حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر ہے! 122

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات

تحریر :شاہد ندیم احمد

ملک میںبلدیاتی ادارے ہی جمہوریت کی ایسی بنیاد ہیں کہ جہاں عام آدمی اپنے مسائل کے حل کیلئے اپنے منتخب نمائندے تک آسان رسائی رکھتا ہے،یہ نمائندہ اپنے علاقہ سے ہی منتخب کیا جاتا ہے، اس لئے علاقے کے مسائل کا بخوبی ادراک رکھتا ہے اور انہیں ترجیحی بنیادوں پر حل کرکے علاقے کے عوام کی پریشانیوں کا ازالہ کرتا ہے ،عوام چاہتے ہیں کہ بلدیاتی ادارے فعال رہیں ،تاکہ ان کے درینہ مسائل کا تدارک ساتھ ساتھ ہوتا رہے

،پنجاب میںقدرے تاخیر سے ہی سہی،مگر29مئی کو 17اضلاع میں انتخابات کرانے کا فیصلہ کردیاگیا ہے، حکومت کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کا فیصلہ خوش آئند ہے کہ جس سے عوام کے گھمبیر ہوتے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی اور عوام کے ساتھ حکومت کا ایک وعدہ بھی پورا ہوتا نظر آئیگا،تاہم اس عمل میں اب کوئی مزید تاخیری حربہ استعمال نہیں ہونا چاہیے اور مقررہ شیڈول کے مطابق بلدیاتی انتخاب کراکے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
یہ امرواضح ہے

کہ تحریک انصاف نے اپنے منشور میں بلدیاتی نظام کو مستحکم کرنے اور اس کے ذریعے مقامی قیادتوں کو آگے لانے کا وعدہ کیاتھا ،تاہم حکومت ملنے کے بعد مصلحتوں کا شکار ہو گئی اور اقتدار میں آنے کے ساڑھے تین سال بعد تک بلدیاتی انتخابات سے گریزاں رہی ہے، اس سے جہاں شہری مسائل میں بے حد اضافہ ہو ا ،وہیں لوگ اپنے منتخب نمائندوں سے میل جول بھی نہ رکھ سکے اور یوں حکومت اور عوام کے درمیان خلیج بڑھتی چلی گئی

،حکومت کی طرف سے بلدیاتی اداروں کی بحالی میں غیرمعمولی تاخیر اور انتخابات سے گریز کے رویے کے پیش نظر عدلیہ کی طرف سے پابند کیا گیا کہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بروقت یقینی بنایا جائے، تاکہ عوام کے منتخب نمائندے مقامی حکومتوں کا نظام سنبھالیں اور مسائل کے حل کی صورت نکل آئے، عدلیہ کے احکامات کی روشنی میں ہی اب مرحلہ وار ملک بھر میںبلدیاتی انتخابات کروائے جارہے ہیں۔
ملک کی سب سے بڑی آبادی کے صوبے پنجاب میں بلدیاتی ادارے 31دسمبر 2021کو اپنی مدت کی تکمیل کے بعد تحلیل ہو چکے ہیں اور نئے انتخابات کے حوالے سے صوبائی حکومت نے 12دسمبر کو گورنر کے دستخطوں سے پنجاب لوکل گورنمنٹ آرڈی ننس(2021) جاری کیا تھا کہ جس کے مطابق آئندہ بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے اور میئر کا انتخاب براہ راست ہو گا، ادھر خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے پہلی مرتبہ 2013میں حکومت بنائے جانے کے بعد ہی بلدیاتی اصلاحات نافذ کر دی گئی

تھیں اور چند روز قبل وہاں اگلی مدت کے انتخابات بھی مکمل ہو چکے ہیں، 2018میں پی ٹی آئی نے پنجاب میں بھی وہی نظام لانے کا اعلان کیا تھا کہ جس کی منظوری کا بل 2019میں صوبائی اسمبلی سے منظور ہوا، ادھر سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا متعارف کردہ نیا بلدیاتی قانون اپوزیشن جماعتوں کے اتفاق نہ کئے جانے پر نظرثانی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ملکی تاریخ میں کم و بیش یہ پانچواں موقع ہے

کہ بلدیاتی نظام میں تبدیلی لائی جارہی ہیں، جبکہ گراس روٹ لیول پر اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے ،اس اہمیت کے باوجود ہر دور اقتدار میں بلدیاتی نظام لانے میں تاخیری حربے استعمال کیے جاتے رہے ہیں ،موجودہ حکومت نے بھی اپنے تمام تر دعوئوں کے باوجود بلدیاتی انتخاب میں تاخیری حربے استعمال کیے ہیں،مگر اب عدلیہ کے کہنے پر ہی سہی ، مر حلہ وار بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن بنایا جاہا ہے

،خیبر پختونخوا کے بعد پنجاب میں بھی بلدیاتی انتخاب کے پہلے مرحلے کا اعلان کر دیا گیا ہے ، بلدیاتی انتخابات دیر یا سویر سے ہو جائیں گے ،تاہم یہ بات اٹل ہے کہ ملک میں جب تک رشوت اور بدعنوانی جیسی خامیاں موجود رہیں گی، بلدیاتی اداروں کے تبدیلی
کے باوجود مطلوبہ نتائج کا حصول خواب ہی رہے گا۔
تحریکِ انصاف بد عنوانی کے خاتمے اور اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے وعدئوں کے ساتھ ہی برسر اقتدار آئی تھی ، تاہم اپنے چار سالہ دور اقتدار میں ابھی تک اپنے وعدوں سے وفا نہیں کرپائی ہے، اگر مو جودہ حکومت واقعی جمہوریت و عوام سے مخلص ہے اور عوام کی بے لوث خدمت کرنا چاہتی ہے

تو اسے چاہئے کہ بدعنوانی کے خاتمے کو یقینی بنانے کے ساتھ آئین کے آرٹیکل 140A کے تحت تمام صوبوں کو اس ضمن میں جلد راضی کرے کہ بلدیاتی انتخاب کے بعد مکمل اختیارات و فنڈز بھی منتخب بلدیاتی نمائندوں کے سپرد کیے جائیں، اس کے ساتھ آئین میں بلدیاتی قوانین کو بھی اتنا موثر بنا یا جائے کہ مستقبل میں کوئی بھی جماعت بلدیاتی اختیارات اور فنڈز کو اپنے ارکان پارلیمان میں تقسیم نہ کرسکے اور آنے والابلدیاتی نظام اتنا با اختیار ہو کہ جس کے سبب عوام حقیقی جمہوریت کے ثمرات سے مستفید ہو سکیں ،اس کے بعد ہی حقیقت میں نیا پاکستان وجود میں آسکتا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں