34

خواجہ سراؤں کے دیش میں سب کچھ ممکن ہے

خواجہ سراؤں کے دیش میں سب کچھ ممکن ہے

تحریر:نقاش نائطی
۔ +966562677707

آج دس مارچ توقع کے عین خلاف ، ای وی جن کے سہارے یوپی انتخابی نتائج پر سے آئے جانے پر، قلب سے نکلنے والے پھپھولوں نے کچھ یوں انگڑائی لینے پر ہمیں مجبور کیا ہے۔کہ اس فکر سے آزاد کہ بھارت کے ہزاروں لاکھوں،

اعلی تعلیم یافتہ سول سوسائیٹی افراد کے بشمول، اور لاکھوں والیاں مسلم علماء و حقاظ ومولیان کے خواب غفلت میں محو و مصروف رہتے تناظر باوجود، 138 کروڑ دیش واسیوں کے، ان پر روا رکھے حق انتخاب انکے فیصلے میں رد و بدل کی چند سنگھیوں کے سعی کامیاب پر،دیش واسیوں کی بزدلانہ خموشی پر کچھ کہنے کو دل کرتا ہے

صبح ہی سے ماحول خنک آلود آبر زد اور آثار بارش لئے ہوئے ہے کہ اچانک سورچ اپنی تابناکیوں والے جوبن سے انسانیت کو جھلسا شرابور کرنے لگتا ہے۔عوام جو بارش کی بوچھاڑ سے بچنے، چھاتے لئے گھر سے نکلے تھے، سورج کی تپش جلن بچاؤ کے لئے چھاتوں کا سہارا لینے پر مجبور ہیں۔ہزآروں سالہ گنگا جمنی مختلف المذہبی تہذیب والے ملک میں، گنتی کے چند نفرتی سوداگر ، اتنے بڑے وشال دیش کو یرغمال بنائے، قانون وعدلیہ،آزاد انتخابی سہولیات یا چناوی ویستھا تک کو بے اثر بنائے،

جس کی لاٹھی اسی کی بھینس ثابت کرنے پر تلے،اپنے جوبن پر ناز کرتے دکھائی دینے لگے ہیں، ڈیڑھ سو سالہ فرنگی غلامی سے وشال بھارت کو آزاد کرانے جہاں نمک ستیہ گرہ ، عدم تعاون تحریک کارگر ہوئی ہو، اسی دیش کی 138 کروڑ عام جنتا نہرو کے پوتوں، اندرا کی شبیہ والیوں اور امبیڈکر کے متوالوں کے بیچ چند نفرتی بلڈوزر ٹائب یوگیوں کے ہاتھوں نپونسک بننے پر مجبور کئے جارہے ہوں، اس دیش میں یقینا مودی کے ہوتے سب کچھ ممکن ہے یہ ثابت ہوجاتا ہے

اپنے 27 فیصد جی ڈی پی کے ساتھ وقت کی سب سے کامیاب، معشیت و اپنے حدود واربعہ سے وشال ملک چمنستان بھارت پر،اپنے مکر و فن و ہم ھندو مسلمانوں کو آپس میں لڑاتے ہوئے، ہم پر ڈیڑھ سو سال حکومت کرتےوالے فرنگی ابگریزوں کے پھینکے ٹکڑوں پر پلنے والے، آزادی ھند کے ھیروز کی انگرئزوں کو مخبری کرتے، انہیں پھانسی پر چڑھانے والے، کل آزادی قبل کے ھندو مہاسبھائی تو آج کے،

بی جے پی کا نقاب اوڑھے اس وشال دیش پر حکومت کرنے لائق بننے والے، دیش کے پرم پوجیہ مہاتما گاندھی کے سفاک قاتل ، 2025 اپنے آرایس ایس بنیاد کے سو سال پورے ہوتے پس منظر میں، اپنی تمام تر ناعاقبت اندیش معشیتی و خارجہ پالیسیز سے 2014 سے پہلے کی تیز تر ترقی پزیر بھارت کو اپنے 7 سالہ سنگھی راج میں ہوری طرح تباہ و برباد کر رکھ دینے والوں کو، برداشت کرنے پر مجبور، ہم 138 کروڑ عالم کی سب سے بڑی جمہوریت اور اسکے انتخابی نظام پر ترس آتا ہے

کل تک انتخابی نتائج ابتدائی رپورٹ سے پریشان حال ان کے بدحواس چہروں پر اڑتی ہوائیاں، آج انہیں جیت سے سرشار ناچتے گاتے دیکھنے والےہم تماشائیوں پر، ہمیں ترس آتا ہے۔ ان کے ای وی ایم جن کی مہا شکتی سالی طاقت و قوت پر ہمیں انگشت بدنداں رہنے مجبور ہونا پڑتا ہے۔زمینی حقائق ، کسان سمیت ہر طبقہ کے لوگوں کے غم و غصہ باوجود، بعد انتخاب عوامی اظہار رائے، ان کے پاؤں تلے سے زمین سرکتے پس منظر میں بھی، یوں اچانک اتنی بڑی کامیابی سے انکا اقتدار سے چمٹے رہنے کی تڑپ، ہر کسی کو مستعجب کئے ہوئے ہے۔

انتخابی نتائج جو کچھ بھی ہوں، بھارت کے سب سے بڑے صوبے یوپی کے عوام نے بساط بھر ان بلڈوزر نما لٹیروں کو اقتدار سے باہر رکھنے، اپنے طور بھرپور کوشش کی تھی، لیکن غیر مرئی ای وی ایم جن کی مہاشکتی سالی کے آگے، بے بس یوپی کے عوام اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟ اس اندھیر نگری چوپٹ راج ای وی ایم جن اندھ کال، انکی مشاء خلاف، ان سنگھیوں کو دلوائی شاندار جیت کے خلاف سڑکوں پر نکل کر، یوگی راج کے بلڈؤزر کے نیچے دبائیے جانے کی ہمت و سکت، کورونا مہاماری

و مودی بھگتی مہنگائی کی ماری یوپی کی جنتا میں سہن شکتی باقی نا رہی ہے۔ اور جب اس دیش کا سول سوسائیٹی اعلی تعلیم یافتہ طبقہ ہی، ان نفرتی بلذوزر ٹائب یوگیوں اور تفکر ازدواجی زندگی کی مار سے ماورا، رنڈؤں والی عیاش زندگی گزارنے والوں کے سامنے بے بس ، صرف اپنے لئے اور اپنی آل اولاد کے لئے ہی جینے کا تہیہ کئے بے فکر رہ رہا ہو تو اس دیش کی اکثریت مہنگائی کی ماری مفلس عوام کر بھی کیا سکتی ہے؟

ہمیں شکوہ ہے تو اترپردیش میں بس رہے بیس فیصد ہم مسلمانوں سے ہے جو کہنے کو تو اپنے مالک دوجہاں پر، اسکے رزاق و محافظ ہونے پر، یقین کامل و ایمان رکھنے والی مسلم قوم پر افسوس ہوتا ہے بلکہ دارالعلوم دیوبند و دار العلوم ندوة العلماء لکھنؤ و دارالعلوم سہارنپور کے ہزاروں فارغین و مبلغین علماء کرام کے توکل علی اللہ فقدان پر ترس آتا ہے جو انہیں اپنے بازوئے دم کے بجائے

یا اپنے اللہ پر توکل و بھروسہ کے بجائے، خود ساختہ سیکیولر مگر اندر سے برہموادی نظریات والے ٹھاکر نواز مسلم دشمن طاقتوں کے پشت پناہ ، اکلیش یادو پر بھروسہ زیادہ لگتا ہے خصوصا تیس چالیس اسمبلی حلقوں میں چالیس فیصد تک اکثریت باوجود، اپنے درمیان والے سابقہ بیس سالوں سے ہمہ وقت دشمن اسلام سے گھرے پارلیمنٹ میں، مسلم مفاد کے، ببانگ درا فلک شگاف نعرے بلند کرنے والے،

پابند صوم صلاة باشرح تہجد گزار عملی سیاستدان اسد الدین اویسی پر، توکل کرتے کم از آن چالیس سیٹوں پر انہیں جتانے میں ناکام اور اسدالدین اویسی کے مقابلے ٹھاکر واد والے مسلم دشمن اکلیش پر اپنے اللہ سے زیادہ بھروسہ کرنے والی، قوم مسلم پر کف افسوس ملنے کو دل کرتا یے۔مانا کہ مقدر کو ٹالا نہیں جاسکتا ہے لیکن اکلیش یادو راج چھتر چھاپہ میں 2013 ہوئے مظفر نگر فساد والا واقعہ اللہ نہ

کرے 2025 سو سالہ ارایس ایس تاسیس سال کے موقع پر دہرایا گرجاتا ہے تو پارلیمنٹ و مہاراشٹرا اسمبلی میں مسلم مفاد کے لئے گرجتی اے آئ ایم آئی شیروں والی صدا سے تو یوپی اسمبلی محروم رہے گی نا! اوراسکے لئے یوپی کی عام مسلم جنتا سے زیادہ، انہیں ان بلڈوزر نما نفرتی طاقتوں سے ڈرانے والے، مسلم لیڈران و یوپی کے ان جامعات کے ہزاروں ولی صفت علماء کرام ہی ذمہ دار رہینگے۔
چڑھتے سورج کی پجاری یہ قوم اپنی حماقتی ہار پر بھی احساس ندامت سے ماورا، اپنی ہار کو بھی اسد الدین اویسی کے سر منڈھتے ہوئے ، اپنی بےکسی کو جلا بخشا جینے کے عادی ہیں کاش کے صوبے کے نتائج کچھ بھی آتے، یوپی کے ہم مسلمان اپنے 40 فیصد ووٹ والی سیٹوں پر نام نہاد سپھا بھاسپا کانگرئس کے مسلم ووٹرں میں بٹتے ہوئے خود کو بے وقعت کرنے کے بجائے ، تیس چالیس اللہ کے شیروں کو جیت دلوائے ہوتے تو سنگھی آمریتی اکثریتی حکومت میں تو اپنے وجود کو درشا رہے ہوتے۔
اتنے وشال بھارت کے 148 کروڑ دیش واسیوں میں ہزاروں سالہ مختلف المذھبی سیکولر اثاث گنگا جمنی تہذیب اور آزاد بھارت کے سیکیولر دستور العمل کو ان سنگھی نازی نفرتی بلڈوزر غائب درندوں سے آمان دلانے، کیا ہم دیش واسیوں کو، سواسو سالہ کانگرئس کو یا لاکھوں اعلی تعلیم یافتہ سول سوسائیٹی تنظیموں کو ایک اور آزادی ھند کی لڑائی لڑتے نہیں پائیں گے
وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں