آئی ایم ایف کے ضمنی بجٹ کا کھیل!
کالم نگار: تحریر :شاہد ندیم احمد
حکومت نے قومی اسمبلی سے آئی ایم ایف کا ضمنی مالیاتی بل چند ترامیم کے ساتھ منظور کرا لیا،جبکہ اپوزیشن اپنے تمام تر دعوئوں کے باوجود بل کی منظوری رکوانے میں ناکام رہی ہے ،ایوان نے اسٹیٹ بنک سمیت متعدد بلوں کی بھی کثرت رائے سے منظوری دی ،یوں آئی ایم ایف سے طے پانے والے معاہدے کے مطابق ایک ارب ڈالر سے کچھ زائد کی قسط حاصل کرنے کی راہ ہموار کرلی گئی ہے
،اس وقت پاکستان معاشی اور سیاسی طور سے ایک ایسے مشکل دوراہے پر کھڑا ہے کہ جس میں ان اقدامات کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، تاہم اس بل کی منظور ی کے بعد بھی ملکی معیشت میں نکھار آنے اور مسائل کی شدت میں کوئی کمی آنے کے امکان دکھائی نہیں دیے رہے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ تحریک انصاف حکومت کو انتہائی مجبوری کے عالم میں آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق بجٹ تجاویز قبول کرنا پڑی ہیں،
وزیر خزانہ نے چھے ماہ تک اپنی ’فیس سیو نگ اور عمران خان کی عوام دوستی کی لاج رکھنے کے لئے عالمی مالیاتی فنڈ سے مذاکرات کئے اور چھے ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کیلئے کئی داؤ پیچ آزمائے ،لیکن آئی ایم ایف کے پاس بھی گھاک قسم کی پروفیشنلز کی ٹیم موجود ہوتی ہے،انہوں نے کڑی شرائط پر کوئی کمپرو مائز نہیں کیا ، ان حالات میں ’آئی ایم ایف‘ کا بجٹ منظور کرتے ہوئے قومی اسمبلی کو پاکستانی عوام کی فوری مشکلات کو نظر اندازکرنا پڑا ہے،تاہم حکومت کو عوامی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے
کوئی مشترکہ حکمت عملی وضح کرنی پڑے گی۔اس وقت ملک معاشی طور ہر انتہائی مشکلات کا شکار ہے ،حکومت اپنے تائی معاشی مشکلات سے نکلنے کی کوشش کررہی ہے ،لیکن اپوزیشن ساتھ دینے کیلئے تیار نہیں ہے ،اپوزیشن کا ایجنڈا ہی حکومت گرانا ہے ،اس لیے اُن کی کوشش رہی ہے کہ ہر موقع پر حکومت کیلئے مشکلات پیدا کی جائیں ،تاہم قومی اسمبلی سے ضمنی مالیاتی تخمینہ بآسانی منظور کروانے میں حکومت کی کامیابی اس بات کی مظہر ہے
کہ حزب اختلاف کی جانب سے ضمنی مالیاتی تخمینہ کسی صورت اسمبلی سے منظور نہ ہونے دینے کے دعوئے محض زبانی کلامی تھے، ان کے پس پشت کوئی حقیقی منصوبہ بندی اور ٹھوس حکمت عملی موجود نہیں تھی، اس ضمنی تخمینے کی منظوری سے حزب اختلاف کے وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد اور ایوان کے اندر سے تبدیلی کے نعروں کے غباروں سے بھی ہوا نکل گئی ہے۔
در حقیقت اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد کا فقدان ہے
،اپوزیشن کی خواہش حکومت گرانہ ضرور ہے ،مگر اس کے پاس کوئی واضح حکمت عملی نہیں ہے ،پی ڈی ایم بھی اندرونی طور پر عدم اعتماد کا شکار ہے ،اس لیے حزب اختلاف کو فی الحال موجودہ تنخواہ پر ہی کام کرنا پڑے گا اور حکومت اپنی مقررہ مدت آرام سے پوری کرے گی ،تاہم منی بجٹ کی منظوری کے دوران کرائی گئی رائے شماری کے اعداد و شمار سے واضح ہو گیاہے کہ ہمارے سیاسی قائدین جو رکن اسمبلی بننے کے لیے کروڑوں روپے کے اخراجات اور سر دھڑ کی بازی لگانے سے گریز نہیں کرتے،
مگر انہیں عملاً ایوان کی کارروائی سے کس قدر دلچسپی ہوتی ہے، اس کا اندازہ آئے روز کورم پورا نہ ہونے کے باعث اجلاس ملتوی ہونے سے لگایا جا سکتا ہے۔حکومت اور اپوزیشن ایوان کے اندر اور باہر غیر ذمہ دارانہ رویوں کا شکار نظر آتے ہیں ،دونوں عوام کے مسائل کے تدارک کی باتیں کرتے ہیں ،مگر اس کیلئے مشترکہ حکمت عملی وضح کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں، جہاں تک ضمنی میزانئے کی منظوری سے
عوام پر پڑنے والے اثرات کا تعلق ہے تو اس کا اندازہ قائدے حزب اختلاف کے بیانات کے ساتھ وزیر اعظم عمران خاں اور وزیر دفاع پرویز خٹک کے مابین پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے دوران ہونے والے مکالمے اور تلخی سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے،عوام آزمائے کو دوبارہ آزامانا چاہتی ہے نہ حکومت کے نمائندوں پر یقین کرنے کیلئے تیار ہے ،عوام کا اپوزیشن قیادت کے ساتھ حکومتی نمائندوں سے بھی اعتماد اُٹھتا جارہا ہے۔
یہ صورت حال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ حکمران ارکان اسمبلی اور وفاقی وزراء جہاں مشکل حالات سے دو چار ہیں،وہاں اپوزیشن قائدین کے پاس بھی موجودہ مسائل کا کوئی قابل عمل حل موجود نہیں ہے ، اس لیے دونوں جانب سے ہی عوام کوبے وقوف بنایا جارہا ہے ،ایک طرف ضمنی بجٹ کا سارا بوجھ عوام پر لاد دیا گیا ہے تو دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین حسب سابق روایتی بیان دے کر عوام کو بہکانے کی کوشش کررہے ہیںکہ ٹیکسوں میں کمی بیشی سے عام آدمی متاثر نہیں ہو گا
،سوال یہ ہے کہ اس آئی ایم ایف کے ضمنی میزانئے کے ذریعے حکومت نے کم و بیش جن ڈیڑھ صد اشیاء پر 17 فیصد کی یکساں شرح سے جی ایس ٹی لاگوکر دیا ہے، یہ ٹیکس عوام سے نہیں، تو کس سے وصول کیا جائے گا؟ یہ عام آدمی پر بوجھ نہیں بنے گا تو آئی ایم ایف کا 343 ارب روپے کے اضافی ٹیکسوں کا ہدف کیوں کر پورا ہو گاکہ جس کی خاطر یہ سارا کھیل کھیلا گیا ہے