156

مغل مسلمان بادشاہت دور کا عدل وانصاف اور آزاد جمہوری بھارت کی عدلیہ

مغل مسلمان بادشاہت دور کا عدل وانصاف اور آزاد جمہوری بھارت کی عدلیہ

۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707

مشہور مورخ ترائیلوچن شکلا کہتے ہیں مسلم تاناشاہ کہے جانے والے مغل دور حکومت میں بھارت کے مرکزی حکومتی شہر دہلی آگرہ مدراس کلکتہ سمیت صوبائی و ضلعی یا تحصیل سطح تک عدل و انصاف کے اعتبار سے مغلیہ عدل و انصاف کو نہ صرف سنہرا دور کہا جانا چاہئیے بلکہ تاریخ کی کتابوں میں مغلیہ وقت کے عدل و انصاف کو عدل و انصاف کا فوارہ (فاؤنٹین آف جسٹس) لکھا گیا ہے مغلوں کے عدل وانصاف کے بارےمیں تاریخ کی کتابوں میں تمثیلا لکھے جملوں کے مطابق شیر اور بکری یا شیر اور گائے

نہر کنارے ایک ساتھ پانی پیتے پائے جاتےتھے۔ مغل سلطنت میں ہر خاص و عام کو، اس پر کسی کے بھی کئے جانے والے ظلم کے خلاف انصاف ملنے کی اسے امید ہوتی تھی۔ چونکہ مغل حکومت کی عدلیہ میںں بادشاہ مملکت کی حیثیت ، عدالت کے سپریم جج کی ہوا کرتی تھی اور بادشاہ وقت کو ہر معاملے میں،انصاف کے تقاضے کے تحت فیصلے کرنے کے لئے، داروغائے عدالت اور میر عادل اور قاضی شہر ہمہ وقت ساتھ رہتے تھے۔ چونکہ مسلم بادشاہت تھی اس لئے عدل و انصاف اسلامی شریعت کے مد نظر ہوا کرتے تھے

۔ مغل شہنشاہ اکبر کے زمانے ہی سے عدل و انصاف کے لئے شاہی عدالتوں کا نفاذ عمل میں آچکا تھا لیکن شہنشاء جہانگیر کے زمانے میں بھارت کا عدل و انصاف اپنے عروج پر تھا۔ شاہی عدالت تک عام فریادی بھی کسی کے بھی خلاف اپنی فریاد رسی لئے، پہنچ سکے اس لئے جہانگیر نے اپنے محل کے اندر سے

محل کی بیرونی دیواروں کے باہر تک 30 گز لمبی سونے کی زنجیر باندھ رکھی تھی، جس کے دوسرے سروں پر محل کے اندر مختلف حصوں میں 30 گھنٹیاں بندھی ہوئی تھیں ۔ جب بھی کوئی فریادی کسی کے بھی خلاف انصاف کے تقاضے کے تحت محل کے باہر لٹک رہی سونے کی زنجیر کھینچتا تھا تو محل کے مختلف حصوں میں گھنٹیاں بجتے ہوئے، باشاہ سلامت کو انصاف کے لئے متوجہ کیا جاتا تھا۔
مغل حکمرانوں پر ھندو مسلم بھید بھاؤکا الزام لگانے والے آج کے سنگھی حکمرانوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہونی چاہئیے کہ شہنشاء اکبر چونکہ سب سے زیادہ مختلف المذہبی گنگا جمنی سیکیولر مزاج کا شیدائی تھا،اس لئے مسلم تاناشاہی والے راج میں بھی، اس بھارت دیش کی ھندو عام جنتا کو انصاف دلوانے کے تمام تر تقاضوں کے تحت نہ صرف ھندو پنڈتوں اور شاستریوں کو عدالتی نظم میں شامل کیا گیا تھا،

بلکہ اکبر و جہانگیر کے زمانے سے، شاہی عدالتوں میں، ھندو جج بھی مقرر کئے جاتے تھے ، تاکہ ھندو رسم و رواج و انکے مذہبی آستھا عقیدے مطابق دیوانی اور مذہبی تنازعات پر بہترین سے بہترین فیصلے صادر کیئےجائیں۔البتہ فوجداری معاملات اسلامی قانون شریعت کے مطابق حل کئے جاتے تھے۔ویسے تو تمام مغل شہنشاء اپنے جد امجد کے حکم کا خیال رکھتے ہوئے عدل و انصاف کو قائم رکھنے کا پورا خیال رکھتے

