63

سیاسی بحران کی سیاسی اصلاح !

سیاسی بحران کی سیاسی اصلاح !

وزیراعظم کیخلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد آئین کی دفعہ5 کی بنیاد پر مسترد کرنے کے فیصلہ سے ملک میں پیدا ہونیوالے آئینی وسیاسی بحران میں لمحہ بہ لمحہ شدت پیدا ہو رہی ہے،ملکی نظام کی بقاء و استحکام کی جانب خطرات امڈتے نظر آرہے ہیں، امور حکومت و مملکت ٹھپ پڑے ہیں،سٹاک مارکیٹ بدترین مندی کی زد میں ہے،

عوام کے اعصاب شل ہو رہے ہیں اور سب کی نگاہیں سپریم کورٹ پر مرتکز ہیں کہ جہاں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے خصوصی بنچ کے روبرو ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کیخلاف ازخود نوٹس کیس زیرسماعت ہے ، پوری قوم اور متعلقہ ادارے اسی کیس کے فیصلہ کے منتظر ہیں ۔
اس میں شک نہیں کہ اس وقت پورا نظام حکومت اور انتظامی مشینری معطل ہے ،کیونکہ اس کا عدالت عظمیٰ کے فیصلہ پر ہی دارومدار ہے کہ وفاقی حکومت اور قومی اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر کی رولنگ سے پہلے والی پوزیشن بحال ہو گی یا ڈپٹی سپیکر کی متذکرہ رولنگ کی بنیاد پر وزیراعظم کا قومی اسمبلی توڑنے

اور نئے انتخابات کی جانب جانے کا فیصلہ ہی برقرار رہے گا، اس صورت میں صدر مملکت کو وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت کے ساتھ عبوری نگران وزیراعظم کا تقرر کرنا ہے کہ جو اپنی عبوری کابینہ تشکیل دینگے، جبکہ الیکشن کمیشن نے دو ماہ کے اندر اندر عام انتخابات کا انعقاد بھی کرنا ہے۔
متحدہ اپوزیشن عام انتخابات میں جانے کی بجائے تحریک عدم اعتماد کامیاب کروانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں ، جبکہ وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن لیڈران پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اپنے امپائر لا کر انتخابات کی طرف جانا چاہتے ہیں،وزیر اعظم کے بقول انہوں نے انتخابات کا اعلان کردیا ہے

تو اپوزیشن سپریم کورٹ میں کیا کررہی ہے ، پی ٹی آئی رہنمافود چوہدری بھی کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کر چکے ہیںکہ سیاسی معاملات کا فیصلہ سپریم کورٹ میں نہیں، بلکہ عوام کے ذریعے ہونا ہے ،اس حوالے سے پی ٹی آئی قائدین عوام کو احتجاجی جلسے جلوسوں کی کال دے رہے ہیں ، اس حکمت عملی کے ردعمل میں اپوزیشن جماعتیں بھی جارحانہ انداز اختیار کرتی نظر آتی ہیں اور ایک دوسرے پر الزام تراشی

اور بلیم گیم کا سلسلہ شدت اور سرعت کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔اس صورتحال میں یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ موجودہ غیریقینی کی فضا کا جلدازجلد خاتمہ نہ ہوا تو ٹریک پر چڑھی جمہوریت کو ایک بار پھر سنگین نقصانات سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے،حزب اقتدار اور حزب اختلاف پارلیمان کا معاملہ عدالت اعظمیٰ میں لے آئے ہیں،

اس میں اب فیصلہ کن کردار سپریم کورٹ نے ہی ادا کرنا ہے کہ جو آئین کے تحفظ و تشریح کی بھی مجاز اتھارٹی ہے، اس زیرسماعت کیس میں سپریم کورٹ کے فاضل بنچ نے تمام فریقین کو سن کر اور ٹھوس ثبوت و شواہد حاصل کرکے ہی فیصلہ صادر کرنا ہے ،جبکہ ملک میں امن و امان یقینی بنانے کے معاملہ میں بھی فاضل چیف جسٹس اپنے تجسس کا اظہار کر چکے ہیں اور ریاستی اداروں کو ضروری احکام بھی جاری کر چکے ہیں

،اس لئے تمام فریقین کیلئے مناسب یہی ہے کہ اپنے طرز عمل سے افراتفری مزید بڑھانے کے بجائے صبروتحمل کا مظاہرہ کریں اور متعلقہ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کا انتظار کریں، اگر انکے جارحانہ طرز عمل کی بنیاد پر سسٹم کی بقاء ور ملک کی سلامتی پر کوئی حرف آیا تو اسکی تمام تر ذمہ داری بھی انہی پر عائد ہوگی۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پارلیمان کے معاملات پارلیمان میں ہی طے ہوتے رہیں تو جمہوریت پر کوئی آنچ آنے کا ڈر نہیں رہتاہے ،،مگر ہمارے ہاں بار ہا سیاسی معاملات کو عدالتوں میں ہی گھسیٹا جاتا رہاہے ،حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ سیاسی تنازعات کبھی عدالتوں میں طے نہیں ہوتے ہیں،عدالتیں قانونی اور آئینی اختلاف ضرور دور کرتی ہیں،مگر سیاسی اختلافات کا حل پارلیمان میں ہی ممکن ہوتا ہے،

اگرسیاسی جھگڑے پارلیمنٹ میں نہ نمٹائے جاسکیں تو تمام سیاسی جماعتیں نئے مینڈیٹ کے لیے عوام کے پاس چلی جاتی ہیں،پی ٹی آئی عوام سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے، متحدہ اپوزیشن وقت ضائع کرنے اور پوائنٹ سکورنگ کے لیے جھگڑا بڑھانے پر جتنا وقت خرچ کرے گی، اس کے لیے مسائل اتنے ہی بڑھتے ہی جائیں گے۔
بلا شبہ اپوزیشن آئندہ انتخابات میں ملک دشمن طاقتوں کی آلہ کار والی شناخت لے کر داخل نہیں ہونا چاہتی ہے،لیکن اس سیاسی جھگڑے کا تصفیہ بھی سیاسی جماعتوں نے خود ہی مل بیٹھ کر حل کرنا ہے ،اگر ایک دوسرے پر غداری کے الزامات ایسے ہی لگائے جاتے رہے تو حالات مزید بگڑتے جائیں گے،

سیاسی قیادت کو الزام برائے الزام تراشی کی سیاست سے باہر نکلنا ہو گا ، اس وقت جو ریاست بیرونی مداخلت کی وجہ سے سیاسی بحران کا شکار ہورہی ہے، اس کی سلامتی کو لاحق دیگر خطرات بھی بیرونی قوتوں کے ایما پر مزید اُبھر سکتے ہیں، اس سیاسی بحران کی اصلاح سیاسی طریقے سے ہی ممکن ہے ،

حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے لیے مناسب ترین عمل اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے شفاف انتخابات کے ذریعے نیا مینڈیٹ لینا ہے ،اس عمل کو جتنا جلداز جلدقبول کرلیا جائے، سبھی کے لیے فائدہ مند ہوگا،ورنہ یہ بڑھتا سیاسی انتشارجمہوریت کو لے ڈوبے گا اور پھرکسی کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں