قومی مفاد میں اَنا کی قر بانی!
کالم :صدائے سحر
تحریر :شاہد ندیم احمد
تحریک عدم اعتماد جمہوری عمل کے ذریعے کسی سنگین جرم یا کوتاہی کی مرتکب حکومت کو پرامن طریقے سے رخصت کرنے کا ایک آئینی طریقہ ہے،پاکستان کی سیاسی تاریخ میں چند ہی بار تحریک عدم اعتماد کا استحقاق استعمال کرنے کی نوبت آئی ہے ،مگر اس ذریعے کبھی کسی وزیر اعظم کو ہٹایا نہ جا سکا
،لیکن اس بار بڑے ہی پر اسرارانداز سے وزیر اعظم کو ہٹا دیا گیا ہے، اس نوع کی تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے ساتھ عام طور پر ایک چارج شیٹ منسلک کی جاتی ہے، اس بار چارج شیٹ تو کوئی نہیں تھی، بس متحدہ اپوزیشن کے ذریعے چند ہفتوں کا ایک کا میاب پراسرار ایکشن کرویاگیاہے، اس کے بہت سے تاریک گوشے ہیں کہ جو گزرتے وقت کے ساتھ مستقبل میں ضرورسا منے آتے رہیں گے۔
یہ حقیقت کوئی مانے یا نہ مانے کہ تحریک عد م اعتماد کے پیچھے سازش کار فرمارہی ہے ،اس ملک کی سیاست میں سازش کے ذریعے کوئی پہلی حکومت تبدیل نہیں ہوئی ہے ،اس سے قبل بھی سیاسی حکومتیں تبدیل کی جاتی رہی ہیں ،اس بار فرق اتنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب بنائی گئی ہے ،
عمران خان کا قصور یہ ہے کہ اس نے دو عشروں کی ان تھک محنت اور جدوجہد سے نہ صرف پاکستان کی روائتی سیاست کو تبدیل کیا ،بلکہ آزاد خارجہ پا لیسی کا نعرا بھی لگایا ہے جو اندرونی قوتوں کیلئے قابل قبول ہے
نہ بیرونی قوتیں برداشت کر سکتی ہیں ،اس لیے عمران خان کو ہٹانے کیلئے نہ صرف اپوزیشن کو متحد ہ میں تبدیل کرکے تحریک عدم اعتماد پیش کروائی گئی ،بلکہ اسے پہلی بار کا میاب بھی کرایاگیا ہے ،یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیںرہی ہے کہ تحریک عدم اعتماد لانے اور کامیاب بنانے کے پس پردہ کونسی قوتیں کار فرما رہتی ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ اس ملک کی روائتی سیاست دائیں اور بائیں بازو کے نظریات کی کشمکش سے آگے بڑھتی رہی ہے،دائیں بازو کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ اور مذہبی سیاست کرنے والی جماعتیں بطور اتحادی سرگرم رہیں،جبکہ بائیں بازو کی جماعتوں کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور آزادانہ معاشی پالیسیوں کی علمبردار سمجھا جاتارہا ہے
،مسلم لیگ( ن) اور پیپلز پارٹی ان دونوں کی فکری نمائندگی کرتی ہیں،سیاست میںعمران خان کی آمد نے ایک تیسرا سیاسی رجحان پیدا کیا،انہوں نے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں اور ان کی حکومتوں میں ہوئی بدعنوانی‘ بدانتظامی اور عوامی استحصال پر قوم کی توجہ مرکوز کروائی ہے،عمران خان کو اقتدار میں لانے والی قوت ایک ایساعام آدمی تھا کہ جو کسی حکومت کی نظر کرم کے لائق نہیں رہا تھا۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پا کستان کے ایک عام آدمی نے عمران خان سے تبدیلی کی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں ،عمراں کان بھی عوام کی زندگی میں تبدیلی لانے کا خواہاں رہا ہے ،مگراسے اقتدار میں آنے پر معلوم ہوا کہ خزانہ خالی ہے،زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہیں،گزشتہ حکومتوں نے بھاری قرضے لے کر معاشی بحالی کے امکانات معدوم کر دیے ہیں،اس صورت حال کے پیش نظر عمران خان کو اپنے وعدے توڑنا پڑے،انہیں مجبوراََآئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا ،یوں عالمی اداروں
کی بچھائی بساط میں آگئے،عمران خان 50لاکھ گھر بنا سکے نہ ایک کروڑ نوکریاں دے سکے،وہ پولیس اصلاحات کر سکے نہ انتظامی بہتری لاسکے،انہوں نے ایسے افراد کو اپنی ٹیم میں شامل کیا کہ جو کام کرنے کی بجائے صرف بیانات سے کام چلاتے رہے ہیں۔یہ ماننا پڑے گا کہ تحریک انصاف حکومت سے عام آدمی نے
جو توقعات وابستہ کی تھیں، وہ پوری نہیں کی جاسکیں ہیں، لیکن اس کامطلب قطعی نہیں ہونا چاہئے کہ ان کی حکومت کے خلاف سازش کی جائے اور مقرہ مدت پوری نہ کر نے دی جائے ،گزشتہ ادوار میں بھی وزرائے اعظم کو اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی اور اس دور میں بھی وزیر اعظم کو تحریک
عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیج دیا گیا ہے ،لیکن اس میں آلہ کار کوئی غیر نہیں اپنے سیاسی لوگ ہی بنے ہیں ،سیاسی قیادت ایک طرف جمہوری روایات و پاسداری کی باتیں کرتے ہیں تو دوسری جانب اپنے مفادکیلئے جمہوریت کے نام پر جمہوریت کا گلا گھوٹنے سے دریغ نہیں کرتے ہیں،جمہوریت کے انہیں ٹھیکیداروں نے ایک بار پھر ایک منتخب وزیر اعظم کو اپنے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا ہے
،اس غلامانہ ذہنیت کا نقصان جمہوریت کے ساتھ ملک و عوام کو اُٹھانا پڑے گا۔یہ ملک ہمارا ہے،اس ملک کا ہر دکھ درد بھی ہمارا ہے، اس ملک کی ہر مسکراہٹ ،ہر خوشی بھی ہماری ہے، اس لیے ہم پر فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم اپنے ملک کو سیاسی تماشہ نہ بنائیں، آخر قومی غیرت بھی کوئی چیز ہوتی ہے ، قومی غیرت کوئی خالی لفظ نہیں ، بلکہ اس میں ہمارے لیے ایک راستہ موجود ہے، ایک ایسا راستہ کہ جس پر چل کر ہم تمام بحرانوں کے
دلدلوں سے باہر نکل سکتے ہیں، یہ بحران ہمارے لیے صرف بدنامی کاباعث نہیں، بلکہ اس سے سیاسی ومعاشی اتنا زیادہ نقصان ہورہا ہے کہ جس کا ازالہ کرنے میں بہت وقت لگ جائے گا، کاش! ہم اس آسان سی بات کو سمجھیں کہ کسی بھی چیز کو توڑنے میں وقت نہیں لگتا ،مگر کسی چیز کو جوڑنے میں بہت سارا وقت لگ جاتا ہے۔
بلا شبہ یہ ملک بڑی محنت ،بڑی قربانیاںدیے کر بنا ہے ، اس ملک کو بگاڑنے میں ان قوتوں کو کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی کہ جنہوں نے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے لیے ملکی مفادات کو بالائے طاق رکھا ہے، کیا ہمیں ہماری حب الوطنی یہی سبق دیتی ہے؟ کیا ہماری ذاتی انا ہماری قومی انا سے زیادہ اہم ہے؟ ہمارے سامنے جب ذاتی مفادات کی بات آتی ہے تو ہمارے سیاسی رہنما ذاتی انا کو بھول جاتے ہیں، تب انہیں
کچھ یاد نہیں رہتا کہ انہوں نے کل ایک دوسرے کے بارے میں کیا کچھ کہا تھا، مگر جب قومی مفادکی بات آتی ہے تو انہیں اپنے پرانے جھگڑے اور ماضی کی تلخیاں یاد آ نے لگ جاتی ہیں،کیا ہم اپنے ذاتی مفادات چھوڑ کر ملک کے لیے ایک بار عظیم قربانی کا مظاہرہ نہیں کرسکتے ؟ کیا ہم ایک بار آپس میں مل بیٹھ کر ایک نئے آغاز کا سنگ میل نہیں رکھ سکتے؟ کیا ہم نئی امنگ کے ساتھ اپنے ملک کے عظیم تر مفاد میں ایک دوسرے کو معاف نہیں کرسکتے؟ ہم قربانی کی باتیں تو بہت کرتے ہیں، مگر اس ملک کے مفاد میں اپنی انا کی قربانی دینے کے لیے تیار نہیںہیں۔