کاش کہ اتر جاء تیرے دل میں میری بات
تحریر: زمرد سلطانہ
میاں بیوی میں تلخ کلامی ہوئی کوئی گھریلو وجہ تھی ہر گھر میں ہر روز ہوتی رہتی ہےدونوں کا ایک بیٹا بھی تھا۔۔۔۔ظہیر نے اپنی بیوی زونیاکو گالی دی تم سے جب سے شادی ہوئی یے میری زندگی جہنم ہو گئی ہےزونیا بھی چلا کر بولی۔۔۔تم نے مجھے اتنا درد دیا ہے۔۔میں اب دعا کرتی ہوں۔مجھے موت آ جائےاب تمہارے ساتھ ایک سانس بھی نہیں لے سکتی میں جھگڑا کسی بڑی بات پہ نہیں تھا4 سال کا بیٹاماں باپ کو جھگڑتے دیکھ رہا تھا۔
۔بیٹا بہت پریشان تھا۔۔۔۔کبھی ماں کا ہاتھ پکڑتا تو کبھی باپ کا۔باپ سے جب برداشت نہ ہوا تواٹھایا۔ڈنڈا اور زونیا کو مارنا شروع کر دیازونیاچیخنے چلانے لگی چیخوں کی آواز سن کراہل محلہ آ گئےنھوں نے آ کر زونیاکو چھڑوایازونیا کے سر سے خون بہہ رہا تھابیٹا ڈرا سہمادروازے کے پیچھے چھپا ہوا تھاظہیر نے چلا کر کہا
اس میں تم کو طلاق دیتا ہوںتین بار طلاق بولااور زونیا بیٹے کو لیئے میکہ آ گئی(طلاق کا لفظ اللہ کو ناپسند ہے مگر یہ وبا اتنی پھیل چکی ہے کہ اسے معیوب نہیں سمجھا جاتا۔عرش الہی ہل جاتا ہے جب یہ نوبت آتی ہے۔)بیٹا تھا کے اس کے دل میں ایک عجیب سا ڈر گھر کر چکا تھاوہ سب سے ڈرنے لگا تھا4 سال کا بیٹا۔۔۔وہ امی کی گود میں لیٹا ہوا تھاامی کا دوپٹہ منہ پہ اوڑھے سو جاتاماں سے ایک پل کے لیئے بھی جدا نہ ہوتا۔ادھر باپ نے کورٹ میں کیس کر دیا بیٹا میں اہنے پاس رکھوں گاکورٹ سے آئی خط موصول ہوا
زونیاکے بھائی نے خط پڑھابتایا۔ظہیرنے بیٹے کو اپنے پاس رکھنے کے لیئے کیس دائر کیا ہے۔اگلے ہفتے سنوائی یے۔۔بیٹا ماں کے پلو سے لگا ہوا۔۔امی بابا کیا کہتے ہیں۔۔بیٹا اب 6 سال ہو چکا تھاماں نے بتایاکچھ نہیں بیٹاماں باپ کو جدا ہوئے 2 سال گزر گئے تھے۔۔لیکن بیٹا اج بھی جب وہ جھگڑا یاد کرتا تو وہ بخار میں مبتلا ہو جاتا۔۔۔پہلی سنوائی ہوئی۔ظہیرکا وکیل کافی بڑا وکیل تھا۔۔۔کیس ظہیرکے حق میں جا رہا تھا
زونیامحسوس کر رہی تھی میں بیٹے کو ہار جاوں گی زونیا گھر آئی بیٹا ارذلان ماں سے کہنے لگا ہم کیوں ابو کے پاس جاتے ہیں وہاں۔۔ابو مجھے کہہ رہا تھا تیری امی گندی ہے اس کے پاس نہ رہو بیٹے نے ماں کا منہ چوما ہلکا سا مسکرایا میری امی سوہنی یے گندی نہیں ہے پاپا گندا ہے ماں کی آنکھ سے آنسو بہنے لگےبیٹا جو ابھی چھے سال کا تھا اپنے ننھے ہاتھوں سے ماں کے آنسو صاف کرنے لگا۔
۔ماما کیوں رو رہی۔۔میں آپ کو چھوڑ کر نہیں جاوں گا۔بیٹا ماں کی گود میں لیٹ گئا اتنے میں زونیاکا بھاء آیا زونیاکی طرف دیکھ کر بولا ہم کیس ہار جائیں گے۔۔ارذلان کو اس کے باپ کے حوالے کرنا پڑے گا اس کا وکیل بہت بڑا وکیل یے۔زونیا خاموش ہو گئی بیٹے کا منہ چومنے لگی کبھی پاوں چومتی کبھی ہاتھ کبھی سر ارذلان سویا ہوا تھا زونیا نے زور سے سینے سے لگایااور رات بھر روتی رہی رذلان نے دکان سے آئس کریم لی اور فریج میں رکھی نانی سے کہنے لگا نانو میں آ کر کھاوں گا
۔۔ماں نے ارذلان کے چہرے کو ہاتھوں میں بھرا اور آہستہ سے بولی ارذلان بیٹا ماما ساتھ نہ بھی ہوئی تو کھانا ٹائم پہ کھایا کرنا ضد نہ کیا کرنااور دکان کی گندی چیزیں نہ کھایا کرناروز دانت کو برش کیا کرنا ماما تم کو روز دیکھا کرے گی یہاں سےبیٹا نہیں سمجھ پا رہا تھا ماما ایسی باتیں کیوں کر رہی ہے۔ماں نے ہاتھ پاوں چومے آج آخری سنوائی تھی عدالت میں زونیابیٹے کو گود میں لیئے بیٹھی ہوئی تھی دل زور زور سے دھڑک رہا تھابس ایک ہی خیال دل میں کہ اللّٰہ مجھے میری اولاد کی جدائی نا دینا ادھر کاروائی شروع ہوئی
جج صاحب نے لکھا فیصلہ سنایا ۔تمام دلیل سننے کے بعد۔ ہم اس نتیجے پہ پہنچے ہیں کے۔۔۔بیٹا اپنے باپ کے ساتھ رہے گا ۔فیصلہ سنتے ہی ماں کا کلیجہ پھٹ گیا ماں بے ہوش ہو کر گر گئی باپ آگے بڑھا بیٹے کو اٹھا لیا۔ بیٹا باپ کے پاس نہیں جانا چاہتا تھا بیٹا چیخ چیخ کر رونے لگا مجھے ماما پاس جانا ہے
مجھے ماما پاس جانا ہے ۔چھوڑو مجھے ۔زونیاکو ہوش آیا ننگے پاوں دوڑتے ہوئے ۔ظہیرکے پاس گئی۔۔اس کے سامنے گھٹنے ٹیک کر بھیک مانگنے لگی ۔صرف ایک بار مجھے میرے بیٹے کو سینے سے لگا لینے دو ۔لیکن وکیل نے پولیس والے سے کہا اس عورت کو ہٹاو یہاں سے۔ ماں بلک بلک کر رونے لگئ ۔بیٹا تڑپ رہا تھا۔۔وکیل مسکرا کر صابر سے کہنے لگا مبارک ہو جناب آپ کیس جیت گئے۔۔صابر نے طے کردہ رقم وکیل کو دی اور چل دیا بیٹا ماں کی جدائی میں روتا چیختا ۔اسے باپ کا گھر جیل لگنے لگا تھا
۔ماں کی شادی کسی اور سے ہو گئی۔ باپ نے بھی دوسری شادی کر لی۔ وقت گزرنے لگا ماں اپنی زندگی میں مصروف ہو گئی باپ اپنی نئی بیوی کے ساتھ۔۔ارذلان ۔زندہ لاش بن کر جینے لگا ۔رذلان کا نہ کوئی قصور تھا نہ کوئی جرم تھا نہ کوئی گناہ۔۔ بے گناہ سزا پائی تھء اذان نے ۔نہ سکول پڑھ سکا۔نہ زندگی میں کوئی مقام حاصل کر سکا بلاخر باپ نے ایک ہوٹل پہ برتن دھونے پہ لگا دیا۔۔میں آپ سب سے پوچھتا ہوں ؟؟
کیا قصور ہوتا ہے ایسی اولاد کا ؟؟آپ میں اتنی برداشت نہں ہوتی کے ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کر دیا جائے صبر ختم ہو چکا ہے۔؟؟۔کتوں کی مانند لڑتے ہو۔۔ایک دوسرے پہ الزام لگاتے ہو یں دونوں میاں بیوی کی بات کر رہا ہوں ۔تم دونوں کی نفرت تمہاری اولاد کو کھا جاتء ہے
ور یقین اس کو بھی قاتل کا نام دیتا ہے زیادہ تر شادیاں والدین کی رضا مندی سے کی جا?یں کامیاب ہوتی ہیں
ان کا تجربہ اور سمجھوتہ اور ساتھ آنے والی رکاوٹوں میں کارگر ثابت ہوتا ہے۔ لیکن آج کل الگ اور علیحدہ رہنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔پہلی شادی میں ایک دوسرے کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو برداشت نہیں کرتے ہو ۔اور دوسری شادی میں بڑی سے بڑی بات پہ کمپرومائز کر لیتے ہو ۔نہ جانے اج بھی کتنے بچے ماں باپ کی زہر آلود نفرت پہ قربان ہو رہے ہوں گے جو بے گناہ برباد کر دیئے جائیں گے ۔ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھیں ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔۔یقین کا سفر جانتا یے
۔شادی کے بعد میں بیوی کی سوچ کا ملنا ضروری نہیں ہے کیوں کے آپ لوگ دو الگ الگ انسان ہیں الگ سوچ ہے الگ خواہشات ہیں نکاح کا مقصد ہی دو الگ انسانوں کو یک جان کرنا ہے۔۔طلاق ہی ہر مسلے کا حل نہیں ہے۔۔آخر کار دوسری شادی ناکام کیوں نہیں ہوتی اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے ۔تو میں بتاتی ہوں
آپ۔کو۔۔دوسری شادی اس لیئے ناکام نہیں ہوتی کے اس وقت ہم صبر کرنا سیکھ جاتے ہیں برداشت کرنا سیکھ جاتے ہیں ایک دوسرے کی غلطی کو اگنور کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔۔اگر ایسا پہلی شادی میں کیا ہو تو اولاد خاک نہ ہو میری تحریر پڑھ کر اگر کسی نے اپنی اولاد کو خاک ہونے سے بچا لیا تو میرا مقصد مکمل ہو جائے گا یا اللہ ہم سب کو خیر بانٹنے والا بنا دے. !کاش کہ یہ بات تیرے دل میں اتر جائے۔