سیاحوں کو مری کی طرف جانے سے روکنے کے لیے رینجرز تعینات کرنا پڑی تھیں

، ایک طرف سیاحوں کی اموات اور دوسری طرف مزید شہریوں کا مری کی طرف موت کے منہ میں جانے کی کوشش کرنا ہمارے معاشرے کی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے اگرچہ یہ بات بھی اہم ہے کہ گزشتہ دوسال سے دنیا بھر کی طرح ہم بھی کورونا جیسے خطرناک اور موذی وائرس کا شکار ہیں اور طویل عرصہ سیاحتی مقامات پر مختلف پابندیوں کے پیش نظر محدود زندگی گزارنے پر مجبوررہے ہیں

اور ایک گھٹن کی کیفیت میں مبتلا ء ہیں اور چاہتے ہیں کہ کھلی فضاء میں آزادانہ سانس لیں اور یہی وجہ ہے کہ شہری اپنی مرضی کے مطابق تفریح چاہتے ہیں جس کے لیے وہ اپنا سرمایہ بھی لٹانے کو تیار ہیں آج ملک بھر کے تفریحی مقامات آباد ہیں اور شہری اپنی زندگی اور قدرتی ماحول سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں ۔
قارئین ! تادم تحریر ملکہ کوہسار مری میں سردی سے ٹھٹھر نے اور آکسیجن کی کمی سے گاڑیوں میں 24 سیاح اپنی زندگی کی بازی ہارچکے ہیں جب کہ مزید ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اموات سے ملک کے سیاحتی مقامات پر ایک سوالیہ نشان کے طور پر طویل عرصہ شہریوں کے دل ودماغ پر نقش رہیں گے

تو دوسری طرف حکومت کو ایسے سانحات کی روک تھام کے لیے سنجیدہ اقدامات اُٹھانا ہوں گے اور سیاحت کے فروغ کے لیے جامع منصوبوں پر عمل کرنا ہو گا ایسے مقامات کی بہتری اور خستہ حالی سمیت سیاحوں کو فراہم کردہ سہولیات کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہنا ہوگا تاکہ سیاحت محفوظ بن سکے اور شہری کسی بھی خوف و خطر کے بغیر قدرتی ماحول سے لطف اندوز ہوسکیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں