تذکرہ اولاد ِ نبیﷺ کا 138

تذکرہ اولاد ِ نبیﷺ کا

تذکرہ اولاد ِ نبیﷺ کا

جمہورکی آواز
ایم سرورصدیقی

اعلیٰ حضرت امام احمدرضاؒ خان بریلوی نے شان بیان کرتے ہوئے حدائق ِ بخشش میں لکھاہے ۔

تیری نسل ِ پاک کا ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور،تیرا سب گھرانہ نورکا

نبی پاک ﷺکی اولاد ِپاک کا تذکرہ کرنابھی عبادت ہے اسی لئے آج ہم بالخصوص تذکرہ کر رہے ہیں آنحضرت ﷺ کی نسل ِپاک میں حضرت قاسم رضی اللہ تعالیٰ عنہ 598–601، حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا 599–629،حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا 601–624،حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا603–630،حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا 605–632،حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ611–613،حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ 630–632 تھے ایک بیٹے ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ

(ان کی والدہ ام المومنین حضرت ماریہ الکبیتیارضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں) کے علاوہ سب اولادحضرت محمدﷺ کی پہلی بیوی ام المومنین خدیجہ بنت خوولیدرضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے تھے حضرت زینب رضی اللہ عنہاکی سب سے بڑی بیٹی تھیں ان کی پیدائش کے وقت حضورپرنورﷺ کی عمر ِ مبارک 30 سال تھی جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے عقد میں تھیں البدایہ والنہایہ جلد 3 صفحہ 113 کے مطابق حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سگی بہن حضرت ہالہ بنت خویلد کے

شریف اور امانت داربیٹے حضرت ابوالعاصؓ سے ہوا، اس حوالہ سے حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہم زلف ہوئے۔ ذخائر العقبی صفحہ 751 اور البدایہ والنہایہ کے مطابق حضورﷺنے جب نبوت کااعلان کیا کی تو کافروں نے حضرت ابوالعاص کو لالچ دیا کہ ہم تمہارا نکاح قبیلہ قریش کی حسین ترین عورت سے کر دیتے ہیں تم حضرت محمد ﷺ کی بیٹی کو طلاق دے دو مگر انہوںنے جواب میں کہا خدا کی قسم میں اپنی بیوی سے ہر گز جدا نہیں ہو سکتا۔ البدایہ کے مطابق حضور ِ اکرم ﷺ کے

معاشرتی بائیکاٹ اور شعب ابی طالب میں محصور ی کے دوران، آپ ﷺ کے داماد حضرت ابوالعاص ایمان نہ لانے کے باوجود حضور اکرم ﷺ کے کھانے پینے اور دیگر ضروریات کا بندوبست کرتے رہے ، جس پرحضورﷺنے فرمایاکہ ہماری دامادی کی بہترین رعایت ابوالعاص نے کی۔ غزوہ بدر کے دوران کفار نے حضرت ابوالعاص اور حضور پرنورﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہو کو قید کرلیا تو حضرت زینبؓنے اپنے خاوند کی رہائی کے لئے وہ ہار بھیجا جو ان کی والدہ حضرت خدیجہ ؓنے انہیں دیا تھا،

اس ہار کو دیکھ کر حضور ﷺ پر رقت طاری ہوئی اور صحابہ کرام سے مشورہ کیا، اگر تم کہو تو یہ ہار میں اپنی بیٹی کو واپس کر دوں اور ابوالعاص کو چھوڑ دوں۔ صحابہ کرام کی حالت بھی دیکھنے والی تھی اور روتے ہوئے عرض کی حضورلب کشائی کی بھی ہمت نہیں۔ نبی پاک ﷺ نے ابوالعاص کو چھوڑ دیا اور وعدہ لیا کہ مکہ واپس جا کر میری بیٹی کو میرے پاس بھیج دینا۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی جلد 2 صفحہ 324، مسند احمد، ابو داود جلد 2 صفحہ 367، مشکوۃ، البدایہ والنہایہ) مکہ واپس جا کر سارے

حالات بتا کر حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو اپنے بھائی کنانہ کے ساتھ مدینہ پاک کی طرف روانہ کیا، کفار کو علم ہوا تو وادی ذطوی میں حملہ کر کے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو نیزہ مارا جس سے آپ کا حمل ساقط ہو گیا، اونٹ پر رکھے کجاوے سے نیچے گر گئیں۔ کفار نے تیر چلاتے ہوئے کہا کہ ہمارے دشمن کی بیٹی کو سر عام لے کر جائے گا، اگر لے جانا ہے تو رات کے وقت لے جانا، اسپر چند دنوں بعد کنانہ نے مدینہ سے آئے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ رات کے وقت نکل کر

حضور پرنورﷺ کے پاس ان کی بیٹی کو پہنچایا۔ (البدایہ والنہایہ، زرقانی جلد ۳ صفحہ 223) ایک مرتبہ حضرت ابوالعاص شام کے علاقے میں کفار کے تجارتی قافلے کے ساتھ تھے، نبی ٔ رحمت ﷺ نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قافلے کے پیچھے بھیجا، مقام عیص میں قافلہ اس حالت میں ملا کہ کچھ لوگ پکڑے گئے، حضرت ابوالعاص نے بھاگ کر حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے پاس مدینہ میں پناہ لی جس پر حضرت ابوالعاص کا تجارتی مال بھی ان کو واپس کر دیا گیا۔ آپ واپس مکہ گئے

اور سب کا سامان واپس کر کے مدینہ آئے اور اسلام قبول کر لیا۔ اسطرح حضورﷺ نے میاں بیوی کو اکٹھا کردیا۔ مجمع الزوائد للہیثمی جلد 9 صفحہ 12، دلائل النبوۃ للبیہقی جلد 2، صفحہ 436 میں لکھا ہے کہ حضورﷺ کے پاس جب بھی حضرت زینب رضی اللہ عنھا آتیں تو آپ ﷺ فرماتے کہ یہ میری بیٹی بہترین ہے جس کو میری وجہ سے ستایا گیا، یہ افضل بیٹی ہے جس کو میری وجہ سے روکا گیا ہے۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی اولاد میں ایک صاحبزادہ علی تھے جو حضورﷺ کے پاس پرورش پاتے رہے

، فتح مکہ کے روزحضور ﷺ نے ا پنے نواسے کو سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا ہوا تھا۔ (اسد الغابہ لابن کثیر جلد 4 صفحہ 41، الاصابہ لابن حجر عسقلانی جلد 2 صفحہ 503)۔ ان سے ایک صاحبزادی بھی تھیں جن کا نام اْمامہ بنت ابی العاص تھا جو حضور ﷺ کی نماز کے دوران آپ ﷺ کے کاندھے پر سوار ہو گئیں اور آپ ﷺ نے نواسی کو سنبھالتے سنبھالتے نماز ادا کی۔ (بخاری و مسلم، ابو داود)
ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کو ایک خوصورت ہار کسی نے تحفتاً د یا تو آپ ﷺ نے گھروالوں سے پوچھا یہ ہار کیسا ہے

، سب نے کہا بہت خوبصورت ہے، آپ ﷺ نے تبسم فرماکرکہایہ اس کو دوں گا جو اہلبیت میں سب سے زیادہ مجھے محبوب ہے اور پھر وہ ہار حضرت امامہ رضی اللہ عنہا کو دیا (اسدالغابہ، مجمع الزوائدللہیثمی، الاصابہ) ۔کہاجاتاہے کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا مدینہ طیبہ آتے ہوئے حجرت ہبار بن اسود کے نیزہ سے زخمی ہوئی تھیں،وہ زخم تازہ ہو گیا جو ان کی وفات کا سبب بنا، اسلئے وہ شہیدہ بھی ہیں۔

ان کی وفات نے حضورﷺ کے ساتھ سب کو رْلایا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عورتوں کے رونے پر کچھ سختی کرنے کی کوشش کی تو حضورﷺ نے فرمایا اے عمر سختی نہ کر اور عورتوں کو فرمایا کہ شیطانی آوازیں نکالنے سے پرہیز کرو پھر فرمایا: جو آنسو آنکھوں سے بہتے ہیں اور دل غمگین ہوتا ہے تو یہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے اور اس کی رحمت ہے (مشکوۃ شریف صفحہ 152)۔ حضرت ام ایمن، حضرت سودہ اور حضرت ام سلمی رضی اللہ عنہم نے حضور پرنور ﷺ کے فرمان کے مطابق بیری کے پتے ڈال کر، پانی اْبال کر، غسل کے بعد کافور کی خوشبو لگائی اور پھر حضور ﷺ نے اپنا تہنبددیا

