ایک آزادخارجہ پا لیسی کی قیمت !
ملکی سیاست تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد سے مسلسل ہیجان اور بحران کا شکار ہے، تحریک عدم اعتماد ایک جمہوری سیاسی عمل ہے،لیکن غیر اصولی سیاست اور منتخب ہونے کی طاقت رکھنے والوں کی ہوسِ اقتدارکے باعث پارلیمانی سیاست تماشا بن گئی ہے، سیاسی مذاکرات اور اپنے موقف کے
حق میں استدلال پیش کرنے کے بجائے ضمیروں کی خریدوفروخت، نے قومی زندگی کو انتہائی گدلا کردیا ہے، آئندہ چند دنوں میں پارلیمانی رائے شماری کے بعدہار جیت کا فیصلہ ہو ہی جائے گا،تاہم یہ بات واضح ہے کہ دونوں ہی صورت میں سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہوگا جوملک کے داخلی و خارجی حالات کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
اس میں شک نہیں کہ پارلیمانی جمہوریت میں سیاسی جنگ ایوانوں میں لڑی جاتی ہے،مگر حکومت اور اپوزیشن اپنی سیاسی جنگ ایوان کے اندر سے زیادہ باہر لڑنے کو ترجیح دیے رہے ہیں،گزشتہ دنوں حکومت اور حزب اختلاف کی جانب سے عوامی جلسوںکے فیصلے نے تصادم کے خدشات بڑھادیے تھے،
لیکن سیاست کے تمام فریقوں نے تدبرکا مظاہرہ کرتے ہوئے تصادم کی نوبت نہیں آنے دی،یہ ایک اچھی پیش رفت تھی ،مگراس سے سیاسی درجہ حرارت میں کوئی خاص کمی نہیں آئی ہے ،اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس نبر سے زیادہ تعداد ہے ،وزیر اعظم اپنی اکثریت کھو چکے ہیں ،جبکہ وزیر اعظم کا کہنا ہے
کہ ان کی حکومت گرانے کے لیے عالمی طاقتوں کی جانب سے سازشیں کی جارہی ہیں،اس سازش کا تحریری ثبوت وزیر اعظم کے پاس موجود ہے۔وزیراعظم کی جانب سے مراسلے کے انکشاف پر انکے مخالفین کی جانب سے سیاسی شعبدہ بازی سے تعبیر کرتے ہوئے خط کو منظر عام پر لانے کا تقاضا شدت اختیار کر گیاہے،بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے تقاضا بھی سامنے آیاہے کہ یہ مراسلہ قومی سلامتی کمیٹی کے
روبرو پیش کیا جانا چاہیے کہ جس میں بھرپور سول اور عسکری نمائندگی موجود ہے ،اس ادارے پرملکی سلامتی و خودمختاری کے تحفظ و پاسداری کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے، حکومت نے جب محسوس کیا کہ اس تقاضے نے شدت اختیار کرلی ہے تو اگلے ہی روز وفاقی کابینہ میں مراسلہ دکھانے کے ساتھ ایوان کے مشترکہ
ان کیمرہ اجلاس میں اسے لانے کا عندیہ دیے دیا گیا ہے۔حکومت کی جانب سے مراسلے کے پیش کردہ مندرجات کو سامنے رکھا جائے تو یہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا ہرگز معاملہ نہیں لگتا ہے ، پاکستان کی داخلی سیاست میں بیرونی مداخلت کوئی نئی بات نہیں ہے، پاکستان کی سیاست میں امریکی اور عالمی طاقتوں کی مداخلت اور ڈکٹیشن سے تمام سیاسی رہنماء بخوبی واقف ہیں، وہ اس مسئلے کو صرف اپنے
مخالفین پر الزام تراشی کے لیے ہی استعمال نہیںکرتے ،بلکہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں ایوان اقتدار سے کیسے نکالا جاتا رہا ہے ، جنرل پرویز مشرف کے دور میں تو امریکی عہدیداروں کی مداخلت کسی سے پو شیدہ نہیں ہے ، اس دور میں بدنام زمانہ( این ار او ) سیاسی مداخلت کی سب سے بڑی شہادت ہے۔
اگر اس وقت وزیراعظم عمران خان دعویٰ کرر ہے ہیںکہ ان کے پاس بیرونی مداخلت کی سازشوں کی دستاویز موجود ہے تو اسے محض الزام تراشی کے سیاسی مناظرے کا حصہ نہیں بنانا چاہیے، یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، اس مسئلے کو سنجیدگی سے ہی لینا چاہئے ، ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے تقاقوں کے تحت معاملہ کی
تہہ تک جانا چاہیے اور بیرونِ ملک سے ہونیوالی سازش میں کسی شخصیت یا افراد کا ملوث ہونا ثابت ہو جائے تو انہیں بہر صورت کیفرکردار کو پہنچانا چاہیے۔ اس کیلئے حکومت ہی کی جانب سے عملی اقدام اٹھائے جانے ضروری ہیں ،اس حوالے سے بہتر یہی ہے کہ یہ مراسلہ پارلیمنٹ اور اعلیٰ سطح کی قومی
سلامتی کمیٹی کے روبرو پیش کرکے مندرجات اور اس سے متعلق تمام پہلوئوں کا ٹھوس بنیادوں پر جائزہ لے کر ایک مشترکہ قومی پالیسی طے کی جائے، لیکن ہمارے منتخب ایوانوں کی کارکردگی اور طرز عمل پر سوالیہ نشان ہیں، اصل ذمے داری پارلیمان ہی کی ہے ،کیونکہ اسے حتمی بالادستی حاصل ہے، اگر ہمارے منتخب قائدین ہی اقتدار اعلیٰ کو قائم رکھنے کا فریضہ ادا نہیں کریں گے تو ملک کی آزادی اور سلامتی کو یقینی نہیں بنایا جاسکے گا، یہ مسئلہ حکومت اور حزب اختلاف کا نہیں، بلکہ قومی آزادی کا ہے۔
بلاشبہ پا کستانی عوام ایک آزاد خارجہ پا لیسی اختیار کرنیکی خواہش رکھتے ہیں ،مگرہماری معیشت عرصہ دراز سے شدید دبائو کا شکار ہے،ہمارا انحصار بیرونی قرضوں اور آئی ایم ایف پر ہی رہا ہے، اس سے فوری نجات کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آرہا ہے،ہمارے ہاں آزاد خارجہ پالیسی کے سیاسی نعرے تو بہت لگائے جاتے رہے ہیں ،مگر آزاد خارجہ پا لیسی اختیار کے معاملات پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا جاتا ہے،
ملک میںآزاد پالیسی محض اعلانات یا مذاکرات سے کبھی نہیں آئے گی ،اس کیلئے مْلک معاشی طور پرمستحکم کرنا ہو گا ،اس کے بغیر آزادپا لیسی کا نعرا لگانے والابھٹو پھا نسی چڑھا دیا گیا اور دوسرے آزاد پالیسی کے متوالے کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں،عوام ذولفقار علی بھٹو کو بچاپائی نہ عمران خان کو بچا پائے گی ، آزادی خارجہ پا لیسی کا نعرا بلند کرنے والے اپنے ہی آلہ کاروں کے ہاتھوں بے موت مارے جاتے رہیں گے اور عوام غلامی کی زنجیڑوں میں جکڑے اپنی آنکھوں کے سامنے سب کچھ ہوتا دیکھتے رہیں گے۔