44

مادر جمہوریت بیگم نصرت بھٹو

مادر جمہوریت بیگم نصرت بھٹو

تحریر: سید کرار حیدر شاہ
0300-6894511
آج پاکستان کے سابق وزیراعظم پاکستان شہید ذوالفقار علی بھٹو کی زوجہ، شہید بےنظیر بھٹو کی والدہ،سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کی ساس اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی نانی محترمہ کا یومِ پیدائش ھے۔بیگم نصرت بھٹو نے ساری زندگی اپنے خاوند کے ساتھ جمہوریت کی بقا اور آمریت کے خاتمہ کے لیے جدوجہد کی۔وہ پاکستان کے خواتین کے لیے ایک عظیم عورت ھیں

جس نے اپنے ملک کی غریب عوام کے لیے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔‏وطن عزیز میں جمہور کا علم بلند کرنے کیلئے اپنے خاندان کی قربانیاں اور آمروں کے خلاف جدوجہد میں سیاسی کارکنوں کا سیسہ پلائی دیوارکی طرح دفاع کرنے والی عظیم ماں، مادرِ جمہوریت بیگم نصرت بھٹو کے 93 وے یوم پیدائش پر، ہم انہیں

خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔قوم کے بنیادی سیاسی حقوق کی خاطر اپنے ذاتی المناک صدمات کو بُھلا کر غیرمتزلزل عزم و استقلال کے ساتھ جدوجہد کرنے کا نام بیگم نصرت بھٹو ہے۔ ہمیں آٸین شکن مجرموں کے خلاف مزاحمت کرنا اور انہیں شکست سے ہمکنار کرنا سکھایا۔ھم اگر انکی زندگی پر نظر دھرائیں تو بیگم نصرت بھٹو انتہائی بہادر اور باوقار شخصیت کی مالک خاتون تھیں۔ یہ منفرد اعزاز بھی انہیں قدرت نے دیا ہے

کہ ایک طرف وہ ایک وزیراعظم کی بہو، پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم کی اہلیہ اور اسلامی دنیا کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم کی والدہ ہیں، تو دوسری جانب وہ لاکھوں جیالوں اور کروڑوں محب وطنوں کے لیئے ‘مادرِ جمہوریت’ ہیں۔بیگم نصرت بھٹو کی جدوجہد و قربانیاں بے مثال اور اس کے ردعمل میں عوام کی ان سے محبت بھی لازوال ہے۔


پاکستان پیپلز پارٹی اپنی پہلی خاتون چیئرپرسن، بیگم نصرت بھٹو، کی پیروی کرتے ہوئے، تمام تر مشکلات کے باوجود ملکی آئین کے تحفظ اور جمہوریت کو مضبوط بنانے کی جدوجہد کو جاری رکھے گی

۔میرے بڑے بھائی پاکستان پیپلز پارٹیکے سابق طالب علم رھنما سید اعجاز حیدر متعدد بار 70- کفٹن کراچی بیگم نصرت بھٹو سے ملاقات کے لیے جاتے تھے ھیں وہ ھمیشہ ان سے ایسے ملتی جیسے کوئی ماں اپنے بچے سے ملتی ھے واقعی وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنان کی ماں تھیں ۔
قائد عوام جناب ذوالفقار علی بھٹو شہید کی گرفتاری کے بعد پارٹی پہ اسٹیبلشمنٹ سے ساز باز کر کے چند نام نہاد لیڈروں نے قبضہ کرنے کی کوشش کی

۔ لیکن بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید صاحب نے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں ایک مجاھد کی طرح اپنے موقف پہ ڈٹ گئے اور بیگم نصرت بھٹو کو قائم مقام چیئرمین ڈکلیئر کروایا ۔ اس اجلاس میں بیگم نصرت بھٹو کی مخالفت کرنے والے مولانا کوثر نیازی اور ممتاز بھٹو تھے ۔ مولانا کوثر نیازی ۔ ممتاز بھٹو ۔

ملک مصطفی کھر نے جنرل فیض علی چشتی سے ملاقات کرکے ساز باز کی تھی ۔ لیکن شیخ محمد رشید نے ان کی سازش ناکام کردی تھی ۔بیگم نصرت بھٹو بہت شائستہ شفیق صبر و تحمل کی اعلی مثال تھیں ۔ ان جدوجہد کی بدولت پیپلز پارٹی قائم و دائم ھے ۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد بیگم نصرت بھٹو صاحبہ کو پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکیٹو کے اجلاس میں چیئرمین نامزد کیا گیا ۔
بیگم صاحبہ نے جمہوریت کی بحالی اور ملعون ڈکٹیٹر ضیاء کے خلاف سیاسی قوتوں کو مورخہ 8۔ فروری 1981 کو ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم پہ اکٹھا کیا ۔ ایک سال کی جدوجہد کے بعد بیگم نصرت بھٹو صاحبہ کو 1982 میں پھیپھڑوں کا کینسر تشخیص ھوا اور وہ بغرض علاج بیرون ملک چلی گئیں ۔
بیگم نصرت بھٹو صاحبہ نے لاڑکانہ سے الیکشن لڑ کر ایم این ائے بنیں اور 1988 میں پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت میں سنیئر وزیر کے فرائض ادا کئے ۔
1996 میں پولیس نے مرتضی بھٹو کو شہید کردیا تو مرتضی بھٹو کی شہادت کے غم نے ان الزائمر کے مرض میں مبتلا کردیا ۔ اس بیماری میں ان کی یاداشت مکمل طور پر ختم ھوگئی تھی ۔ محترمہ بےنظیر بھٹو کی شہادت کے بارے ان کو کچھ معلوم نہ تھا ۔محترمہ بیگم نصرت بھٹو ایک بہت ھی بہادر خاتون تھیں جنہوں نے اپنے شوھر اور دو جوان بیٹوں کا اسٹیبلشمنٹ کے ھاتھوں شہادت کا غم سہا ۔
وہی بیگم بهٹو خواتین و حضرات؛ جنہیں بعد از انتقال حکومت پاکستان کی جانب سے بجا طور پر “مادرِ جمہوریت” کے سرکاری خطاب کے ساتھ ساتھ اعلیٰ سول اعزاز “نشان امتیاز” سے بهی نوازا گیا۔۔

ضیاء کے ہاتھوں پوری قوم کے یرغمال بنائے جانے اور عظیم بھٹو کے جھوٹے کیس میں عدالتی قتل کے خلاف احتجاجی تحریک کے دوران قذافی سٹیڈیم لاہور میں سر پر پولیس کی لاٹھیوں سے لگنے والی گہری چوٹ اور پھر بیٹے، بیٹی کے درمیان صلح کراتے ہی میر مرتضیٰ کی اصطبلشمنت کے ہاتھوں شہادت کے صدمے نے بقول سابق صدرِ مملکت جنابِ آصف علی زرداری، بیگم صاحبہ کو “زندہ شہید” بنا دیا تھا۔

“مادرِ جمہوریت” کی طرف سے اپنے عظیم شوہر اور پھر دو پیارے کڑیل بیٹوں کی شہادت کے باوجود اپنی لائق فائق بیٹی کو عوام کی خدمت اور جمہوریت کی حفاظت پر مبنی سیاست جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی ان بد خصلت، بد زبانوں کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے، جن کا “گمان” ہے کہ بھٹو فیملی کی جانی قربانیاں اقتدار کی خاطر ہیں۔۔
آہ؛ دخترِ مشرق کی شہادت بھی ان غلیظ دلوں کو صاف نہ کرسکی ۔عظیم بهٹو کی عظیم زوجہ اور عظیم بےنظیر کی بےنظیر والدہ محترمہ نصرت بھٹو 23 اکتوبر 2012 کو اس اذیت ناک ذہنی کیفیت میں اس دار فانی سے رُخصت ہوئیں کہ عظیم صاحبزادی کی شہادت کی اندوہناک خبر تک ان سے چھپانا پڑی-

انہوں نے ساری زندگی دختر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا اور حضرت بی بی زینب سلام اللہ دختر امیر المؤمنین مولا علی علیہ السلام کے نقش قدم پر چلتے ھوئے ھر دور کے ظالم نظام اور ظالم حکمرانوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔سرخ سلام شہید بیگم نصرت بھٹو،رھتی دنیا تک ھم آپ کو نہیں بھولیں گے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں