یہ دنیا گول ہے یہاں وہی ملتا ہے جو بویا جاتا ہے
تحریر : نقاش نائطی
۔ +966572677707
ٹریننگ مطلب ٹرینڈ کرنا یا سدھانا، جیسے خطرناک درندے شیر بھالو کو بھی ٹرینڈ کرتے ہوئے، ہم آپ کے یاتھوں میں پکڑی ہوئی لکڑی یا چابک کے اشارے پر ہماری مرضی کے کام کروائے جاتے ہیں اس سدھانے کے عمل کو ہم اپنی اولاد کی ٹریننگ کہتے ہیں لیکن قرآنی عربی زبان کی بلوغت میں اولاد کی تربیت کا جو تذکرہ ملتا ہے
وہ تو اخلاق سازی و کردار سازی کی تربیت ہوا کرتی ہے جو اسے بچپن میں ان ہاتھ جاہل سمجھے جانے والے والدین کی عملی درسگاہ میں ملا کرتی تھی جو عقل و فہم ادراک پانے والے تین سالہ ننھے بچے کو کنڈرن گارڈن تعلیمی ٹریننگ کے بہانے اجنبی استادوں کے ہاتھوں تعلیم پاتے، مختلف عصری درسگاہوں کے چکر کاٹتے ، اسکول و مدارس وقت بعد فارغ اوقات میں بھی انہیں مزید ذہین بنانے کے چکر میں،
مختلف تعلیم یافتگان کے ہاتھوں اضافی ٹیوشن پڑھواتے، ماں کے دودھ چھڑائی عمر کے اپنے لاڈلوں کو ، مختلف اعلی تعلیمی ڈگریوں سے انہیں سرفراز کرتے مشینی اندازہ گویا انہیں اصل مقصود تربیت سے ماورا کسی عصری مشین کی طرح انہیں پروان چڑھائے ہوتے ہوئے ہم پائے جاتے ہیں۔بچہ اپنے ماں باپ کی محبت دلار پیار کو ترستے ہوئے والدین کی طرف جب جب دوڑتا ہے تو اسے اپنی مصروفیات ٹی وی سیریل و افلام بینی یا سائبرمیڈیا ضیاع وقت مٹر گشتی سے اپنی اولاد کو بھی ماورا رکھنے کی فکر میں،
انکے ننھے ہاتھوں میں الکٹرانک گیجٹ دئیے انہیں بھی ممتا ماورا زندگی جینے پر مجبور کرتے ہم جہاں پائے جاتے ہیں۔ وہیں پر اپنے بڑھاپے میں اولاد کی نگہداشت کو ترستے اولاد کو ہمہ وقت کوستے پائے جاتے ہیں۔اپنی محنت و جانفشانی سے اپنے ہاتھوں پکائے کھانے کھلا اپنی اولاد کی پرورش کرنے کے بجائے، اپنے ہمارپن سستی کاہلی کو تمدنی ترقی کا نام دییے آن لائن آرڈر دے ہمہ وقت فاسٹ فوڈ و جنگ فوڈ کھلا کھلا کر پروان چڑھائیں انہی اولاد سے اپنے بڑھاپے میں انکی خدمات کی توقعات رکھی جاتی ہیں۔
اللہ کی عطا کی ہوئی دولت کا بے جا استعمال کر اولاد کی پرورش تعلیم تربیت سبھی خدمات کو آوٹ سورس کرنے والے والدین جب انکے اپنے اولاد کے انکے بڑھاپے کی خدمات گرائے کےملازمین یا اولڈ ایج ھوم کو آوٹ سورس کرتے پائے جاتے ہیں تو بڑھاپے میں اپنی اولاد کے ساتھ کئے سلوک ناروا پر خون کے آنسو بہانے اور اولاد کے خلاف ہمہ وقٹ شکوے شکایات کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں بچتا ہے
ہمیں یاد پڑتا ہے ہمارے متعلقین میں سے ایک میاں بیوی دونوں انگریزی ادویات کی ماسٹر ڈگری لئے ،مصروف معاش جدہ رہتے اپنی اولاد کی نگہداشت کے لئے ایک خادمہ کو رکھا ہوا تھا۔ شستہ ادبی اردو بولنے والے ماں باپ کا بچہ جب توتلی زبان میں بات کرنا سیکھنے لگا تو خالص حیدر آبادی لہجے میں گفتگو کرنے لگا تھا۔ اس پر دوبوں اس وقت فکر مند ہوئے تھیں لیکن مجبور تھے چاہتے ہوئے
بھی اپنی اکلوتی اولاد کی تربیت کے لئے کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ پیسے کے بل پر وہ اولاد کو تعلیم و ٹریننگ تو دلواسکتے تھے لیکن ذاتی تربیت سے کماحقہ اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی انہیں کرنا پڑتی تھی آج کے معاشرے میں یہ ہر کسی کی مجبوری بن گئی ہے دولت کے بل بوتے پر نت نئی آسائش تو ہم خرید سکتے ہیں لیکن نیند کی دولت سے محرومی کے لئے جن دواؤں کا سہارا لینا پڑتا ہے اس سے ان کی اپنی صحت داؤ پر لگانی پڑتی ہے۔ یہی کچھ کو آؤٹ سورس کی ہوئی اولاد کی ٹریننگ خدمات کا اعتراف انکے بڑھاپے میں اولاد کی بے توجہی کی شکل خون کے آنسو پئیے برداشت کرنا پڑتا پے
اس لئے یاد رکھئے اسلام نے اپنی اولاد کی جس بہتر انداز تربیت کی ذمہ داری ہم والدین پر ڈالی ہے ہم اپنی بے جا سائبر میڈیا ضروریات سے انہیں بے گانا کئے، مختلف خدمات کو پیسے کے بل بوتے پر آؤٹ سورس کئے جی رہے ہیں اس سے فوری اجتناب ضروری ہے ۔ ہماری اولاد ہماری ذاتی تربیت کی بھوکی ہوتی ہے اس دنیا میں اپنی اولاد کی تربیت کے لئے جتنی تکلیف اٹھاتے پائے جائیں یقینا ہم اپنے بڑھاپے میں اپنی اولاد سے اس سے بھی زیادہ پاتے پائے جائیں گے۔ وما علینا الا البلاغ