حکومت کی تبدیلی اور سیاسی عدم استحکام!
ملک میں دو بڑی سیاسی جماعتیںپاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کی ایک ایسی مشترکہ حکومت قائم ہوگئی ہے کہ جسے ایک درجن کے قریب چھوٹی جماعتوں کی تائید حاصل ہے، ایک سیاسی اتحاد کی حکومت قائم ہو گئی ،مگر سابق وزیراعظم عمران خان اپنی برطرفی کے اقدام کو خوش اسلوبی سے قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں اور وہ پورے سیاسی نظام کودائو پر لگانے کے درپے ہیں،
وہ اب سڑکوں پرنکل کر ایک ایسی حکومت گرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جسے ایک غیر ملکی سازش کے ذریعے اقتدار میں لائی گئی امپورٹڈ حکومت قرار دیتے ہیں۔اس میں شک انہیں کہ عمران خان کے قوم پرستی کے بیانیے سے ان کی حمایت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے ، تحریک انصاف کے بیا نئے کے سامنے لوگ ان کی ناقص کا کردگی بھی بھول چکے ہیں ،ملک بھر میں ان کے جلسے، جلوسوں میں بڑی تعدادمیں لوگ شریک ہورہے ہیں،
عمران خان کو بنیادی طور پرعام آدمی کے ساتھ تعلیم یافتہ نوجوانوںکی حمایت بھی حاصل ہے کہ جو اقتدار کی سیاست پر خاندانی کنٹرول سے مایوس ہو چکے ہیں،پاکستان تحریک انصاف کی مہم کا بنیادی مقصد حکومت کو جلد انتخابات کرانے پر مجبور کرنا ہے،جبکہ موجودہ حکومت کسی صورت فوری انتخابات کرونے کیلئے تیار نہیں ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ ایک طویل سیاسی کش مکش کے بعد حکومت کی تبدیلی سیاسی استحکام کا سبب بننی چاہیے تھی، لیکن نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی سیاست ہلچل میں ابھی تک اس بات کا تعین نہیں ہوسکا ہے کہ موجودہ حکومت جلد انتخابات کے راستے پر جائے گی یا اپنی مدت پوری کرے گی، یہ اس بات کا مظہر ہے
کہ سیاسی کشیدگی میں کوئی کمی ہوئی ہے نہ آئندہ کوئی کمی کے آثار دکھائی دیتے ہیں ،بلکہ اس کی شدت میں مزید اضافہ ہی دیکھائی دیے رہا ہے ،اس سیاسی انتشار کا خاتمہ عام انتخابات کے انعقاد سے ہی ممکن ہے ،تاہم ایسا لگنے لگا ہے کہ نئے انتخابات بھی سیاسی بحران کا خاتمہ نہیں کر پائیں گے
،کیو نکہ اس انتخابی عمل کے بارے میں بھی شبہات پائے جاتے ہیں۔یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ ہر دور اقتدار میں انتخابی اصلاحات کی باتیں ضروری کی جاتی رہی ہیں ،مگر اس ضروری عمل میں کسی نے بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے ، مو جودہ حکومت اب انتخابی اصلاحات کے پیچھے چھپنے کی کوشش کررہی ہے،جبکہ تحریک انصاف کسی صورت انتخابات میں دیری کیلئے تیار نہیں ہے ،
،بار بار وہی غلطیاں دہرائی جارہی ہیں ،اس کی وجہ سے ایک طرف سیاسی قائدین کی بدعنوانی اور نااہلی دنیا کے سامنے عیاں ہورہی ہے تو دوسری جانب سیاسی خلاء بڑھتا جارہا ہے، اس خلا کو پْر کرنے والے اجتماعی دارے باالخصوص حقیقی سیاسی جماعتوں کا کوئی وجود ہی نہیں ہے،ہر طرف مفاد پرستانہ دھڑے نظر آتے ہیںکہ جو اپنے مفادکے حصول میں گھات لگائے بیٹھے ہیں،اس دھڑے بندیوں اور سیاسی کش مکش نے ریاستی ادارے کی ساکھ مجروح کرکے رکھ دی ہے۔
اس سیاسی بحران میں یہ بات واضح ہوگئی ہے
کہ عدلیہ کے پاس بھی سیاسی مسائل کاکوئی مستقل حل نہیں ہے، اس سے نئی پیچیدگیاں پیدا ہورہی ہیں، پارلیمانی مسائل کا حل پارلیمان میں ہی ہونا چاہئے ،ناکہ عدالت عظمیٰ میں لایا جائے
،اس سے پا رلیمان کی سپر میسی پر بھی سوالات اُٹھنے لگتے ہیں ، سیاسی قیادت ادارہ جاتی حدود کی باتیں تو بہت کرتے ہیں،
مگر عملی طور پر خودہی ادارتی مداخلت کا باعث بنتے ہیں،یہ سیاسی قیادت ہی کی کمزوری ہے کہ کبھی سامنے اور کبھی پس پردہ مداخلت کی دعوت دی جاتی رہی ہے ، یہ پس پردہ مداخلت کا ہی نتیجہ ہے کہ ایک طرف سیاسی قیادت دست گریباں ہے تو دوسری جانب سیاسی انتشار جمہوریت کیلئے خطرہ بنتا جارہا ہے۔
ملک کے سیاسی حالات آج جس نہج پر ہیں، کیا اس میں حکومت اور اپوزیشن اکٹھے بیٹھ سکتے ہیں؟ حالات کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے طاقت کے مراکز کے درمیان سنجیدہ ڈائیلاگ کی انتہائی ضرورت ہے،اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ فوج، عدلیہ، سول ملٹری بیورو کریسی، اپوزیشن، حکومت اور سابق سفارتکار و تھنک ٹینکس مل بیٹھیں اور بنیادی ڈھانچہ بنائیں کہ ہم نے آگے کس طرح چلنا اور کس طرح آگے بڑھنا ہے،
موجودہ ناساز گارحالات سے نمٹنے کیلئے سب کو مل کر غیر معمولی اقدامات کرنا ہوںگے، موجودہ سیاسی کشیدگی کا فائدہ ریاست، حکومت، اپوزیشن سمیت کسی کو بھی نہیں ہے، لہٰذا جتنی جلدی ممکن ہو سکے، اس صورتحال سے باہر نکلا جائے اور ملک میںسیاسی استحکام لایاجائے ،دوسری صورت میںدونوں ہاتھوں سے سب کچھ ہی نکل جائے گا اور پھرسب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