161

اسلامی تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر

اسلامی تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر

تحریر.فخرالزمان سرحدی
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے….پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے.اسلامی نظریہ پر قائم ہونے والے ملک میں اسلامی نظام حیات کے نفاذ کی ضرورت ہے.تاکہ اسلامی تہذیب و ثقافت کو فروغ پانے اور ترقی کرنے کا موقع ملے.اسلامی سوچ اور فکر کے مطابق اسے اسلامی تہذیب و ثقافت کا مظہر ہونا چاہیے.اس کے دریچوں میں جہانک کر دیکھیں تو بعثت نبویﷺکا مقصد سامنے آتا ہے.تاریخ شاہد ہے

کہ بعثت محمدیﷺ سے قبل دنیا کی حالت تہذیب و ثقافت کے لحاظ سے انسانیت تباہی و بربادی کی راہ پر چل رہی تھی.ستاروں اور بتوں کی پرستش کی جاتی تھی.مخلوق اپنے حقیقی خالق کو بھول کر خود ساختہ طریقوں کے مطابق زندگی بسر کرتی تھی.فسادات عام ہونے سے زندگی مسائل کا شکار تھی.امن ایک خواب تھا.آپ ﷺنے نہ صرف مذہبی لحاظ سے بلکہ تعلیمی,سیاسی,سماجی اور تہذیب و ثقافت کے

لحاظ سے بھی اہم تبدیلیاں رونما فرمائیں.ان کی روشنی میں اسلامی تہذیب و ثقافت کے چشمے پھوٹے جن سے انسانیت آج بھی سیراب ہوتی ہے.اسلام تو ایک عالمگیر نظام حیات کا تصور پیش کرتا ہے.اس نے عورت کو بہت احترام کے حوالے سے تعلیمات پیش کی ہیں جن کے مطالعہ سے راہ مستقیم کی رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے.عصر حاضر میں کچھ تنظیمیں اور دیگر ذرائع عورت کے حوالے سے سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں.

علامہ اقبال نے اپنے کلام میں بیش قیمت باتیں شاعری کے روپ میں پیش کیں ان میں تہذیب مغرب کا ذکر بھی موجود ہے…تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی.شاخ نازک پہ جو آشیانہ بنے گا وہ ناپائیدار ہو گا.اس ضمن میں یہ بات برملا کہی جا سکتی ہے کہ اسلام ہی نے نہ صرف عورت کا مقام بلکہ اس کے حقوق اور عزت و احترام کے حوالے سے جامع نظام پیش کیا ہے.اس کے نفاذ سے ہی مثبت اثرات سامنے آسکتے ہیں بلکہ اسلامی تہذیب و ثقافت فروغ بھی پا سکتی ہے

.تاریخ کی ورق گردانی کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ہی کا فیضان اکمل کہ جہالت گمراہی میں گھری وئی انسانیت کو اوج کمال ملا.اصلاح معاشرہ کے ضمن میں یہ ضروری ہے کہ انسانیت کو احترام دیا جائے.پاکستان چونکہ ایک اسلامی نظریہ کے مطابق معرض وجود میں آیا.اس میں بامقصد زندگی بسر کرنے کی ضرورت ہے.بقول شاعر:-عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی,جہنم بھی…یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے

نہ ناری ہے…اسلام نے ایک فلاحی معاشرے کا تصور دے کر انسان کی کامیابی اور فلاح کا تصور دیا ہے.اس ضمن میں جس بات کا ذکر ضروری ہے وہ یہی ہے کہ پردہ اور حجاب عورت کا زیور ہے.آج مغربی ہوائیں شدت سے اسلامی تہذیب پر حملہ آور ہیں….قرآن مجید میں انسان کی ہدایت و رہمنائی کا جامع سلسلہ ہے.ان سے بھر پور فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے.ایک اسلامی ملک میں غیر اسلامی تہذیب و ثقافت کے حوالے سے سرگرمیاں لمحہ فکریہ ہیں..بقول شاعر:-نہ سمجھو گے تو مٹ جاو گے

تمھاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں….مسلماں کو عمل کی ضروت ہے.اس سے کامیابی مل پاتی ہے.اسلامی تعلیمات سے بھر پور استفادہ کیا جانا چاہیے تاکہ تہذیب و ثقافت میں بہتری پیدا ہو.یہ بات ہم بخوبی جانتے ہیں کہ تہذیب سے مراد حیات انسانی کا ایک ایسا تصور ہے جس میں انفرادیت کی بجائے اجتماعیت کی بات کی جاتی ہے.طرز تکلم,رہہن و سہن,مذہبی امور,لسانی اور اخلاقی امور اور دیگر شامل ہیں.

سماج چونکہ ایک جامع سلسلہ ہے اس کی طرح تہذیب و ثقافت کے خدوخال بھی ہیں.یہ بات کھلی حقیقت ہے کہ تہذیب معاشرے کی طرز زندگی اور طرز فکرو احساس کا جوہر ہوتی ہے.اکیسویں صدی میں جہاں بے شمار چیلنج درپیش ہیں وہیں تہذیب و ثقافت کے حوالے سے بھی مشکل حالات کا سامنا ہے.سوشل میڈیا پر اسلامی تہذیب و ثقافت کو اجاگر کیا جا سکتا ہے.عصر حاضر کے تقاضے بھی یہی ہیں کہ قومی اور ملی سطح پر جدید تصورات سے آگاہی سے افراد کو روشناس کیا جائے.افراد میں اچھی عادات پیدا کی جائیں.

یہ بات تو واضح ہے کہ کسی قوم کی بقاء اور عظمت کا راز اس کے تہذیبی اور تمدنی رویے اور ثقافت میں پوشیدہ ہے.سماجی رشتوں اور تعلق میں وسعت ہونے سے بہتری پیدا ہوتی ہے.اسلامی روایات اور اسلامی شعار سے با مقصد تہذیبی رویے جنم لیتے ہیں.اگر کامیابی سے سفر طے کرنا ہے تو تعلیم و تربیت کے فروغ سے ممکن ہو پاتا ہے.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں