گڈگورنس کیلئے بااختیار بلدیاتی نظام !
تحریر :شاہد ندیم احمد
بااختیار بلدیاتی نظام ہی ملکی ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہے، عوام کے بنیادی مسائل کا حل صرف با اختیار بلدیاتی نظام میں ہے ،دنیا بھر میں جہاں بھی جمہوری نظام حکومت رائج ہے ،وہاں اس امر کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے کہ نچلی سطح پر بلدیاتی ادارے بھی اپنا کام کرتے رہیں ،لیکن بہت سے دوسرے معاملات کی طرح ہماری سیاست کا باواآدم ہی نرالا ہے ،ہماری سیاسی جماعتیں اور سیاسی قیادت جمہوراور جمہوریت کا دم تو بہت زیادہ بھرتے ہیں ،لیکن جب جمہوریت کے فروغ اور جمہوری اداروں کو با اختیار بنانے کی بات کی جاتی ہے تو اس جمہوریت کے علمبرادارہی اس کا گلا گھونٹنے کیلئے سب سے آگے ہوتے ہیں۔
یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ بلدیاتی حکومتوں کی راہ میں سب سے زیادہ روکا وٹیں ڈالنے والے سیاسی لوگ ہی ہوتے ہیں ، یہ کتنی عجب بات ہے کہ ہمیشہ مقامی حکومتوں کے انتخابات آمرانہ حکومتوں میں کروائے جاتے رہے ہیں، جبکہ جمہوری حکومتوں نے بلدیاتی الیکشن سے پہلو تہی اختیار کیے رکھی ،اگر کسی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات منعقد کروائے بھی تو عدالت کے حکم پر مجبور ہو کر ہی کروائے ہیں،اس کے بعد جمہوریت کے دعوئوں میں کتنی سچائی باقی رہ جاتی ہے ،مقامی نظامِ حکومت آئینی فرض کے باوجود کبھی منتخب جمہوری حکومتوں کے لیے قابل ترجیح نہیں رہا ہے ۔
ہمارے ہاں ماضی میں مرکزی ماڈل کے تحت حکومت چلائی گئی اور ہماری جمہوری طاقتوں نے بھی وہی غلطی کی جو غیر جمہوری طاقتیں کرتی رہی ہیں، سپریم کورٹ کے حکم پر کبھی بلدیاتی انتخابات ہوئے اور کبھی ویسے ہی کروائے گئے، مگر مقامی حکومتوں کو بااختیار اور مضبوط نہیں بناگیا، یہی وجہ ہے کہ مقامی حکومتیں موثر کام کرتے ہوئے نظر نہیں آئی ہیں،حکومتوں کی گورننس کے بحران کا براہ راست تعلق بھی مقامی حکومتوں سے رہا ہے ،کیونکہ اختیارات کی جتنی زیادہ تقسیم ہوگی
اور نچلی سطح تک منتقلی ہوگی، گورننس کا نظام اتنا ہی زیادہ موثر ہوگا۔در اصل مقامی نظام حکومت کی فعالیت سے ارکان پارلیمان کی اجارہ داری میں فرق آتا ہے ،اس لیے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی سے نہ صرف گریز کیا گیا ،بلکہ مروجہ اختیارات میں مزید کمی لانے کی کائوشیں بھی کی جاتی رہی ہیں،
اس حوالے سے گزشتہ دنوں سند ھ حکومت نے ایک ایسا بل پاس کیا کہ جس میںکچھ اختیارات مقامی حکومتوں سے لے کر صوبائی حکومت کو منتقل کیے گئے تھے ،اس اقدام پر اپوزیشن جماعتوں نے بھرپور احتجاج کیا تو سندھ حکومت نے مذاکرات کیلئے کمیٹی قائم کردی ،لیکن یہ اقدام بھی عدالت عظمی کے فیصلے کے بعد ہی اُٹھایا گیا ہے ،عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ حکو مت سندھ با اختیار بلدیاتی ادارے قائم کرنے کی پا بند ہے
،بلدیاتی حکومت کے تحت کوئی نیا منصوبہ صوبائی حکومت شروع نہیں کرسکتی ،آئین کے تحت بلدیاتی حکومت کو مالی ،انتظامی اور سیاسی اختیارات یقینی بنائے جائیں ،کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ اقدام سندھ حکومت جمہوری طریقے سے کر لیتی،مگر اس کے برعکس بلدیاتی حکومتوں کے اختیارات کے حوالے سے سارے فیصلے عدالت عظمی سے ہی کروائے جارہے ہیں۔یہ رویہ کتنا عجیب و غریب ہے کہ آمریت کے خلاف جنگ لڑنے کی دعویدار سیاسی جماعتیں بلدیاتی اداروں کو اختیار دینے کے لیے تیار نہیں ہیں،
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا نظامِ انتخابات جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو طاقت فراہم کرتا ہے،یہ طبقہ مفادات کے ارتکاز اور بدعنوانی کے سبب با اختیار بلدیاتی اور مقامی حکومتوں کے تصور کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، اس وجہ سے ہی بڑے شہروں کی درست منصوبہ بندی نہیں ہوسکی ہے اور اس نے انفرااسٹرکچر کو ایسا تباہ کیا ہے کہ جس کی وجہ سے پاکستان کا صنعتی و تجارتی دارالحکومت بھی کھنڈر بنا ہوا ہے، خود مختار مقامی حکومتوں کے قیام کے بغیر جمہوریت پنپ سکتی ہے
نہ گڈ گورنس لائی جاسکتی ہے، اگر وفاق و صوبائی حکومتیں جمہوری مستقبل محفوظ بنانے میں فی الواقع سنجیدہ ہیں تو انہیں بلدیاتی اداروں کو اختیارات دینا ہوں گے۔حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ مقامی حکومتوں کے بغیر مقامی ترقی اور سماجی خدمات کی موثر فراہمی ناممکن ہے، مقامی حکومت جمہوریت کی نرسری ہو تی ہے جو کہ ملک و قوم کیلئے قومی سطح پر لیڈرز اور عوامی جمہوری پختگی پیدا کرتی ہے،ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو قانون سازی میں دلچسپی لینی چاہئے ،
قومی اور صوبائی سطح پر میگا پراجیکٹس کیلئے کام کرنا چاہئے،مقامی حکومتوں کو مینڈیٹ کے مطابق مقامی سطح پر ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے مقامی ترقی اور سماجی خدمات کی فراہمی و حکمرانی کیلئے کام کرنے کا موقع دینا چاہئے، اس کے لئے ضلع کونسل/ضلعی حکومت، تحصیل کونسل/تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن اور ویلج/نیبرہڈ کونسل و ایڈمنسٹریشن تک کو بااختیار و موثر بنا کر انتخابات کرائے جانے چاہئے، ورنہ کمزور مقامی حکومتیں عوام اور قومی خزانہ پر بوجھ ہی ہوں گی۔