44

یوں جبر بھی دیکھا ہے اس سلطانوں کا

یوں جبر بھی دیکھا ہے اس سلطانوں کا

یوں جبر بھی دیکھا ہے اس سلطانوں کا
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی ہے

نقاش نائطی

3، اپریل 2022 ملک کی تاریخ کا وہ فیصلہ کن دن ہوگا جو 22 کروڑ عوام کو یا تو جمہوریت کی بقاء کے بہانے، صدا دشمن اسلام مغرب کا غلام بنائے رکھے گا،یا حق خودارادیت کی اٹھی مدھم آواز کے چلتے، خالق کائینات پر ایمان کامل رکھے،پوری عزت و شان سے سر اٹھائے جینے کی راہ پر ملک کو گامزن رکھنے والے فیصلے ہونگے۔ فیصلے جو بھی ہوں وہ قوم و ملک کے لئے حفظ و آمان کہ نوید نؤ لے آئیں یہی دعا ہے

مل جل کر کھانے ہی کا مسئلہ نہیں ہے وہ تو پہلے بھی کھاتے تھے اب بھی خان کے حوارین بن کر کھارپے تھے۔ لیکن خود کے کھانے کے چکر میں دشمن اسلام یہود و نصاری کا غلام،اپنے ملک کو بننے دینا اور عالمی سطح کے اسلام دشمن فیصلے لینے میں، اسلامی ملک کے مشکوک کردار کو بننے دینا، یہی تو سب سے اہم مسئلہ ہوا کرتا ہے۔ ایک آزاد ملک کی اپنی آزاد خارجہ پالیسی یقینی بنانے، خان کی پالیسی ہی تو اسے دشمن اسلام کے نشانے پر لئے ہوئے ہے۔

دشمن اسلام عالمی یہود و نصاری سازش کندگان عالم کی پہلی اسلامی طرز حکومت طالبان افغانستان کو ختم کرنے یلغار جب کر رہے تھے تو، کیا اس وقت اپنے ہی بھائی پڑوسی ملک کو تباہ کرنے،ان کاشریک بننے سے انکار کی پوزیشن میں اس وقت کیا ملک تھا؟ یہ اور بات ہے کہ مجبوری میں لئے فیصلے کو بھی، انہی کے خاتمے کی شکل دینے، اس وقت کی عسکری قیادت نے خوب پینترے بدلے تھے

لیکن ان ظالموں کو سرے سے نا کرنے کی ہمت، اس وقت کیا وہ جٹا پائے تھے؟ جو آج خان کی قیادت نے کر دکھایا ہے۔ یہ ملک کو اب عطا،خود داری کی سزا، خان کے خلاف یہ ہرزہ سرائی تو نہیں ہے؟ ایسے وقت جب ملک وقوم کو انہیں حق خودارادیت عطا کرنے والے کے پیچھے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑا رہنا چاہئیے تھا، یہ باری باری ملکی ریسورسز کو لوٹنے والا، اسلام دشمنوں کے دفاع میں کھڑا کیا گیا

،چور اچکوں پر مشتمل،قوم کے لٹیروں کامتحدہ یہ محاذ، کیا یہ امت مسلمہ کی اولین ایٹمی قوت کو پھر ایک مرتبہ یہود و نصاری عالمی سازش کنندگان دشمن اسلام قوتوں کے سامنے، پابہ سلاسل باندھ کر رکھ دئیے جیسا عمل تو نہیں ہے؟ کیا ہم بھول گئے انہی جمہوریت کے علم بردار سیاست دانوں نے، کچھ ملین ڈالر کے عوض، ملک کے ایٹمی اثاثے تک دشمنان اسلام کی رسائی کو آسان بنانے کے ناعاقبت اندیش فیصلے نہیں کئے تھے؟ انہی کے دوبارہ اقتدار پر آنے کے بعد،کیا وہی گھناؤنا کھیل رہے جانے کی کوشش نہیں کی جاتی

اس کی کیا ضمانت تھی؟ سابقہ وزیر داخلہ کو ملک کے امریکی وینٹی پر ہونے اور امریکی اشاروں پر عمل پیرا رہنے کی صورت مستقبل میں امریکی قہر کا نشانہ بننے کے پست ہمت عوامی بیانات، قوم کے جیالوں نے نہیں سنے تھے؟ایسے میں ملک کی 22 کروڑ عوام، کیا خاموش تماشائی بنے،دیش کی بربادی کا تماشا دیکھتی رہے گی؟

یا انہیں آزادی ملک کےان پچھتر سالوں میں صدا مغرب کا غلام بنائے رکھنے والے جمہوری نظام ہی کو لپیٹ کر، ہم مسلمانون کی شان سمجھے جانے والے ہزار بارہسو سالہ تابناک خلافت راشدہ بنو امیہ فاطمیہ سے لیکر خلافت عثمانیہ تک کے، خلافتی ںظام سے ہم آہنگ، جمہوری صدارتی نظام ہی کو، اپنے ملک لاتےہوئے،عالم میں سرخرو ہونے کہ سعی کی جائے گی؟
عالم میں موجود دو سو سے زائد ملکوں کی ایک لمبی فہرست میں، ہمارے اسلاف نے،اس اسلامی ملک کا وجود، جس خاص مقصد سے کیا تھا، کیا اس پر عمل آوری کا وقت سامنے بالکل قریب بالکل آتے وقت، دشمن اسلام یہود و نصارہ سازش کنندگان کے اشاروں پر ناچنے ہوئے، اپنے عظیم مقصد سے ہمیں دور کرنے کی کوشش کرنے والے، ہمارے درمیان کے میر جعفر و میر صادق کو معاف کیا جائیگا؟

آپنی کسم و پرسی باوجود اور ان گدھ نما لٹیروں کے اسے مسلسل نوچ کھاتے، اسے کنگال کرتے تناظر میں بھی، ہمارے اسلاف و عسکری قیادت کی کوششوں سے، اپنے کمزور و ناتواں ملک کو، عسکری حربی ڈرون سازی کہ میزائل سازی کہ تباہ کن بمبار طیارہ سازی کے میدان میں, اسے جو یکتا و خود کفیل بنایاگیا ہے کیا اسے ایک مرتبہ پھر اپنے اسلام دشمن آقاؤں کے اشارہ پر تباہ برباد کرنے، انہی لٹیروں کے حوالے ملک کو کئے جاتے، 22 کروڑ عوام کیا صرف تماشائی بنے دیکھتے رہینگے؟

اب جب کہ کل اتوار تو قوم و ملک کا فیصلہ مغربی جمہوریتی اقدار کے تحت ہوگا وہ قوم و ملک کے لئے بہتر ہوگا کہ نہیں،یہ تو اللہ ہی بہتر جانتے ہیں، لیکن افسوس ہوتا ہے صد سالہ لوزین عقد پابہ سلاسل ملکہ ترکیہ کے اپنے رجب طیب اردغان کے ڈرون سازی میں یکتائیت حاصل کرتے پس منظر میں ، ترکیہ پاکستان کے اشتراکی فیصلوں سے عالم کی نئی سربراہ چائینا و روس کہ مدد سے عالم اسلام کے لئے

ایک نوید نؤ کی صورت سامنے آتے پس منظر میں، بانی نؤ خودارادیت والے آزاد خارجہ پالیسی والے ملک کے خلاف، دشمن اسلام قوتوں کے اشاروں پر ملکی سیاستدانوں کے، عمل جمہوریت کو، دشمن ملک کے زمرے میں لیا جانا بھی طہ ہوتا ہے یا نہیں یہ دیکھنا ہے؟ ملک و قوم کے وقار و ترقی کے لئے،کچھ بڑے فیصلے لینے پڑتے ہیں۔ اس میں ہمارا ملک کہاں تک کامیاب رہتا ہے یہ آنے والا وقت ہی بتائیگاونا علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں