انکوائری رپورٹ کے کا غذی پلندے!
کالم نگار: تحریر :شاہد ندیم احمد
سانحہ مری سے فروغ سیاحت کیلئے وزیراعظم عمران خان کی کوششوں کو ہی نہیں،پاکستان کے تشخص اور وقار کو بھی سخت دھچکا لگا ہے،اس سانحہ پر پا نچ رکنی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں انتظامیہ کی غفلت کو ذمہ دار قر ار دیا ہے ،اس رپورٹ پر وزیر علی پنجاب کو پیش کرنے کے بعد کیا ہوتا ہے ،یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا
،تاہم ہمارے ہاں رویت رہی ہے کہ انتظامیہ کی غفلت سے رونما ہونے والے حادثات کی رپوٹیں جتنی بھی واضح اور شبہات سے پاک رہی ہوں ،ان کی مدد سے نظام کی اصلاح نہیں کی جاتی ہے ،اگر ایک حادثے کی وجوہ معلوم ہو جائے تو عقل سلیم کا تقا ضا ہے کہ مستقبل میںان سے بچائو کے اسباب یقینی بنائے جائیں،مگر یہاں تاریخ سے سبق سیکھنے کی بجائے دہرانے کی رویت رہی ہے،اس لیے سانحہ مری انکوائری رپورٹ محض کاغذوں کے پلندے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ۔
سانحہ مری کوئی پہلا حادثہ نہیں
ہے کہ جس پر تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی اور اس نے اپنی رپورٹ میں انتظامیہ کی غفلت کو ذمہ دار قر ار دیا ہے،اس سے قبل بھی بہت سے حادثات پر تحقیقات ہو چکی ہیں ،مگر اس سے نظام میں بہتری آئی نہ انتظامیہ کے روئیے میں کوئی تبدیلی لائی جاسکی ہے ،اس سے ایساہی لگتا ہے کہ ہمارے ہاں تحقیقات کا مقصد مسئلے کی تہہ تک پہنچ کر اسے حل کرنے کی بجائے وقت گزرنا اور مسئلے سے توجہ ہٹانا ہو تا ہے
،سانحہ مری پر بھی حکومتی روئیے میں کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے ،اس سانحے کی خبر جب تک گرم ہے ،حکومت کی توجہ انکوائری رپوٹ پر مرکو زر ہے گی ،مگر کچھ عرصے بعد بتدریج صورت حال معمول کے مطابق ہو جائے گی۔
سانحہ مری ناقابل فروش حادثہ ہے ،اس سانحے میں چوبیس قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ہے ،اس سانحے کی تحقیقاتی رپورٹ کی مدد سے جہاں ذمہ داروں کا تعین کیا جاسکتا ہے ،وہیں انتظامی اصلاح بھی کی جاسکتی ہے ،اس رپورٹ میں جن حقائق کی جانب اشارہ کیا گیا ہے ،یہ بروقت فیصلہ نہ لینے کا نتیجہ معلوم ہوتے ہیں
، اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ محکمہ موسمیات برف باری کا الرٹ متعلقہ انتطامیہ کو بروقت جگانے میں ناکام رہا ہے ،اگر انتظامیہ کی جانب سے بروقت تیاری کرتے ہوئے برف ہٹانے کے اقدامات کر لیے جاتے تو ممکن ہے کہ اس درجہ حالات شدت اختیار نہ کرتے ،اسی طرح ٹریفک کے بہائو کو نظر انداز کر نے کی غلطی سے ٹریفک کا سیلاب بڑھتا چلا گیا ،جبکہ ہوٹل والوں نے کرائے بڑھا کر اپنی اندھیر نگری مچائے رکھی کہ جس کے باعث لوگ گاڑیوں میں رہنے پر مجبور ہوکر اپنی قیمتی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔
اگرچہ سانحہ مری کی تحقیقاتی رپورٹ سانحے کو مدنظر رکھتے ہوئے اسباب بیان کرتی ہے ،مگر اس میں جن انتظامی غفلت کی نشاندہی کی جارہی ہے ،اس سے ملک کا ہر شہر شکار ہے ،یہ مسائل افرادی قوت اور وسائل کی کمی نہ مہارت کے بحران کے باعث ہیں،بلکہ اس کی وجہ انسانی غیر ذمہ دارانہ روئیے ہیں
،ہمارے سر کاری اداروں میں ہر سطح پر ایسے کچھ لوگ موجود ہیں ،جو کم از کم اپنی ذمہ داریوں کی پوراکرنے کی صلا حیت رکھتے ہیں ،مگر وہ بھی بد انتظامی اور بد نظمی کی وجہ سے اچھی کا ر کر دگی دیکھا نہیں پاتے ہیں،سر کاری اداروں میں جب تک جوابدہی اور احساس ذمہ داری کا کلچر پروان نہیں چڑھے گا ،جب تک اداروں میں نااہل لوگوں کی سیاسی بھرتیاں ہوتی رہیں گی ،مری کی طرح دیگر شہروں میں بھی انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت دھرائی جاتی رہے گی۔
اس میں شک نہیں کہ تحریک انصاف حکومت عوامی مسائل حل کرنا چاہتی ہے ،لیکن یہ مسائل سیاسی بنیا دوں پر نہیں،خالص پیشہ ورانہ بنیاد پر حل کرنا پڑیں گے،حکومت کی جانب سے افسران کی اکھاڑ پچھاڑسیاسی حد تک مسئلہ حل کر دیتی ہے ،مگراس سے عوام مطمین ہوتے ہیںنہ گھمبیر مسائل حل ہو پاتے ہیں
،یہ محض حقائق سے نظریں چرانے اور اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرنے کے مترادف ہے،سر کاری نظام کے مسائل کا حل تھوک کے حساب سے تبادلےنہیں ،بلکہ اس نظام کی اصلاح ہے جو میرٹ پرتعیناتیوں کے ساتھ بلا امتیاز جوابدہی سے ہی آسکتی ہے ۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ قدرتی آفات تمام تر انسانی کوششوں کو ناکام بنا سکتی ہیں،مگریہاں تو قدرتی آفات سے بچنے کی معیاری حدتک کہیں کوئی کوشش نظربھی نہیں آتی ہے
،اگر مری کی متعلقہ انتطامیہ نے برف باری کے امکان کے پیش نظر افرادی قوت کے ساتھ مشنری کا بروقت بندوبست کر لیا ہوتا اور گنجائش سے زیادہ گاڑیوں کے ڈاخلے کو بھی بروقت روکا جاتا تو اس حادثے سے بچا جاسکتا تھا ،مگر انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت کے باعث سانحہ مری ہو ا ہے ،یہ سانحہ مری کی انکوائری رپورٹ میں لکھا ہے
،اگر اس رپورٹ کے بعد بھی کسی نے سبق حاصل نے کی کوشش نہیں کی اور اس سے نظام اصلاح میں مدد حاصل نہ کی گئی تو یہ انکوائری رپورٹ محض کاغذوں کے پلندے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ،اس قسم کی انکوائری رپوٹوں کی فائلوں سے الماری بھری پڑی ہے ،اس میں ایک اور سانحہ مری کی انکوائری فائل کا اضافہ ہو جائے گا۔