اور فرمایا یہ بھی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے کفن کے ساتھ رکھ دو (بخاری و مسلم)۔ انساب الاشراف جلد1 صفحہ400 کے مطابق جنازہ حضور پاکﷺ نے پڑھایا۔ قبر کے پاس بیٹھے رہے، قبر تیار ہوئی تو خود اللہ کے آخری رسول ﷺ قبر میں اْترے، واپس ہوئے تو چہرے سے غم کے آثارکم تھے۔ پوچھنے پر ارشاد فرمایا کہ میں اپنی بیٹی کے لئے قبر کی تنگی سے ڈر رہا تھا، قبر میں دعا کی تو اللہ کریم نے اسکے لئے آسانی فرما دی ہے (مجمع الزوائد للہیثمی جلد 3، صفحہ 47، کنزالعمال جلد 8، صفحہ120)۔
نبی ٔ رحمت ﷺ کی دوسری بیٹی حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہاکی پیدائش کے وقت حضور ﷺ کی عمر مبارک33 سال تھی ج ان کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ طبقات ابن سعد جلد 8، صفحہ 24 اور الاصابہ لابن حجر کے مطابق ’’اعلان نبوت’’ پر ماں کے ساتھ ہی انہوں نے سات سال کی عمر میں اسلام قبول کر لیا۔ حضورﷺنے حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم کا نکاح اپنے چچا ابولہب کے بیٹے عتبہ اور عتیبہ سے کیا ہوا تھا، ابھی رْخصتی ہونی باقی تھی کہ تبلیغ کے دوران ہی سورۃ ابولہب اترنے

پر ابولہب نے اپنے بیٹوں کو دھمکی دی کہ حضورﷺ کی دونوں بیٹیوں کو طلاق دے دو ورنہ تمہارا میرے ساتھ اْٹھنا بیٹھنا حرام ہے۔ دونوں بیٹوں نے اپنے والد کے کہنے پر دونوں بیٹیوں کو طلاق دے دی۔ اس کے بعد حضورِ اکرم ﷺ نے مکہ مکرمہ میں اپنی بیٹی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے یہ فرما کر کیا کہ اللہ کریم نے مجھے وحی بھیجی ہے کہ میں اپنی بیٹی کا نکاح عثمانؒ بن عفان سے کر دوں۔ (کنزالعمال جلد 6 صفحہ 375)۔ البدایہ والنہایہ جلد 3 صفحہ 66 کے مطابق

اسی جوڑے نے حبشہ کی طرف جو پہلا قافلہ گیا اس کے ساتھ ہجرت کی۔حبشہ سے ایک عورت آئی تو حضور ﷺ نے اْس سے ہجرت کرنے والوں کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا کہ اے محمد ﷺ میں نے عثمانؒ کو اپنی بیوی کے ساتھ سواری پر سوار جاتے ہوئے دیکھا تو حضور پرنور ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی ان دونوں کا ساتھی ہو، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے لوط علیہ السلام کے بعد اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت کی۔ الاصابہ لابن حجر جلد 4 صفحہ 298 پر ہے

کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو علم ہوا کہ حضورِ اکرم ﷺ مدینہ پاک ہجرت کرنے لگے ہیں تو پہلے اپنی بیوی کے ساتھ مکہ اور پھر بعد میں مدینہ ہجرت فرمائی۔ اسی طرح الغابہ جلد 5 صفحہ 456 میں ہے کہ ہجرت حبشہ کے دوران وہاں عبداللہ بیٹا آپ کے ہاں پیدا ہوا، جو 6 سال کا ہو کر مدینہ منورہ میں انتقال کر گیا جس کی نماز جنازہ حضور ﷺ نے خود پڑھائی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے قبر میں اتارا۔ بخاری جلد 1 صفحہ 523 کے مطابق غزوہ بدر سے پہلے حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کو خسرہ کی

بیماری ہوئی، بدر میں جانے سے حضورﷺ نے حضرت عثمان کوروک دیا اور فرمایا کہ آپ رقیہ کی تیمارداری کرو، آپ کو وہی اجر ملے گا جو بدر میں شرکت کرنے والوں کو ملے گا اور غنیمت کے مال میں بھی برابر کا حصہ ہے۔ غزوہ بدر سے واپسی تک حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا فوت ہو چکی تھیں۔ اسلئے طبقات ابن سعد جلد 8 صفحہ 25 کے مطابق حضورﷺ جب غزوہ سے مدینہ واپس آئے تو جنت البقیع میں جا کر حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی قبر پر دعا فرمائی۔ ایک روایت میں ایسا بھی آتا ہے کہ حضورﷺ پر حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی تعزیت پیش کی گئی تو آپﷺ نے فرمایا: الحمد للہ شریف بیٹیوں کا دفن ہونا بھی عزت کی بات ہے۔
حضورﷺ کی تیسری بیٹی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہاہیںحضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے بطن سے جو حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا سے چھوٹی تھیں اور اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 216، طبقات ابن سعد صفحہ 52 کے مطابق حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا نے بھی اپنی والدہ کے ساتھ اسلام قبول کر لیا۔ اوپر بیان ہوا ہے کہ ان کا نکاح بھی چچا ابولہب کے بیٹے سے ہوا اوررخصتی سے پہلے طلاق ہو گئی۔

طبقات ابن سعد جلد 8، صفحہ 811 اور البدایہ لابن کثیر جلد 3 صفحہ 202 کے مطابق حضورﷺ نے ہجرت کی تو بعد میں آپﷺ نے حضرت ابو رافع اور حضرت زید بن حارثہ جن کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے 500 درہم دیئے تاکہ مکہ مکرمہ سے ام المومنین حضرت سودہؓ، حضرت ام کلثوؓم اور حضرت فاطمہ ؓ کو مدینہ منورہ لے کر آئیں پھر ان تینوں کی تشریف آوری مدینہ پاک ہوئی۔ المستدرک للحاکم جلد 4 صفحہ 94 پر ہے کہ حضورپاک ﷺ نے فرمایا کہ میں اپنی بیٹیوں کی اپنی مرضی سے نکاح نہیں کرتا

بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے ان کے نکاح کے فیصلے ہوتے ہیں‘‘۔ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے وصال کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بڑے اداس تھے نبی کریمﷺ کے پوچھنے پرمغموم ہوکر عرض کی کہ غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اور جو قریبی رشتہ آپ سے تھا وہ بھی نہیں رہا۔ اس پر حضور ﷺ نے تسلی دے کر فرمایا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ اللہ کریم نے حکم دیا ہے کہ میں ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح جیسا حق مہر حضرت رقیہ کا تھا اْسی پر ام کلثوم کا نکاح تجھ سے کر دوں۔

(ابن ماجہ، اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 316، کنزالعمال جلد 6 صفحہ 573)۔ حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہاسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ سیرت حلبیہ جلد 4 صفحہ 44 پر ہے کہ ایک دن حضور انورﷺ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر گئے، وہ اس وقت گھرمیں موجود نہیں تھے، انہوں نیبیٹی سے پوچھا کہ تم نے عثمانؓ کو کیسا پایاتو انہوں نے عرض کی کہ اباجان وہ بہت اچھے اور بلند رتبہ شوہر ہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا کیوں نہ ہوں وہ دنیا میں تمہارے دادا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور

تمہارے باپ سے بہت مشابہ ہیں۔ طبقات ابن سعد جلد 8 صفحہ 52 کے مطابق 9 ہجری کو حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا بھی انتقال فرما گئیں جس پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ میری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو ایک ایک کر کے اے عثمان تیرے نکاح میں دے دیتا۔(مجمع الزوائد للھیثمی جلد 9 صفحہ 712) بعض روایات میں اس سے بھی زیادہ تعداد لکھی ہے۔ طبقات ابن سعد جلد 8 صفحہ 62، شرح مواھب اللدنیہ للزرقانی جلد 2 کے مطابق حضرت ام کلثوم کا غسل اور کفن ہو چکا تو حضور ِ اکرم نے خود جنازہ پڑھایا۔

حضور پاک ﷺ کوسوگوار دیکھ کر تمام صحابہ کرام غمگین ہوگئے۔1۔ حضور اکرم ﷺ کی سب سے چھوٹی چوتھی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جن پر زہرا، بتول ،طیبہ، طاہرہ جیسے لقب خوب سجتے ہیں۔ مسلم جلد 2 صفحہ 29، الاستیعاب جلد 4 صفحہ 343 وغیرہ میں لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کے ہرہر انداز سے مشابہت رکھتی تھیں۔ ذخائر العبقی المحب الطبری کے مطابق آپ کاحضرت علی رضی اللہ عنہ سے نکاح ہوا جس کے گواہ حضرت ابوبکر وحضرت عمر رضی اللہ عنہمو ہیں۔

تفسیر قرطبی کے مطابق اْس وقت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عمر 15 یا 18برس تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عمر 21 یا 24 سال تھی۔ نکاح کی تیاری حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کی، جہیز کے لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے زرہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو بیچی اور پھر جب واپس جانے لگے

تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے زرہ بھی تحفے میں واپس کر دی، انہی پیسوں سے جہیز کا سامان حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خریدکرلائے۔ ابن ماجہ کی حدیث پاک کے مطابق حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی سے بہتر کوئی شادی نہیں دیکھی گئی۔ صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جنت کی سردار ہیں اورآپ کے بہت سے فضائل احادیث میں وارد ہیں

۔ اللہ کریم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکو تین بیٹے حضرت امام حسنؓ و امام حسین، محسن اوردو بیٹیاں ام کلثوم، زینب رضی اللہ عنہم عطا فرمائے۔ محسن رضی اللہ عنہ بچپن میں ہی وفات پا گئے تھے۔ صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق حضرت ام کلثوم کا نکاح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ہوا جبکہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عبداللہ بن جعفر طیار رضی اللہ عنہ سے ہوا۔

(نسب قریش صفحہ 52) ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا شب بیدار، سخی، سب کے لئے دعائیں کرنے والی عظیم ہستی تھیں۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا حضورﷺ کی وفات کے چھ ماہ بعد فوت ہو گئیں۔ بیماری سے پہلے آپ کی تیمارداری حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیوی حضرت اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا انجام دیتی رہیں۔البدایہ والنہایہ جلد 6 صفحہ 433 کے مطابق 28 یا 29 برس کی عمر میں آپ کا انتقال ہوا۔
5۔ حضرت اسماء نے دوسری عورتوں کے ساتھ آپ کو غسل دیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی غسل کے دوران معاون تھے۔ (اسد الغابہ جلد 5، صفحہ 874، البدایہ و النہایہ جلد 6، صفحہ 333) آپ کا جنازہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پڑھایااور جنت البقیع میں آپ کو دفن کیا گیا۔ صل اللہ تعالی علی محمد و علی آلہ و ازواجہ و بناتہ و اصحابہ اجمعین۔
شیعہ مسلک کی بنیادی چار کتابیں جنہیں ’’صحاح اربعہ ‘‘کہا جاتا ہے: (1) اصول کافی (2) من لا یحضر الفقیۃ (3) تہذیب الاحکام (4) الاستبصار، البتہ اصول کافی کا حوالہ ان چار میں سے سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ کہتے ہیں اس کتاب کو لکھنے والے معروف شیعہ عالم‘‘ابوجعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق کلینی’’ ہیں جو 329ھ میں فوت ہوئےمحمد بن یعقوب کلینی نے اس کتاب کی ” کتاب الحجہ باب مولد النبی ﷺ” میں ذکر کیا ہے کہ ” نبی اکرم ﷺ نے حضرت خدیجہؓ کے ساتھ نکاح کیا اس وقت آنحضرت ﷺ کی

عمر بیس سال سے زیادہ تھی پھر حضرت بی بی خدیجہ ؓسے جناب ﷺ کی اولاد بعثت سے پہلے جو پیدا ہوئی وہ ہے قاسم، رقیہ، زینب اور ام کلثوم اور بعثت کے بعد آپ ﷺ کی اولاد طیب ، طاہر اور فاطمہ پیدا ہوئیں۔” (اصول کافی ص 439 طبع بازار سلطانی تہران۔ایران)اس کے بعد اصول کافی کے تمام تر شارحین نے اس کی تشریح اور توضیح عمدہ طریقے پر کر دی ہے مثلاً مرآۃ العقول شرح اصول جو باقر مجلسی نے لکھی ہے اور ’’ الصافی شرح کافی ‘‘ ملا خلیل قزوینی نے لکھی ہے انہوں نے اس روایت کو بالکل درست کہا ہے۔مشہور شیعہ عالم ابو العباس عبد بن جعفری الحمیری اپنی کتاب ” قرب الاسناد” لکھتے ہیں ” حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہاسے جناب رسول اللہ ﷺکی

مندرجہ ذ یل اولاد پیدا ہوئی۔القاسم، الطاہر ،ام کلثوم، رقیہ، فاطمہ اور زینب رضی اللہ عنھا،حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی علی رضی اللہ عنہ سے شادی کی اور نبو امیہ سے ابو العاص بن ربیع نے زینب کے ساتھ شادی کی اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم کے ساتھ نکاح کیا ان کی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا فو ت ہوگئیں پھر رسول اللہ ﷺنے اس کی جگہ رقیہ کا نکاح عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دیا۔ ” (قرب الاسناد لابی العباس)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں