الحمد للہ علی کل حال 155

عقل و فہم و ادراک کسی سے بھی سیکھا جاسکتا ہے

عقل و فہم و ادراک کسی سے بھی سیکھا جاسکتا ہے

کالم: تحریر : نقاش نائطی
۔ +966562677707

30 کروڑ بھارت کے مسلمانوں کو 5۔24 لاکھ امریکیوں سے، سیاست کا سبق سیکھنے کا وقت آیا ہے؟کیا بھارت کے مسلمانوں کو بھارت میں آئے دن تیز تر ہونے والی مسلم منافرت سے مقابلہ کرتے، اپنے اسلامی اقدار کے ساتھ عزت سے جینا سیکھنے کے لئے، یا اپنی بقاء کی جنگ کیسے لڑی جائے یہ ہمیں کیا

امریکی مسلمانوں سے سیکھنا ہوگا؟امریکن کل آبادی کا 0.78% تناسب والی 5۔24 لاکھ مسلم قوم عالم کے مسلمانوں کے خلاف 9/11 یہود و نصاری سازش کے باوجود کس طرح سے مقامی سیاست کا حصہ بنے،اپنے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں اس کا بخوبی جائزہ لیتے ہوئے بھارت کی 138 کروڑ آبادی کے 15% سے 18% حصہ داری والے ہم تیس بتیس کروڑ مسلمان، دوسری سیکیولر پارٹیوں پر تکیہ کئے بیٹھنے کے بجائے، خود کی سیاسی حیثیت منوانے کب کوئی لاحیہ عمل ترتیب دیتے پائے جاتے ہیں دیکھنا اب باقی ہے

امریکی مسلمانوں کی سیاسی بصیرت پر الجزیرہ کی خصوصی رپورٹ بیس سال پہلے امریکی مسلمان سیاست میں حصہ نہیں لیتے تھے لیکن آج وہاں مسلمانوں کی ایک مضبوط سیاسی شناخت ہے۔اور امریکی مسلمانوں کا یہ سیاسی سفر ایک بحران سے شروع ہوا، امریکی مسلمانوں نے اپنی بہادری اور ہمت سےبحران کو موقع میں بدل دیا۔

اس کا آغاز کچھ اس طرح ہوا کہ نائن الیون کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں کے بعد امریکی مسلمانوں کے خلاف ماحول بنایا گیا، انہیں غدار قرار دیا گیا، ان کے خلاف نفرت اور امتیازی سلوک میں دھماکہ خیز اضافہ ہوا۔
ایک طرف حکومت انہیں نشانہ بنا رہی تھی، دوسری طرف سماجی تفریق اور نفرت بڑھتی جا رہی تھی، ایسے مشکل حالات میں امریکی مسلمانوں نے اپنے تشخص کے ساتھ خود کو امریکہ کے مرکزی دھارے کے سیاسی ڈھانچے میں ڈھالنا شروع کر دیا، یہ ایک طرح کا ہے۔ اپنے دفاع میں قدم اٹھایا

مصنف اور بروکلین یونیورسٹی کے پروفیسر مصطفیٰ بایومی کا کہنا ہے کہ امریکہ میں مسلمان ہمیشہ سے رہے ہیں لیکن امریکی مسلمانوں نے 9/11 کے بعد سیاسی طور پر مضبوط ہونا شروع کیا ہے جس کی بنیادی وجہ نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والی نفرت اور نفرت تھی۔

پروفیسر مصطفیٰ بایومی کا کہنا ہے کہ امریکی مسلمانوں نے سمجھ لیا ہے کہ انہیں بچانے کے لیے کوئی نہیں آئے گا بلکہ انہیں خود کو بچانا ہو گا۔ پروفیسر مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ جب آپ دیکھتے ہیں کہ ایک منظم سماجی احتجاج آپ کے خلاف ہو رہا ہے تو اس کے جواب میں آپ کو اپنی شناخت بنا کر اس کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے، اس سے آپ اپنی حفاظت بھی کرتے ہیں اور آپ معاشرے میں اپنا مقام بنانے کے قابل بھی ہوتے ہیں۔

امریکی مسلمان گزشتہ بیس سالوں میں سیاسی سرگرمی کے نتیجے میں ایک مرکزی دھارے کی سیاسی قوت کے طور پر ابھرے ہیں۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر آنے والے الیکشن میں مسلم امیدواروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔سٹی کونسل سے لے کر ریاستی مقننہ تک مسلمانوں کی نمائندگی بڑھ رہی ہے۔ آج وہاں کے مسلمانوں کے پاس الہان ​​عمر جیسے رہنما موجود ہیں جو کھل کر دنیا کے ہر مسلمان کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں۔

گنگا اور جمنا کی طرح امریکہ میں مسی سپی اور مسوری دریا بہتے ہیں لیکن وہاں کے مسلمانوں نے کسی مسی سیپی میسوری تہذیب کو بچانے کا نعرہ نہیں لگایا بلکہ اپنے حقوق کے لیے جدو جہد کا راستہ منتخب کیا۔اس نے سیاست میں داؤ لگانا شروع کر دیا اور حالات کا رخ موڑ دیا۔ ہم ہندوستانی مسلمانوں کو ان سے سیکھنا چاہیے کہ کوئی اور ہماری لڑائی لڑنے نہیں آئے گا، بلکہ ہمیں اپنی لڑائی خود لڑنی ہے،

اپنی جگہ خود بنانا ہے ہندوستانی مسلمانوں کا وہی حال ہے جو بیس سال پہلے امریکی مسلمانوں کا تھا، آج ایک طرف حکومت مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہےتو دوسری طرف سماجی سطح پر مسلمانوں کے خلاف نفرت اور امتیازی سلوک اپنے عروج پر ہے ایسے ماحول میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی سیاست اور اپنی حیثیت کو مضبوط کریں اور حالات کو اسی طرح موڑ دیں جیسا کہ امریکی مسلمانوں نے کیا ہے ہندوستانی مسلمان بھی اس بحران کو موقع میں بدل سکتے ہیں اور ان شاءﷲ ضرور بدلیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں