سیاسی تصادم میں آمریت کی آہٹ ! 42

تنازع کے بجائے امن کی شراکت داری !

تنازع کے بجائے امن کی شراکت داری !

تحریر :شاہد ندیم احمد

یوم پا کستان پوری قوم نے بڑے جوش و خروش سے منایا ہے ،ہمارے بزرگوں نے بیاسی سال قبل درست فیصلہ کیا تھا کہ ہندوستان میں ہندئوں کے ساتھ دوسرے درجے کی قوم بننے سے بہتر ہے کہ اپنے لیے ایک الگ وطن حاصل کیا جائے ،ہم اپنے آبائو اجداد کی قر بانیوں سے ایک الگ آزاد وطن حاصل کرنے میں کامیاب تو ہو گئے

،لیکن اقوام عالم کے شانہ بشانہ آگے بڑھنے میں اپنی رفتار برقرار نہیں رکھ سکے ہیں،پا کستانی قوم میںبے انتہا صلاحیتیںموجود ہیں ،ہمارے پاس انسانی اور مادی وسائل کی کمی بھی نہیں ہے ،اگر ایک بار اتفاق رائے سے تنازع کے بجائے امن کی شراکت داری کا تہیہ کرلیا جائے تو ہمارے قدم ترقی وخوشحالی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہو سکتے ہیں ۔
اس بار یوم پا کستان پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں او آئی سی کی وزرائے خارجہ کونسل کی اڑتالیسویں کانفرنس بھی ہورہی ہے ،اس کا نفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خانے دنیا کے ڈیڑھ عرب سے زائد مسلم آبادی کو کسی بلاک کا حصہ بننے اور رتنازعات میں الجھنے کے بجائے امن کیلئے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے ،اُن کا کہنا تھا

کہ ہم تنازع کے نہیں، امن کے شراکت دار ہیں،وزیراعظم نے اس امر سے اتفاق کیا کہ او آئی سی ممالک کی الگ الگ خارجہ پالیسی ہے، اس لیے سب ممالک کو کسی ایک پالیسی پر اکٹھے نہیں کیا جا سکتا، لیکن مسلم امہ کو تنازعات سے بچانے اور ترقی کے لیے جن نکات پر اشتراک ہو سکتا ہے، اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔
اس میں شک نہیں کہ مسلم ممالک ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی اور کثیر و سائل کے باوجود عالمی سیاست میں اپنا اثر ورسوخ اور دم خم ثابت کرنے میں ناکامی کا سامنا کررہے ہیں ،اس کی بنیادی وجہ باہمی اختلاف کے ساتھ عالمی بلاک کی حددرجہ خشنودی رہی ہے ،مسلم ممالک توانائی کی دولت سے مالا مال ہیں

،مگر اس ثروت سے جتنا فائدہ اُٹھانا چاہئے ،نہیں اُٹھا پارہے ہیں ،اس صورتحال کا بتدریج مسلم ممالک کو ادراک ہونے لگا ہے ،عالمی سطح پر تبدیل شدہ حالات نے بھی مسلم ممالک کیلئے روایت سے ہٹ کر سوچنے کی حوصلہ افزائی کی ہے ،اس وقت بدلتے حالات میں ایسا ممکن دکھائی دے رہا ہے کہ مسلم دنیا کی عالمی تعلقات کی پا لیسی میں تبدیلی آئے گی ۔مسلم دنیا میں ترقی و خوشحالی کی سپرٹ غیر معمولی ہے ،مگر اسے بروئے کار لانے کیلئے مشترکہ حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے

،مسلم ممالک میں بعض کے پاس دولت و توانائی کے وسائل اور بعض کے پاس زمین و افراد قوت ہے،اگر دولت و توانائی کے وسائل کا رخ ان ممالک کی طرف موڑ دیا جائے جہاں افرادی قوت ہے تو ترقی و خوشحالی کی مثالی راہیں کھل سکتی ہیں ،تاہم ترقی وخوشحالی کو مشترکہ مقصد بنا کر چلنے سے پہلے مسلم دنیا کو باہمی کشیدگی اور بے یقینی سے باہر نکلنا ہو گا،مسلم دنیا باہمی اختلافات رائے کے ساتھ کبھی مشترکہ حکمت عملی کے مثبت نتائج حاصل نہیں کرسکے گی۔اس وقت او آئی سی دنیا بھر کے دو ارب مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہے،

مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ زیادہ تر اسلامی ممالک اس تنظیم کے پرچم تلے متحد ہو کر چلنے کی بجائے اپنے مفادات یا بڑی طاقتوں کی حاشیہ برداری کے باعث ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں،اگر اسلام آباد کا اجلاس ان میں یکجہتی پیدا کر سکے تو یہ مسلمانانِ عالم کی بہت بڑی کامیابی ہو گی،

اس معاملے میں پا کستان اپنا رہبرانہ کردار ادا کرنے کے ساتھ آگہی دیے رہا ہے کہ مسلم ریاستوں کو امریکہ اور مغرب کی اتحادی بننے کا کچھ فائدہ نہیں ہواہے، امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ان ممالک کے لیے پہلے خود ہی خطرات پیدا کئے اور پھر ان خطرات سے بچانے کے نام پر اربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا جارہا ہے۔
یہ باتیں اب مسلم دنیا سے ڈھکی چھی نہیں رہی ہیں ،مسلم دنیا بھی جانتی ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ دنیا بدل رہی ہے، پاکستان‘ چین اور روس نے جس طرح مل کر افغان تنازع حل کیا ہے، اگر مسلم ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ باہمی کشیدگی کا خاتمہ کرتے ہوئے کاروبار کو ترجیح دیں، توانائی کے وسائل فراہم کریں‘ سائنس‘ ٹیکنالوجی اور سماجی ترقی کے منصوبوں میں ایک دوسرے سے تعاون کریں

تو مستقبل کی صف بندی میں ان کی حیثیت و مقام بہت بلند ہوسکتا ہے،مسلم ممالک کی اشرافیہ کی مفاداتی تقسیم نے کبھی او آئی سی کو بھی ایک فعال اور بااثر عالمی اتحاد بننے نہیں دیا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا میں تیزی سے بدلتے رحجانات کے مدنظر اسے تنازع کے بجائے امن کی شراکت داری سے ایک موثر و مضبوط پلیٹ فارم بنایا جائے، پا کستان کی اوآئی سی کی سال بھر سربراہی حاصل کرنے کے بعد پوری کوشش ہو گی کہ تنازع کی بجائے امن کی شراکت داری پرمسلم ممالک میں یکجہتی پیدا کر سکے،اگر پا کستان کا میاب ہو گیا تو یہ مسلمانانِ عالم کی بہت بڑی کامیابی ہو گی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں