56

ندیم افضل چن پھر جیالے بن گئے

ندیم افضل چن پھر جیالے بن گئے

تحریر: اکرم عامر سرگودھا
فون نمبر: 03008600610
وٹس ایپ: 03063241100

2018ء کے انتخابات سے چند ماہ قبل پی ٹی آئی کے کپتان عمران خان منڈی بہاوالدین میں چن برادران کے ہاں گئے تو پیپلز پارٹی کے دیرینہ جیالے دھیمے لہجے کے سیاستدان، پیپلز پارٹی پنجاب کے جنرل سیکرٹری، سابق چیئر مین پبلک اکائونٹس کمیٹی قومی اسمبلی ندیم افضل چن ان کے بھائی ایم پی اے وسیم افضل چن، گلریز افضل چن، والد سابق صوبائی وزیر حاجی افضل چن، قریبی رشتہ دار سابق وفاقی وزیر نذر محمد گوندل اپنے ہزاروں ساتھیوں کے ہمراہ پیپلزپارٹی کو خیر آباد کہہ کر پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے،

تو پیپلز پارٹی کی قیادت نے ندیم افضل چن پر کڑی تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ خوف سے چن برادران پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں، جبکہ کپتان نے چن برادران بالخصوص ندیم افضل چن کی شمولیت کو پی ٹی آئی کیلئے اثاثہ قرار دیا تھا، 2018 کے انتخابات میں نذر محمد گوندل اور ندیم افضل چن نے قومی اسمبلی، گلریز افضل چن نے صوبائی اسمبلی کا انتخاب بھی پی ٹی آئی کے ٹکٹ سے لڑا، لیکن چن برادران کو وہ کامیابی حاصل نہ ہوئی جو ماضی کے انتخابات میں چن خاندان کو حاصل ہوتی تھی، پیپلز پارٹی کے

دور میں ایک ہی گھر کے نذر محمد گوندل وفاقی وزیر خوراک، ندیم افضل چن چیئر مین پبلک اکائونٹس کمیٹی اور وسیم افضل چن صوبائی پارلیمانی سیکرٹری پنجاب رہے، جبکہ 2018ء کے انتخابات میں صرف گلریز چن ایم پی اے بن سکے، تو نذر محمد گوندل این اے 87 اور ندیم افضل چن این اے 88 سے انتخاب ہار گئے، لیکن حکومت پی ٹی آئی کی بن گئی تو وزیر اعظم عمران خان نے جیالے سے

کھلاڑی بننے والے ندیم افضل چن کو نوازنے کیلئے اپنا معاون خصوصی مقرر کیا اور انہیں ہوٹر والی گاڑی کے ساتھ وزیر مملکت جتنے اختیارات سونپ دیئے گئے، کچھ عرصہ تک ندیم افضل چن نے معاون خصوصی کے عہدے پر خوب کام کیا۔
اچانک سانحہ مچھ ہو گیا تو ندیم افضل چن نے اس سانحہ پر چند سطروں کے ٹویٹ جس کی تحریر کچھ یوں تھی ’’اے بے یارو مددگار مزدوروں کی لاشو میں شرمندہ ہوں‘‘ میں ہزارہ کے شہداء سے اظہار افسوس کیا بالکل اسی طرح جس طرح پوری قوم ہزارہ کے شہداء سے تعزیت کر رہی تھی۔ ندیم افضل چن نے

بھی چند وزراء اور معاونین خصوصی کی طرح وزیر اعظم عمران خان کو شہداء کے ورثاء کے ہاں فوری جا کر تعزیت کرنے کا مشورہ دیا تھا تو کپتان نے ایسا نہ کیا، بلکہ مفاہمت کی سیاست کرنے والے وزراء کی بات کو رد کر دیا، تاثر یہ دیا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان کا ہزارہ کے شہداء کی تدفین سے پہلے ان کے ہاں جانا کپتان کیلئے نیک شگون نہیں ہو گا؟ لیکن ندیم افضل چن نے اپنے ضمیر کے مطابق ٹویٹ کے الفاظ لکھے جس پر وہ مطمئن تھا۔ وہ ’’جیالا‘‘ تھا، پیپلز پارٹی میں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، سیاسی جماعتوں کے قائدین و کارکنان اسے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں

کیونکہ وہ تنقید برائے تنقید کا عادی نہیں، بلکہ تنقید برائے اصلاح کی سیاست پر عمل پیرا ہے۔ وہ سیاست میں جمہوریت کی بقاء کیلئے کام کرنے والا محنتی کارکن ہے۔ اقتدار میں ہو یا اپوزیشن میں اس نے جمہوریت کی گاڑی کو منزل کی طرف رواں دواں رکھنے کیلئے فیول کی جگہ خون جگر دے کر ہر دور میں اپنا کردار ادا کیا وہ تحمل مزاج، زیرک سیاست دان ہے جو مشکل وقت میں اپنی قیادت اور دوستوں سے نبھا کرنا خوب جانتا ہے، اس کے پورے خاندان میں سیاست کے منجھے ہوئے لوگ موجود ہیں،

ان میں کھلاڑی بھی ہیں اور جیالے بھی۔ ندیم افضل چن کے والد صوبائی وزیر، ماموں وفاقی وزیر، بھائی وسیم افضل چن ایم پی اے رہے، اب بھی چن گھرانے سے گلریز چن ایم پی اے ہیں، ندیم افضل چن سیاست کے نشیب و فراز سے بخوبی واقف ہیں انکی رشتہ داریاں بھی سیاسی گھرانوں میں ہیں۔
کوئی بھی حکومت، ایوان ہو یا فورم وہ حق بات کہہ گزرتے اور اس پر ڈٹ جاتے ہیں، کوئی بھی پارٹی برسر اقتدار ہو وہ اپنے حلقہ کے عوام کے مسائل حل کرانے کی جدوجہد میں مصروف دکھائی دیتا ہے،

موصوف عہدہ، رتبہ، اقتدار کو پس پشت ڈال کر ہر دور کے حاکموں سے ببانگ دہل اپنے حلقہ کے عوام کیلئے ان کا حق مانگتا ہے، وہ ملکی سیاست میں شرافت کا علمبردار اور جمہوری اقدار کو پروان چڑھانے والا سیاسی سپاہی ہے، اصولوں کی سیاست کا قائل اور انتقامی سیاست سے نفرت کرتا ہے، موصوف نے ہمیشہ فرنٹ لائن پر سیاست کا کھیل کھیلا، منڈی بہائوالدین سے تعلق ہونے کے باوجود وہ سرگودھا کے حلقہ 88 سے الیکشن لڑتا آ رہا ہے کیونکہ وہ عوامی خدمت کا قائل اور ہمہ وقت حلقہ اور ضلع کے

عوام سے رابطہ میں رہتا اور اب بھی ہے، وہ جاذب، ملنسار اور ورکر شخصیت ہونے کی بناء پر 2008 میں منڈی بہاوالدین کو چھوڑ کر سرگودھا کے اس حلقہ سے الیکشن لڑ کر 8 ہزار ووٹوں کی لیڈ سے ایم این اے بنا تو وہ 2008ء سے 2013ء تک قومی اسمبلی میں چیئر مین پبلک اکائونٹس کمیٹی پر ملک و قوم کی خدمت میں پیش پیش رہا، اور اس نے اپنے عہدے سے خوب انصاف کرتے ہوئے (پی اے سی) میں اہم فیصلے کیے جو سیاسی تاریخ میں ہمیشہ ان کے نام کے ساتھ منسوب رہیں گے۔
سیاسی ذرائع کہتے ہیں کہ سانحہ مچھ پر ٹویٹ اور ندیم افضل چن کے مشورہ پر کپتان ان سے نالاں تھے، جس پر ندیم افضل چن نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی سے استعفی دیا، اور کہاتھا کہ وہ بطور پی ٹی آئی ورکر کام کرتے رہیں گے، ندیم افضل چن نے پی ٹی آئی کی حکومت بننے کی صورت میں بھلوال کو ضلع بنوانے کا وعدہ کیا تھا، جوان کے ضمیر پر بوجھ تھا ، ندیم افضل چن نے حلقہ کے عوام کو یقین دلایا تھا کہ وہ بھلوال کو ضلع بنوانے کیلئے ہر سطح پر جدوجہد کریں گے، اس بابت ندیم افضل چن کئی بار وزیر اعظم کو باور بھی کرا چکے تھے، لیکن پی ٹی آئی میں اعلی سطح پر ان کی بات نہیں سنی جا رہی تھی

اور کچھ وزراء بھی ندیم افضل چن کی مخالفت کر رہے تھے، وزیر اعظم بھلوال کو ضلع بنانے کا عندیہ نہیں دے رہے تھے، ندیم افضل چن پر عوام کا دبائو تھا کہ وہ بھلوال کوضلع بنوائیں، ذرائع کہتے ہیں کہ ان حالات کے باعث ندیم افضل چن پی ٹی آئی سے دلبرداشتہ ہو گئے تھے، اور وہ کچھ دنوں سے سیاست میں گوشہ نشینی اختیار کیے ہوئے تھے، اس دوران انہیں میاں شہباز شریف نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کی دعوت دی، لیکن وہ (ن) لیگ کا متوالہ بننے پر تیار نہ ہوئے، پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری کی ہدایت پر چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے ندیم افضل چن سے رابطہ کر کے انہیں

پارٹی میں واپس شمولیت کی دعوت دی، جسے ندیم افضل چن نے قبول کر لیا، حکومت گرانے کیلئے کراچی سے شروع ہونے والا مارچ جب لاہور پہنچا تو بلاول بھٹو زرداری اور پیپلز پارٹی کی بڑی قیادت ندیم افضل چن کی رہائشگاہ پر گئی اور اس طرح جیالے سے کھلاڑی بننے والا ندیم افضل چن پھر جیالہ بن گیا اور اب ندیم افضل چن حکومت گرائو مارچ میں بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ ہو گا۔ یہاں توجہ طلب امر یہ ہے

کہ ندیم افضل چن کے بھائی پی ٹی آئی کے ایم پی اے گلریز افضل چن نے اپنے آڈیو پیغام میں کہا ہے کہ پیپلز پارٹی میں شمولیت ندیم افضل چن کا ذاتی فیصلہ ہے، گلریز افضل چن، حاجی محمد افضل چن، وسیم افضل چن، نذر محمد گوندل بدستور نا صرف پی ٹی آئی میں شامل ہیں بلکہ کپتان کی قیادت پر ہمیں مکمل اعتماد ہے۔
اس طرح منڈی بہائوالدین کے چن گھرانے سے ندیم افضل چن پی ٹی آئی کو خیر آباد کہہ کر واپس پیپلز پارٹی میں چلے گئے، جس پر بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ ندیم افضل چن واپس اپنے گھر یعنی پیپلز پارٹی میں آئے ہیں، کہتے ہیں ناں سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی، سیاست میں حریف حلیف اور اتحاد بنتے ٹوٹتے رہتے ہیں،

پی ٹی آئی کہتی ہے کہ ندیم افضل چن کے جانے سے پارٹی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہاں ندیم چن کے طرز گفتگو میں کہتا چلوں کہ ’’مختاریا۔ مرجانی دیا، میں کھلاڑی توں فیر جیالہ بن گیاں، لوکاں نوں وی دس دئیں، توں وہی دھیان کریں‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں