یکم مئی یوم مزدور
پاکستان میں عام لوگوں کے علاوہ محنت کش طبقات کی ایک بہت بڑی تعداد مزدوروں کے عالمی دن کی تاریخ سے واقف نہیں۔ ٹریڈ یونینوں کے گنے چنے کارکنان اور رہنما کسی حد تک اس عالمی دن کی تاریخ سے آگاہ تو ہیں مگر تفصیلات سے آگہی کم ہی ہے۔ کچھ تو اسے صرف ایک چھٹی کے طور پر ہی جانتے.
اور اکثر اوقات مزدور ان حادثوں میں ہلاک بھی ہو جاتے تھے۔ جس طرح آج بھی پاکستان جیسے دیگر ممالک میں صنعتی اداروں میں ہونے والے حادثات میں مزدورں کے ہلاک اور زخمی ہونے کے اندوہناک واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جب دنیا مین اٹھارویں صدی کے وسط تک سوشلزم کے نظریات تیزی سےعام محنت کشوں میں مقبول ہو رہے تھے
تو اس وقت مغربی ممالک میں مختلف قسم کی سوشلسٹ تنظیمیں معرض وجود میں آ رہی تھیں. جو محنت کشوں کو منظم کرنے کی جستجو کرتی تھیں۔ ایسی ہی ایک امریکی تنظیم جس کا نام تھا فیڈریشن آف آرگنائزڈ ٹریڈ اینڈ لیبر یونین تھا (جو بعد میں امریکن فیڈریشن آف لیبر) کہلائی نے 1884ءمیں اپنے ایک کنونشن میں منظور ہونے والی ایک قرارداد میں طے کر دیا کہ یکم مئی 1886ءکے دن سے مزدوروں کے لئے ایک دن کا کام صرف آٹھ گھنٹے پر مشتمل ہو گا۔ اور یہی ان کے قانونی اوقات کار ہوں گے
۔ انہوں نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ اس مقصد کے لئے ہڑتالوں اور مظاہروں سے بھی کام لیا جائے گا۔ اور مئی 1885ء میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ محنت کش شکاگو اور دیگر امریکی شہروں میں آٹھ گھنٹے کام کے مطالبہ کی جدوجہد میں شریک بھی ہوئے۔ یکم مئی اب امریکی محنت کشوں کے لئے ایک ایسا دن بن کر ابھر رہا تھا جس سے آٹھ گھنٹے کام کو قانونی حیثیت مل سکتی تھی۔ یکم مئی 1886ءکو امریکہ کے تین لاکھ مزدور جن کا تعلق بہت سے صنعتی اداروں سے تھا مظاہروں میں بھی شریک ہوئے مطالبہ ایک ہی تھا ”
کام صرف آٹھ گھنٹے روزانہ” یکم مئی یعنی لیبر ڈے کو دنیا بھر میں منایا تو جاتا ہے لیکن اس کے پس پردہ حقائق اور یادیں بڑی تلخ ہیں اور ہمیں ان حقائق کو اجاگر کرنا چاہیے.. جسے آج کل کے حالات اور پوری دنیا میں کورونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے جہاں تاجر طبقہ متاثر ہو رہا ہے اور دنیا بھر کے مزدور بہت زیادہ پریشان ہو رہے ہیں اور دنیا بھر میں الگ الگ تاریخوں کو الگ الگ چیزوں سے منسوب کیا جا رہا ہے ۔
اور اس واقعہ کا مقدمہ 21 جون 1886 کو کریمنل کورٹ میں چلا۔ دفاع میں کسی کو صفائی پیش کرنے کی اجازت نہیں تھی۔.. اٹارنی جنرل نے عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ سماج کو بچانے کے لیے ان مزدوروں کو سزا دی جائے. اور پانچ مزدور رہنماؤں کو سزائے موت سنائی گئی۔اسکے علاوہ کئی اور مزدوروں کو بھی سزائیں سنائی گیں ۔11 نومبر 1887 کو مزدور رہنماؤں اینجل، اسپائز، پارسنز اور فشر کو پھانسی دے دی گئی، ان میں سے صرف دو افراد امریکی شہری تھے باقی انگلینڈ، آئرلینڈ اور جرمنی کے شہری تھے۔
ان رہنماؤں کے جنازے میں 6 لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔. 1889میں پیرس میں ’انقلاب فرانس‘ کی صد سالہ یادگاری تقریب کے موقعے پر ریمونڈ لیونگ نامی رہنماء نے یہ تجویز رکھی کہ 1890 میں شکاگو کے مزدوروں کی برسی کے موقع پر عالمی طور پر احتجاج کیا جائے۔ یوم مئی عالمی طور پر منانے کے لیے اس تجویز کو باقاعدہ طور پر 1891 میں تسلیم کر لیا گیا۔ اب دنیا بھر میں قانونی طور پر 8 گھنٹے کی ڈیوٹی کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ یکم مئی کو دنیا کے کچھ ممالک لیبر ڈے کے طور پر مناتے ہیں
جن ممالک میں لیبر ڈے یکم مئی کو منایا جاتا ہے ان میں ارجنٹائن، بولیویا، برازیل، بحرین، بنگلہ دیش، کمبوڈیا، پاکستان اور چین میں لیبر ڈے بھی یکم مئی کو منایا جاتا ہے۔لیکن امریکا کی مختلف ریاستوں میں اکتوبر کے پہلے ہفتے میں کسی ایک روز لیبر ڈے منایا جاتا ہے۔اسی طرح بہاماس میں لیبر ڈے کی سات جون کو چھٹی کی جاتی ہے. آسٹریلیا ،نیدر لینڈز نیوزی لینڈ اور کینیڈا میں یہ دن ستمبر کے پہلی پیر کو منایا جاتا ہے
۔انگلینڈ میں یوم مئی کی چھٹی ہوتی ہے لیکن بینک بند نہیں ہوتے اور کمیونسٹ ممالک میں یوم مئی کو فوجی پریڈز کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں مزدوروں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے حکومتی سطح پر یکم مئی کو یوم مزدور کے طور پر منایا جاتا ہے. جبکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت اب ختم ہوتی جا رہی ہے مزدوروں کے حق کی لڑائی لڑنے والی ٹریڈ یونین اب تاریخ ہوتی جا رہی ہیں.
آج سرکاری اداروں میں ہر چیز ٹھیکہ پر دے دی گئی ہے اور نجی اداروں میں ٹریڈ یونین کا کوئی کلچر نہیں ہے ۔تاریخ کا یہ اہم دن اب خود تاریخ ہوتا جا رہا ہے. مزدور حکومت سے خصوصی اقدامات کے متقاضی ہیں تاکہ پہلے ہی سے روزی روٹی کے مسائل سے نبرد آزما محنت کشوں کو مزید آزمائشوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔بس اب مزدور بھی حکمرانوں سے یہ ہی مطالبہ کرتے نظر اتے ہیں.
“بوجھ کندھوں سے کم کرو صاحب”
فقط دن منانے سے کچھ نہیں ہوتا.