37

روپے کے زوال کی کہانی

روپے کے زوال کی کہانی

دھوپ چھا ؤں
الیاس محمد حسین

برطانیہ کے ایک مشہور فلاسفر جان ملٹن نے سولہویں صدی میں اپنی کتاب گْمشدہ جنت میں کامیابی کے دو اصول بتائے تھے جان ملٹن نے کہا تھا’’Awake, arise or be forever fall’n.’’ یعنی اْٹھو اور چھا جاؤ یا fall forever۔_ جان ملٹن کے اس مصرعے کی روشنی میں ہمارا پاکستانی روپیہ قیام پاکستان سے لیکر اب تک کامیابی کے دوسرے رہنما اصول پر قائم رہتے ہْوئے اپنے سفر پر رواں دواں ہے

اور مسلسل گر رہا ہے۔ یہ سال دوسال کی بات نہیں پاکستانی روپے کے زوال کی کہانی پون صدی تک پھیلی ہوئی ہے 1947 سے 2022 تک ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کس حکمران کے دور میں کتنا گرا اس آرٹیکل میں ہم پاکستانی رویے کا 1947 سے آج تک کا زاوال کا سفر ذکر کریں گے اور جانیں گے کہ کس حکمران کے دور میں ہمارا روپیہ کتنا گرا تاکہ ہمیں سمجھنے میں آسانی ہو کہ آج تک کے حکمران کیسے معیشت پر اثر انداز ہْوئے۔

آپ سب کو یہ جان کر خوشی ہوگی کے 14 اگست 1947 سے1953میں جب پاکستان معرض وجود میں آیا اور قائد اعظم محمد علی ؒجناح پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے تو ایک ڈالر ایک رویے کا تھا اور ان کے دور ِ حکومت میں کرنسی مستحکم ہونے کی وجہ سے روپے کی قدر ایک روپے ہی برقراررہی

۔ پاکستان کے پہلے وزیر ِ اعظم لیاقت علی خان قائداعظم کے انتقال کے بعد پاکستان کے پہلے وزیراعظم جناب لیاقت علی خان اپنی شہادت سے پہلے 1951 تک پاکستان کے وزیراعظم رہے اور روپے کی قدر میں کوئی کمی نہ ہوئی ڈالر اور روپے کی قیمت برابربرقراررہی اور یوں مستقل 1 روپے کا ہی رہا۔ وزیر ِ اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کے انتقال کے بعد خواجہ ناظم الدین 1951 سے 1953 تک پاکستان کے وزیر اعظم رہے اور ان کے دور میں رویے کی قدر میں 200 فیصد کمی ہوئی اور ایک ڈالر 3 روپے کا ہو گیا۔
خواجہ ناظم الدین کے بعد ملک غلام محمد اور سکندر مرزا کا دور 1960 ء تک رہا مگر یہ رویے کی قدر میں کوئی کمی نہ کر سکے، شائد انہوں نے جان ملٹن کو نہیں پڑھا تھا جن کے مطابق کامیابی کا دوسرا اصول ہمیشہ گرتے رہنا ہے چنانچہ پاکستانی روپیہ مستقل مزاجی سے 1960 ء تک ایک ڈالر تین روپے پر کھڑا رہا۔ لیکن یہ صورت ِ حال اگلی حکومت تک ہی برقراررہی پھر جب فیلڈ مارشل یوب خان کے بعد یحییٰ خان 1972 ء تک پاکستان کے صدر رہے اور ان کے دور میں ڈالر ایک روپے اضافے کیساتھ 5 رویے کا ہو گیا
1960 ء سے لیکر 1969 ء تک جنرل ایوب خان پاکستان کے صدر رہے جن کے پہلے 7 سال روپے کی قدر میں کوئی کمی نا ہوئی اور مگر 1968 ء میں پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں4 رویے کا ہوگیا، صدو ایوب کے دور میں پاکستان کے 2 بڑے ڈیم پہلا منگلا ڈیم جو 1965 میں مکمل ہْوا اور دوسرا تربیلا ڈیم جس کی تعمیر کا کام 1968 ء میں شروع ہْوا اورجس پر 1.49 بلین ڈالر لاگت آئی رویے

کو کوئی خاص نقصان نہ پہنچا سکا۔ پھر 1972 ء سے لیکر 1977 ء تک ذولفقار علی بھٹو کا دور رہا وہ صدرِ پاکستان اور بعد میں وزیر اعظم منتخب ہوئے اور ان کے دور میں رویے کو خواجہ ناظم الدین کے دور کے بعد دْوسرا بڑا جھٹکا لگا اور ڈالر سیدھا 5 روپے سے 10 روپے پر چلا گیا یعنی ڈالر ڈبل قیمت کا ہوگیا جو ملکی معیشت کے لئے بدحالی کی علامت بن گیا یہ وہ دور تھا جس میں شائد ہمارے سیاست دان

اس راز کو سمجھ گئے تھے کے مسلسل زوال بھی کامیابی ہے۔پھر 1990 سے 1993 تک میاں نواز شریف پاکستان کے وزیر اعظم رہے اور انہوں نے بھی کامیابی کا سفر بقول جان ملٹن زوال کی شکل میں جاری رکھا اور جاری رکھا اور اپنے اس تین سالہ دور میں ڈالر کو 22 سے 30 روپیہ تک کا کر دیا۔
ذورلفقار علی بھٹو کے بعد جنرل ضیا ء الحق منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر پاکستان کے صدر کے عہدے پر براجمان ہْوگئے اور 1988 تک پاکستان کے صدر رہے ان کے11 سالہ دور میں روپیہ مزید گرتے گرتے ایک ڈالر کے مقابلے میں 20 رویے کا ہوگیا۔ صدرضیا ء الحق کا ایک طیارہ حادثے میں ان کااچانک انتقال ہوا تو اس کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو 2 سال تک پاکستان کی وزیراعظم رہیں اور ان کے دور میں ڈالر 20 سے

بائیس رو یے تک چلا گیا۔1996 سے 1999 تک میاں نوازشریف پھر اقتدار میں آئے اور ان کی حکومت نے ڈالر کو 40 سے 52 تک پہنچا دیا اور زوال کی صورت میں کامیابی کا سفر جاری اور ساری رکھا۔جنرل مشرف 1999 سے 2007 تک اقتدار کا حصہ بنے مگر ڈالر کی قدر میں نمایاں کمی کرنے میں ناکام رہے ان کے10سالہ دور ِ حکومت میں ڈالر صرف 9 رویے اضافے کیساتھ 52 رویے سے 61 روپے تک گیا۔
اس کے بعد 2007 سے 2012 تک پیپلز پارٹی ایک دفعہ پھر حکومت میں آئی اور تاریخ میں پہلی دفعہ کسی سیاسی جماعت نے زرداری صاحب کی صدارت میں 5 سال مکمل کیے اور ڈالر کو 61 روپیہ سے 100 رویے تک پہنچا دیا اور ساتھ ہی 1947 سے 2007 تک پاکستان نے جتنا قرضہ لیا تھا انہوں نے اپنے 5 سالہ دور میں اْس قرضے کو ڈبل کر کے پاکستان کی ترقی میں ایک ایسا بوسٹر دیا جو تاریخ کبھی

فراموش نہیں کرے گی۔ صدر آصف علی زردری کے دور کے بعد میاں نوازشریف تیسری مرتبہ اقتدار میں آئے اورملکی تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ لیکر قوم کو کامیاب کر دیا اور ساتھ ہی ڈالر کو 120 تک کر کرکے ہمیں زوال میں کامیابی کے نئے راستوں پر گامزن کر دیا۔تحریک ِ انصاف کے سربراہ عمران خان پاکستان کے سابق وزیر اعظم ہو چکے ہیں انہوںنے گذشتہ 3 برسوںمیں ملکی تاریخ کے سب سے بڑے قرضے لے

کر ملکی معیشت کا دھڑن تختہ کردیاہے اور ڈالر ان کے اقتدار کے آخری دنوں میں س 190 کو چھو گیا تھا پھرتحریک ِ عدم اعتماد کے نیتجہ میں میاںشہبازشریف کے وزیر ِ اعظم بننے سے روپے کو کچھ استحکام نصیب ہوا عمر ان خان کے مخالفین کاالزام ہے کہ موجودہ حکومت نے غیرملکی قرضے لیتے وقت IMFکا مطالبہ تسلیم کرلیاہے کہ روپے کی قدر کم کی جائے ا واللہ عالم بالصواب دیکھنا اب یہ ہے کہ میاںشہبازشریف کی حکومت معیشت کے استحکام اور روپے کی قدر میں اضافہ کے لئے کیا کرتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں