حسن معاشرت کی رعنائی
تحریر :فخرالزمان سرحدی
.پیارے قارئین کرام!تمام حمدوثناء اس ذات عظیم کے لیے جو تمام جہانوں کا پالنے والا لاثانی خدا ہے.وہی توفیق بخشتا ہے تو نوک قلم موتی بکھیرتا ہے.سرور کائنات حضرت محمدﷺ کی سیرت حسن معاشرت کا عملی نمونہ ہے سسکتی انسانیت کے چین و قرار کا وقت اس وقت شروع ہوا جب غار حرا کی تاریکیوں سے روشن چراغ ہدایت لے کر آپﷺ کی تبلیغ و تعلیمات سے عرب کے لق ودق صحرا میں ایک نئی بہار آگئی.بقول شاعر:_ وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت ہادی….عرب کی زمیں جس نے ساری ہلا دی.
..ایسی خوبصورت ہوا چلی کہ رحمتوں کے خزینے بھر گئے.بے قرار انسانوں کو قرار مل گیا.محبتوں کے غنچے چٹکنے سے فصل بہار آگئی.حسن معاشرت میں ایسی بہار آئی کہ بے گانگی,خودغرضی اور خود فریبی کا طلسم ٹوٹ گیا.کتنا حسین و دلرباء حسن معاشرت کہ مسجد میں بھی ایک صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز…نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز…عدل و انصاف کے تقاضے ایسے خوبصورت انداز سے پورے ہوئے ک چشم فلک نے بھی ناز کیا اور ہدایت کی چاندنی جلوہ گر ہوئی.
حقانیت اور مقصد حیات کا تصور اجاگر ہوا.حقیقت شکر اور مقام شوق کے دریچے وا ہوئے.حقوق اللہ اور حقوقالعباد کے حسیں درس سے حسن معاشرت کے رنگ میں اور بھی رعنائی پھیل گئی.نفس کے ساتھ جہاد اور رضائے الٰہی و اطاعت رسولﷺکے سبق سے کیفیت اور بھی نکھر گئی,محسن انسانیت کی کون کونسی خوبی کا تذکرہ کیا جائے
گویا انسانیت کو صبح درخشاں کی روشنی سے اجالا نصیب ہوا.محبت الٰہی کی قندیل دلوں میں روشن ہوئی.تزکیہ نفس کے حسیں اور خوبصورت تصور سے حیات انسانی میں دلکش تبدیلی رونما ہوئی.صبرویقیں کی بہار آفرینی سے حیات انسانی میں نئی صبح کا آغاز ہوا.مساوات,ہمدردی,کے پیمانے درس الفت سے بھر گئے.محبت اور الفت کے کے غنچے چٹکنے لگے.بندوں کے حقوق,اولاد کے حقوق,رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی سے حسن معاشرت کی
رعنائی میں اور اضافہ ہوتا ہے.معاشرتی,اخلاقی,سماجی,زندگی کا تصور اجاگر ہوا.بقول شاعر…سالار کارواں ہے سید حجاز اپنا…اس نام سے ہے باقی آرام جاں ہمارا..تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ آپﷺنے وحی الٰہی کی روشنی میں رشدوہدایت کے ایسے چراغ جلائے کہ پوری کائنات کا گوشہ گوشہ بقعہ نور بن گیا.
مخزن دانش کی دولت انسانیت کو ملی.خیالات میں ایک نئی امنگ اور لہجوں کو نئی ترنگ ملی.علم و حکمت کے موتی درخشاں ہوئے.عصر حاضر میں تعلیمات نبوی ﷺسے فیضیاب ہو کر زندگی کے حسن و جمال اور حسن معاشرت کو مثالی بنایا جا سکتا ہے.دل و نگاہ کے زاویے تبدیل کیئے جا سکتے ہیں.انسانیت کی قدرومنزلت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے.تقوٰی کا معیار بلند ہو سکتا ہے.عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہو سکتے ہیں.