اور انصاف کے تقاضوں کو بہتر سے بہتر بنانے کی ہر نئے بادشاہ کی خواہش ہوتی تھی، لیکن آج کے سنگھی حکمرانوں کے سب سے ناپسندیدہ مغل حکمران اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمہ نے، اپنی ھندو مسلم عوام کو ہر ممکنہ بہترین عدل و انصاف دلوانے کے لئے، عدل و انصاف کے اعلی معیار پر مشتمل شاہی کتاب “فتوئے جہان داری” اور فتاوائے عالمگیری کو لکھواکر،پورے ہندوستانی عدلیہ کا معیار لازم ملزوم کیا ہوا تھا۔شہنشاء اکبر کے انصاف کا عالم یہ تھا اس کا اپنا دودھ بھائی اعظم خان کے شاہانہ ناز نخروں سے،

شاہی دربار کے ایک وزیر کے قتل کئے جانے کی پاداش میں،اپنی رشتہ داری کا پاس و لحاظ نہ رکھتےہوئے،شاہی فرمان کے ساتھ انکے دودھ بھائی اعظم خان کو قلعہ کی اونچی دیوار سے نیچے پھینک دئیے جانے کے فیصلے کے تحت پہلی مرتبہ اتنی اوپر سے نیچے پھینکنے کے باوجود اعظم خان کے زندہ رہنے کی وجہ،

دوسری دفعہ پھر قلعہ کی اونچی دیوار سے نیچے پھینکوادیا گیا تھا اور موت واقع ہونے کے بعد اسے شاہی آداب کے ساتھ دفنایا گیا۔ اس طرح سے مغل حکمرانوں نے عدل و انصاف کے بلند معیار کو اونچا رکھنے کے لئے، کبھی مجرم کے اپنے سگے رشتہ دار ہونے کا بھی پاس و لحاظ نہیں رکھا تھا اور انصاف کے تقاضوں کے تحت ہر خاص و عام کو سزا دی جاتی تھی۔

شہنشاء اکبر نے اپنے خاص ماموں جان،خواجہ معظم کو اپنی بیوی کے قتل کے جرم میں قلعہ کی اونچی دیوار سے نیچے پھینکے جانے کی سزآ سنائی گئی تھی اور پہلی مرتبہ قلعہ کہ دیوار سے پھینکے جانے کے بعد زندہ بچ جانے پر، دوبارہ قلعہ کی دیوار سے پھینکوایا گیا تھا اور دوسری مرتبہ بھی انکی جان بچ جانے کے باوجود انہیں گوالیار کے جیل خانے میں تاوقت وفات قید میں رکھا گیا تھا۔یوں مغل حکمرانوں نے انصاف کے اعلی اقدار کی بحالی کے لئے اپنے خاص رشتہ داروں کو سزائے موت دینے سے بھی؛ کبھی عار نہ کی تھی۔*
*چونکہ بادشاہ وقت شاہی عدالت کا حتمی سربراہ ہوا کرتے تھے لیکن بادشاہ وقت کے بعد عدلیہ کا سربراہ قاضی القضاء یا چیف جسٹس اپنے ماتحت دو مفتیوں کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔ جن کا کام مذہبی اقدار کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے، بغیر بھید بھاؤ کئے، دیوانی و مذہبی مقدمات پر، ہر کسی کے ساتھ انصاف روا رکھنا ہوتا تھا

ان کے علاوہ راجدھانی میں ایک الگ عدالت لگا کرتی تھی جسے عدالت محصول اوراس کےقاضی کو، قاضی المحصول کہا جاتا تھا جو ملکی ٹیکس معاملات مقدموں پر فیصلہ سنایا کرتے تھے۔اس کے علاوہ افواج کے آپسی تنازعات کو نپٹانے کے لئے “قاضی عسکر” یا کورٹ مارشل عدالت بھی ہوا کرتی تھی

