مہنگائی کے ستائے کو بجلی کے جھٹکے! 151

کارکردگی کے چراغ ِ نور سے محروم خلق خدا !

کارکردگی کے چراغ ِ نور سے محروم خلق خدا !

تحریر :شاہد ندیم احمد

انسانی فطرت میں ہے کہ اسے تعریف سے خو ش ملتی ہے اور اس کی کارکردگی میں بہتری کا باعث بنتی ہے ، اس کے بر عکس عمل میں اسے مایوسی ہوتی ہے یا پھراس میں ایسا جوش و جذبہ پیداہوتا ہے کہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاکر اس مقام کو حاصل کرلے کہ جہاں اسے بھی سراہا جائے،اس اعتبار سے وزیراعظم کی جانب سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنیوالی 10وفاقی وزارتوں میں تعریفی اسناد کی تقسیم احسن عمل ہے کہ اس سے تمام وزارتوں میں ایک صحت مندانہ مسابقت کی فضا قائم ہو گی

،تاہم عوا م حیرت زدہ ہے کہ جن وزرائے کرام کو کارکردگی پر اسنادِ فضیلت عطا کی گئی ہیں، ان کی کارکردگی کے چراغ ِ نور خلق خدا کو نظر کیوں نہیں آتے ہیں؟تحریک انصاف کے حکومت سنبھالتے ہی وزیر اعظم نے اعلان کیا تھا کہ وزراء کی کارکردگی کو ہر تین مہینے بعد عوام کے سامنے لایا جائے گا،

لیکن ایسا صرف ایک آدھ بار ہی ہوا ہے ،اس روایت کو منظم انداز میں آگے نہیں بڑھایا گیا ، تاہم ایک طویل وقفے کے بعد وزراء کی کارکردگی کو اچانک قابل تعریف قرار دینا بظاہر حیران کن نظر آتا ہے،وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ جزا و سزا کے بغیر کوئی سسٹم کامیاب نہیں ہو سکتا،مسائل کے حل کے لئے غیر روایتی طرز عمل اختیار کرنا پڑے گا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بہترین نتائج کے لئے جزا و سزا کا عمل ضروری ہے ، تاہم سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم نے اپنے دس وزراء کو اسناد سے نواز کر کیا جزا و سزا کے حقیقی تصور کا حق ادا کر دیا ہے؟اگر پانچ برس کے لیے منتخب ہونے والی حکومت ساڑھے تین سال بعد اس طرح اپنے وزراء کی کارکردگی کا جائزہ قوم کے سامنے لائے گی تو یہ اس امر کا اعلان ہے کہ حکمران جزا و سزا کو بامقصد اور نتیجہ خیز بنانے میں سنجیدہ نہیں، اگرواقعی سنجیدہ ہوتے تو جیسا کہ وزیر اعظم نے اعلان کیا تھا

کہ یہ جائزہ ماہانہ یا زیادہ سے زیادہ سہ ماہی بنیادوں پر لینے کا اہتمام کیا جاتا، مگر وزیر اعظم کا یہ اعلان بھی بہت سے دیگر اعلانات کی طرح عملی شکل اختیار نہیں کر سکاہے۔حکومت گاہے بگاہے اپنے وزراء کی کاکرکردگی کا جائزہ پیش کرنے کی بجائے ساڑھے تین برس بعد کارکردگی کے حامل وزرا ء کو تعریفی اسناد سے نواز رہی ہے ،مگر یہ نہیںبتارہی ہے کہ ان وزراء کی کارکردگی جانچنے کا پیمانہ کیا تھا؟

وہ کون سے معیار تھے کہ جن پر وزرائے کرام کی کارکردگی کو پرکھا گیا اور جو نگاہ ناز سے محروم رہے، ان کا قصور کیا تھا؟عوام کو صرف یہ بتا دینا کافی نہیں کہ یہ دس وزراء کابینہ کے رجال کار ہیں،عوام یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ وہ کون سی کارکردگی اورکون سا معیارِ ناز ہے کہ جس پر مراد سعید تو پہلے نمبر پر ہیں ،لیکن وزیر خزانہ، وزیر دفاع، وزیر خارجہ اور وزیر اطلاعات دور دور تک نظر نہیں آرہے ہیں۔
ملک بھرمیں گزشتہ ساڑھے تین برس کے دوران ملک و عوام کے حالات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں، اس کے باوجود کس جواز پر دس وزارتوں کو اعلیٰ اور قابل ستائش قرار دیا گیا، کوئی بتلائے کہ ہم بتائیں گے؟کا بینہ میں کوئی بھی ایسی وزارت نہیں کہ جس کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا جا سکے،

مگر یہاں انہیں توصیفی اسناد سے نواز ا جارہا ہے ،شاید یہی سبب ہے کہ خود کابینہ کے اندر سے ان اسناد کی عطائیگی پر عدم اطمینان کا اظہار سامنے آ رہا ہے اور ایک حکومتی وزیر نے تو یہاں تک کہہ دیاہے کہ جو ذمہ داریاں ادا نہیں کرتے، وہی ایوارڈ کے حق دار ٹھہرے ہیں،کیا اس کے بعد یہ سارا عمل مشکوک قرار نہیں پائے گا؟
وزیر اعظم عمران خاں نے انتخابی مہم کے دوران اور پھر اقتدار سنبھالنے کے بعد سب سے بڑا دعویٰ ’’تبدیلی‘‘ لانے کا کیا تھا، مگر اب ان کاکہنا ہے کہ میرے خیالات تو انقلابی تھے ،مگر فوری تبدیلی نہیں لائی جاسکی،کیو نکہ ہمارے نظام میں فوری تبدیلی برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں، وزراء اچھا کام نہ کریں

تو میں کیا کر سکتا ہوں، مراعات دے کر وزارتوں اور بیورو کریسی میں مثبت تبدیلیاں لائیں گے ،اس سے بڑھ کر ناکامی کا اعتراف اور بے بسی کا اظہار اور کیا ہو سکتا ہے، مگر تکلیف دہ امر یہ ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنے کے باوجود اس کی ذمہ داری آج بھی دوسروں پر ڈالے چلے جا رہے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں تمام تر خامیوں اور خرابیوں کے باوجود اس قدر بھی قحط الرجال کی کیفیت نہیں کہ اچھے اور باصلاحیت لوگ تلاش نہ کیے جاسکیں،اس حکومت سنبھالنے سے قبل ہی اہل درد نے واضح کر دیا تھا کہ جس ٹیم اور جن ساتھیوں کے ساتھ تبدیلی برپا کرنے کے دعوئے کیے جارہے ہیں ،ان تلوںمیںتیل نہیں، مگر پی ٹی آئی قیادت بضد رہی کہ یہ انہونی کر دکھائیں گے اور کارکردگی کے چراغ ِ نور سے

خلق خدا کی محرومیاں دور کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ،اس وقت حالات کا تقاضہ ہے کہ اپنی ناکامیوں کا بوجھ دوسروں پر دالنے کی بجائے اپنی ذمہ داریاںکماحقہ ادا کی جائیں، کارکردگی بہتر ہوگی یا ابتر،حکومت کے کھاتے میں ہی جائے گی،اس کا حکومت جتنا جلدی ادراک کر لے اتنا ہی اچھا ہو گا، ورنہ آئندہ انتخابات میں کوئی جواز بھی کام نہیں آئے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں