ظریفانہ آئے ہنسا کر چلے
کالم:رنگِ نوا-نوید ملک
حکیم الامت، علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں
شاعر کی نَوا ہو کہ مُغَنّی کا نفَس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ بادِ سحَر کیا
موجودہ دور میں کئی حوالوں سے چمن افسردہ ہے مگر چمن میں رونق بکھیرنے والے بہت کم ہیں۔رونق کا تعلق ظاہر سے نہیں بلکہ باطن سے بھی ہے۔ہم اندرونی طور پر بہت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔سماجی، سیاسی، تعلیمی،، تہذیبی،مذہبی اور اقتصادی سطح پر ہماری گھڑیوں کی سوئیاں رکی ہوئی ہیں۔ ہماری نیندیں چل رہی ہیں مگر خواب انجماد کا شکار ہیں۔ایسی صورتِ حال میں کچھ قلم کار ایسے ہیں جو برف ہونٹوں میں ارتعاش پیدا کرتے ہیں، باطن کو گدگداتے ہوئے نہ صرف افسردگی ختم کرتے ہیں بلکہ سماج میں بکھرے منفی رجحانات کا تدارک کرنے کے لیے فنِ ظرافت کا سہارا لیتے ہیں۔
”ظریفانہ آئے ہنسا کر چلے”ظریفانہ شاعری پر مشتمل ” ڈاکٹر مظہر عباس رضوی کا تازہ شعری مجموعہ ہے۔آپ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر بھی ہیں اور ڈاکٹر کی نظر بیماریوں پر ہوتی ہے۔ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر ہونے کا یہ فائدہ ہے کہ معاشرے کا ایکسرے آسانی سے دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے اور معاشرے کے مختلف اعضاء کا معائنہ کر کے بیماریوں کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ دوا بھی فراہم کی جا سکتی ہے۔شاعری کے جدید رجحانات کو ملحوظِ خاطررکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے مقصدیت کو مزاح میں عمدگی سے پرونے کی کامیاب کوشش کی ہے۔یہ مجموعہ پڑھ کر آ پ کو اکبر الہ آبادی ضرور یاد آئیں گے جن نے طنز برائے طنز نہیں بلکہ ظنز برائے اصلاح پر توجہ دی۔جب ہم کسی تخلیق کار کے اشعار میں موجود کرداروں کا نفسیاتی جائزہ لیتے ہیں
تو بہت سے شعراء کی قلمی کاوشیں محدود دائروں میں گردش کرتی دکھائی دیتی ہیں جبکہ بہت سے شعراء وسیع تناظر میں مختلف موضوعات پر بات کرتے ہیں۔بغیر وژن کے دماغ بجھا ہوا چراغ ہوتا ہے۔ڈاکٹر صاحب کی شاعری میں مجھے ان کا وژن صاف صاف نظر آ رہا ہے اور آپ سب کو بھی نظر آئے گا۔آپ اُس دنیا کو دیکھنا چاہتے ہیں
جو سب سے بڑے تخلیق کار یعنی ربِ کائنات نے بنائی ہے۔جن لوگوں نے اِ س عظیم فن پارے یعنی ”کائنات” پر خراشیں ڈالیں ہیں ڈاکٹر صاحب مسکراہٹیں بکھیرتے ہوئے انھیں راہِ راست پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔عہدِ حاضر کے بڑے مسائل کی نشاندہی آپ نے اچھوتے انداز میں کی ہے۔تعلیم یافتہ طبقات کا بے روزگاری کی آگ میں جلنے کا کرب آپ کس طرح بیان کرتے ہیں، ذرا دیکھیے!
کاٹنے والے زیادہ، بانٹے والے تھے کم
ایک بکرا تھا قصائی،چار، عیدِ بقر پر
کوئی بھی شعبہ لیں، ایک پوسٹ پر بھرتی کا اشتہار جب اخبارات کی زینت بنتا ہے تو ہزاروں، لاکھوں نوجوان لڑکے، لڑکیوں کا سمندر امڈنے لگتا ہے۔ہم اپنی اقدار سے بہت دور ہو گئے ہیں، جس کا اظہار ہر اچھا تخلیق کار اپنے انداز میں کرتا ہے، ڈاکٹر صاحب کیا کہتے ہیں، ذرا دیکھیے!ملتے نہیں مزاج تو حیرت ہوکیوں بھلاانسان پوٹھوہار کے، پودے فرانس کےیہ دوسری تہذیب کے پودے ہی ہیں جن سے ملنے والی آکسیجن نے ہمارا سانس لینا دشوار کر دیا ہے۔مجھے اس مجموعے میں غیر ضروری مزاح کہیں بھی نظر نہیں
آیا اور نہ ہی ایسا محسوس ہوا کہ انھوں نے روز کچھ لکھنے کی قسم کھا کر الفاظ کی بوریاں قرطاس پر الٹنے کی کوشش کی ہے۔سنجیدہ شاعری ہو یا فکاہیہ شاعری، بعض شعراء عصری رجحانات کی تقلید کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں جو عوام چاہتی ہے ویسا لکھیں جب کہ بعض شعرائتخلیقی تجربات سے
قارئین میں پڑھنے کا ذوق پیدا کر کے اپنے نظریات کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب قارئین کی خواہشات کی تقلید کرنے کی بجائے اپنے خیالات خوبصورت پیرائے میں دوسروں تک پہنچاتے ہیں، اسی لیے ان کا فکری مکتب منہدم ہونے سے بچ جائے گا۔نصاب کے ذریعے اہداف حاصل کیے جاتے ہیں، ہر گروہ کے مخصوص اہداف ہیں۔نصاب کیوں اور کس لیے تبدیل ہوتا ہے، عام آدمی نہیں جانتا البتہ اتنا ضرور جانتا ہے
کہ نصاب میں تبدیلی کی رفتار، ہرن کی رفتار کے برابر ہو گئی ہے۔اسی نصابی تبدیلی کو ڈاکٹر صاحب کیسے بیان کرتے ہیں، ذرا دیکھیے:کباب، قورمہ، بریانی، سیخ اور تکےہمارے کھانے کا بدلا نصاب عید کے دن دورِ جدید میں زندگی کا فارمیٹ بالکل بدل گیا ہے۔ سماجی و تہذیبی تغیر پذیری کے اثرات ہر طبقے میں نظر آتے ہیں۔اس کا اظہار آپ کچھ اس طرح سے کرتے ہیں:
ایک چرواہے سے پوچھا آج کل کرتے ہو کیا
ہنس کے بولا بیچتا ہوں، گھاس انٹرنیٹ پر
ان کی پابند نظم ”پانچواں فرشتہ” ضرورپڑھیے گا اور اس فرشتے نے ہماری زندگی میں کیا کیا تبدیلیاں لائی ہیں، غور و فکر ضرورکیجیے گا۔اس مجموعے میں زندگی کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جس پر قلم نہ اٹھایا گیا ہو۔ آپ نہ صرف ظریفانہ آئے اور سب کو ہنسایا بلکہ بہت کچھ بتا یا اور دکھایا بھی ہے۔یہ مجموعہ ہر سطح پر اہم ثابت ہو گا۔میں اس کی اشاعت پر ڈاکٹر صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