ہزاروں سال سے بھارت پرایک مہاراجہ یا شہنشاء کے بجائے، پورا بھارت مختلف راجوں مہاراجوں نوابوں اور سلطانوں کی مخصوص مملکتوں میں بٹا ہوا تھا ہزار سال قبل پہلی مرتبہ دہلی پر حکومت کرنے والے مسلم شہنشاہوں نے بتدریخ بھارت کے انیک حصوں پر اپنی حکومت قائم کرنی شروع کی تھی اس میں مغل شاہان کو ایک حد تک کامیابی ملی تھی۔ ان مغل حکمرانوں میں آج کے سنگھی حکمرانوں کے سب سے ناپسندیدہ مغل حکمران، اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمہ کو، اسکے تقریبا 50 سالہ دور شہنشاہیت میں

، شمال جنوب، کشمیر سے کنیا کماری تک اور مشرق و مغرب کلکتہ آسام سے گجرات تک، سب سے بڑا اور وشال اکھنڈ بھارت بنائے جانے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔چونکہ مغل سلطنت پورے اکھنڈ بھارت پر مشتمل سب سے بڑی حکومت تھی، اس لئے مغل حکمرانوں نے، بہتر انداز شہنائیت قائم رکھتے ہوئے عوام کو ہر ممکنہ سہولیات و عدل و انصاف دلوانے کے لئے، پورے بھارت کو مختلف صوبوں میں تقسیم کیا ہوا تھا۔

اس لئے راجدھانی کے علاوہ ہر صوبے کےانکے راجدھانیوں میں صوبائی عدالتیں قائم کی گئی تھیں اور ہر صوبے کے لئے ایک چیف قاضی صوبہ کا تقرر ہواکرتا تھا جو دیوانی معاملات کے قضیے حل کیا کرتے تھے۔اور فوجداری معاملات کو نپٹانے کے لئے ہر صوبے میں، عدالت صوبائی اور ناظم عدالت صوبائی کا تقرر ہوا کرتا تھے

۔ ہر صوبے کے اسکے رقبہ کے اعتبار سے متعدد ضلع ہوا کرتے تھے جس کے لئے بھی ضلعی عدالتین ہوا کرتی تھیں۔ جیسے آج کے زمانے کے اعتبار سے ڈسٹرکٹ عدالتیں کہا جاتا ہے اس طرح سے مسلم مغل شہنشاہ کے دور اقتدار میں، مرکزی دہلی سے لیکر تمام صوبوں اور اسکے تمام اضلاع تک، قانون عدلیہ ایک بہترین نظام ترتیب دیا ہوا تھا۔

ملکی صوبائی و ضلعی سطح پر نظام عدل و انصاف وقانون بنائے رکھنے والے اداروں کے تعاون کے لئے، شریعت قانون کے حساب سے رہبری کرنے والا “قاضی” جس کے ذمہ حکومتی ادارے جیل ، شفاخانہ وغیرہ کے نظم و ضبط کو بھی دیکھنا ہوتا تھا، انصاف کرنےوالا “میر عادل”، عوامی تجارتی ناپ تول کمی و بیشی پر نظر رکھنے کے لئے یا اس سمت تنازعات کے حل یا جواب دہی کے لئے ایک مخصوص آفیسر’محتسب’ جیسے نمائندے مقرر کئے جاتے تھے۔

نظام عدل کو موثر بنائے رکھنے کے لئے مغل شاہان نے سزا جو مقرر کی تھی ان میں،معیار جرم کے اعتبار سے یا تو جرمانے کی سزا، جیل کی سعوبتوں کی سزا، سرعام کوڑے مارنے کی سزا اور عوامی سزاء موت یا دیش نکالا سزا بھی ہوا کرتی تھیں۔ عموما موت کی سزا مرکزی شاہی عدلیہ میں ہوا کرتے تھے

لیکن کسی بھی بھارتیہ ناری کے ساتھ عصمت دری پر یا قتل کے بدلے “قصاص” قتل پر یا حکومت کے خلاف باغیانہ سر گرمیوں جیسے بڑے جرائم میں موت کی سزا دینے کا اختیار صوبائی گورنر کو بھی دئیے جاتے تھے،سزائے موت کے لئے مجرم کو ہاتھی کے پیروں کے نیچے کچل کر ماردیا جاتا تھا تاکہ عوام جرم کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچیں اور جرم کرنے سے خوف محسوس کریں
فوجداری معاملت چار طریقوں سےحل کئے جاتے تھے

“قصاص” یعنی جسمانی نقصان، کسی عضو ء بدن کے گھائل ہونے پر یا موت واقع ہونے پر، اس نقصان کے بمثل کا بدلہ لینا، “دیا” مالی نقصان پر، مالی اعتبار سے بھر پائی، “حد” دہشت گردانہ یا ظالمانہ جرائم کی سزا کے لئے بعض سزائیں مقرر تھیں۔ اس حد مقررسزاؤں کو دینا، جرائم کی شدت کو دیکھتے ہوئے،اپنے اختیار کو استعمال کرتے، شریعت میں اسے دئیے حقوق کے تحت، اپنےاعتبار سے جو سزا قاضی تجویز کرتا تھا اسے “تاجیر” کہا جاتا تھا، ضلعی سطح کے فوجداری مقدموں کے نپٹارے کے لئے مغل سرکار کی طرف مقرر کئے گئے شخص کو “عمل گزار” کہتے تھے۔

آج سے چھ سات سو سال قبل،اس ایام بادشاہت کے دور میں،عالم کے ہر کونے میں ، قائم راجوں ، مہاراجوں، سلطانوں، نوابوں یا بادشاہوں کے یہاں، وقت کے راجہ یا بادشاہ کا تجویز کیا قانون ہی، وقت کا قانون ٹہرایا جاتا تھا، مغل حکمرانوں نے اسلامی شریعت نظام عدل کوبھارت پر لاگو کرتے ہوئے، اس کفرستان بھارت میں انصاف و برابری کی فضاء قائم کرتے ہوئے،چمنستان بھارت کے کروڑوں ھندؤں کےدلوں پر راج کرتے ہوئے، کافروں پر مشتمل عالم کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت نہ صرف قائم کی ہوئی تھی بلکہ “سب کا ساتھ سب کا وکاس” جیسے آج کے ڈھکوسلے نعرہ بازی پر حقیقی معنوں مغل حکمران عمل کرتے ہوئے

، بھارت کو اپنے 27 فیصد جی ڈی پی کے ساتھ، عالم کا سب ترقی یافتہ ملک، سونے کی چڑیا چمنستان بھارت بنادیا تھا۔ سب سے اہم سات آٹھ سو سال قبل کے مغلوں کے عدل و انصاف و نفاذ قانون نظام کو کچھ تبدیلی کے ساتھ نہ صرف انگریز پورے بھارت پر عمل آوری کرتے رہے بلکہ آج آزاد بھارت پر 75 سال گزرنے کے بعد بھی کچھ تبدیلوں کے ساتھ مغل حکنرانوں کا نافذ کیا ہوا عدل وانصاف و نفاذ قانون نظام،

آج تک بھارت و پاکستان میں جاری و ساری ہے۔ یہ اور بات ہے کہ سو سالہ شدت پسند ھندو پارٹی آرایس ایس، بی جے پی بھارت کے 80 فیصد ھندو و آدیواسی و دلت، بھارت کی جنتا کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے، دانستہ طور، 800 سو سالہ امن و چین شانتی سے اس ملک پر حکومت کرنے والے، مسلم مغل حکمرانوں کے خلاف جھوٹ افترا پروازی سے دانستہ زہر افشانی کرتے ہوئے، ھندو اکثریتی ووٹ ھتیانے کے چکر میں 20 فیصدمسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے رہا کرتے ہیں

مغل حکمرانی کے اس شاندار دور پر چھ سو سال طویل عرصہ گزرنے کے بعد آج کے اعلی تعلیم یافتگان، سیکیولر جمہوری نظام کی پاسداری کرنے کا عہد لینے والے آج کی عدلیہ کے جج صاحبان و دیگر ذمہ داران عدلیہ، نیز عدل و انصاف کے پیمانے وضع کرنے والے قانون ساز پارلیمنٹ کے اراکین، کس بے دردی سے

قانون و عدلیہ کو اپنے پیروں تلے روندتے، دندناتے پھرتے ہیں اس پر تفصیل کچھ بتانے کی یہاں ضرورت نہیں ہے اس دیش کا پڑھا لکھا ہر شہری اس آزاد جمہوری ملک بھارت کے عدل و انصاف کے پیمانوں سے بخوبی واقف ہے۔ آخر میں ایک بات بتاتے چلیں “جس ملک کی غریب عام جنتا کو عدل و انصاف سے دانستہ ماورا رکھاجانے لگے تو سمجھو، اس ملک کے زوال پذیر ہونے کا وقت قریب ہے” واللہ الاعلم بالتوفیق الا باللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں