حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر ہے! 98

پھونکوں سے چراغ بجھایا نہ جائے گا!

پھونکوں سے چراغ بجھایا نہ جائے گا!

تحریر :شاہد ندیم احمد

ملک کیلئے آئین تشکیل دینا اور اس کے مطابق حسب ضرورت قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا فرض منصبی ہے ،تاہم ہنگامی صورت حال میں جب پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کرنا ممکن نہ ہو تو حکومت آئین میں متعین مدت کے لیے صدارتی فرمان کے ذریعے قانون سازی کرسکتی ہے، لیکن صدارتی آرڈیننس کا پارلیمنٹ میں پیش کیا جانا لازمی ہوتا ہے

اور پھر یہ عوامی نمائندوں کا اختیار ہے کہ صدارتی فرمان کو بعینہٖ منظور یا مسترد کر سکتے ہیں ،اس وقت حالات ساز گار ہیں ،بلکہ ایک جمہوری حکومت کے ساتھ پارلیمان بھی فعال ہے ،اس کے باوجود قانون سازی کیلئے جتنے بڑے پیمانے پر بلاجوازصدارتی فرامین کا سہارا لیا جارہا ہے،یہ جمہوری اصولوں کی رو سے کسی طور قابل اطمینان نہیں ہے۔یہ امر واضح ہے کہ تحریک انصاف جب سے اقتدار میں آئی ہے

،یکے بعد دیگرے ستر سے زائد صدارتی آرڈی نینس لانے کے باوجود سلسلہ روکا نہیں ،بلکہ جاری ہے ، وفاقی کابینہ نے دو مزید اہم آرڈیننسوں کی منظوری دی ہے،پہلا آرڈیننس سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مہم کو جرم قرار دینے اور دوسرا ارکان پارلیمنٹ کو انتخابی مہم میں شرکت کی اجازت دینے سے متعلق ہے ،وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے بقول سوشل میڈیا پرلوگوں کی عزت اچھالنے کو قابل تعزیرجرم قرار دیدیا گیا ہے، قانون کے تحت عدالتوں کوپابند کیا گیا ہے کہ فیصلہ چھ ماہ میں کیا جائے، جبکہ کابینہ کی منظور کردہ دوسری تجویز کے تحت اب وزراء اور ارکان پارلیمنٹ انتخابی مہم میں حصہ لے سکیں گے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا ایک طاقتور میڈیم کی شکل اختیار کر گیا ہے،اس پر چلنے والی کوئی بھی خبر یا مواد پلک جھپکتے ہی ہر گھر میںپہنچ جاتا ہے،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ادارے کچھ ضابطوں کے پابند ہیں،جبکہ سوشل میڈیا پر ہر شخص ایک ادارہ بن کر کام کرتا ہے اور غلط اطلاعات کو بلا سوچے سمجھے آگے پھیلانے کا باعث بنتا ہے،آئے روز سوشل میڈیا پر پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں

اور شرفاء یہ دہائی دیتے نظر آتے ہیں کہ اُن کے بارے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ درست نہیں، فوج اور عدلیہ کے بارے میں بھی منفی پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے ،تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون سازی کے ساتھ شفافیت کو یقینی بنایا جائے ،تاکہ یہ تاثر نہ ابھرے کہ کسی خاص طبقے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ جھوٹی خبروں کے تدارک کے ساتھ ارکان پارلیمان کو بھی انتخابی مہم سے دور نہیں رکھا جانا چاہئے ،لیکن اس کے لیے قانون سازی کا طریقہ کار درست نہیںہے،حکومت کو کس بات کا خوف ہے کہ پارلیمان کی بجائے صدارتی آرڈیننس کا سہارا لے رہی ہے ،ملک میں پارلیمان عوامی نمائندگی کا مرکز ہے اور حکومت کا اپنا وجود بھی اسی پارلیمان اور عوامی نمائندگی کی دین ہے، اگر حکومت کی جانب سے پارلیمان کے کردار کو منہا کر کے قانون میں ترامیم کرنے یا نئے قوانین نافذ کرنے کا سلسلہ ایک روایت کی شکل اختیار کرگیا تو حکومت جمہور کی نمائندگی کا حق بھی کھو دے گی۔
یہ حقیقت ہے کہ صدارتی آرڈیننس کا اجراء عام طور پر آمرانہ دور اقتدار کا وطیرہ رہا ہے،تاہم موجودہ حکومت نے اپنی ضرورت اور فائدے کے لیے آرڈیننس کی بھر مار کر کے امرانہ دور اقتدار کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں، جبکہ اپوزیشن بظاہر پہلے مخالفت، پھر منافقت اورآخر میں مفاہمت کر تی نظر آرہی ہے

،اپوزیشن پچھلے چار سال سے ایسا ہی دوغلا کردار ادا کر تی آرہی ہے ،اپوزیشن کے تعاون سے ہی ہر قانون کسی نہ کسی بہانے منظور ہو رہا ہے ،یہ حکومت اور اپوزیشن کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے کہ حکومت کی جانب سے ہر قانون دوہرے انداز میں بنایا جارہا ہے،اگر ایک قانون اچھا لگتا ہے تو دوسرا مجبوراً قبول کرنا پڑتا ہے۔
بلا شبہ حکومت اور اپوزیشن بظاہر محاذ آرائی کا سارا کھیل عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے کھیل رہے ہیں ،ایک طرف اپوزیشن قیادت کہتی ہے کہ صدر مملکت آرڈیننس کا اجرا کرکے آرٹیکل 89 کے تحت آرڈیننس کیلئے درکار ضروریات کو پورا کررہے ہیں نہ ہی خود سے فیصلہ کررہے ہیں، اس بارے میں پارلیمنٹ سوچے گی

کہ صدر کے خلاف کس طرح کا اقدام کرے،دوسری جانب حکومت ہر طرح کے اقدامات اُٹھائے چلی جارہی ہے ، جبکہ پارلیمنٹ صرف سوچ تک محدودہے، ایسا کیوں ہے؟اگر اپوزیشن اپنی ساکھ بحال کرنا چاہتی ہے تو حکومت کے خلاف محض سوچے نہیں ،بلکہ اعملی ا قدام اُٹھائے، ورنہ معاملہ یہی چلتا رہے گا کہ پہلے کون پھونک مارے گا؟ جبکہ یہ پھونکوں سے چراغ بجھنے والا نہیں ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں