30

سیاسی آگہی ہم مسلمانوں کے لئے ناگزیر

سیاسی آگہی ہم مسلمانوں کے لئے ناگزیر

نقاش نائطی
۔ +966562677707

اللہ کے رسول خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے، نبی آخر الزماں کے منصب تمکنت پر براجمان ہونے سے پہلے، اپنے ابتدائی زندگی کے پورے چالیس سال، اپنی صاف گوئی، ایمانت و امانت داری، وعدہ وفائی، چھوٹوں سے شفقت تو بڑوں کے ساتھ احترام کے اپنے عملی زندگی سے، معاشرے میں اپنی صادق و امین والی الگ پہچان نہ صرف بنائی تھی، بلکہ وہیں پر معاشرے کے کمزور طبقات خصوصا یہودی بے سہارا بیوہ بڑھیاؤں کی کما حقہ خدمات کرتے ہوئے، انسانیت کی رفاعی خدمات کو احسن طریقے عملا” کرکے دکھاتے ہوئے،

اور بعد نبوت اپنے ارشادات سے،”خدمت خلق سے خالق کائیبات کی رضا حاصل کرنے کی رغبت” دلاتے ہوئے،ہم مسلمین کو، صرف اپنی آل اولاد کی پرورش فکر سے اوپر اٹھ کر، قوم و ملت و برادران وطن کی خدمات کے وصف سے آگاہ کیا ہے۔آج کے اس پرفتن دور میں، اگر ہم مسلمان اپنے رسول محمد مصطفیﷺ کے اس رفاعی خدمات کو عملا” اپنائیں تو نہ صرف خدمت خلق سے خالق کائینات کی رضا حاصل ہوسکتی ہے بلکہ اپنے حسن اخلاق و رفاعی خدمات سے برادران وطن کے دلوں میں عزت و تکریمئیت پیدا کرتے ہوئے، انہیں عملی اسلامی دعوت سے روشناس بھی کرتے پائے جاسکتے ہیں

بنگلہ دیشی نوبل انعام یافتہ یونس خان کا مشہور مقولہ ہے کہ کسی بنگلہ دیشی غریب کو اچھے معیار کا کچھ سو روپیے قیمت والا ایک وقت کا کھانا فری میں کھلانے کے بجائے، اسے اتنے ہی روپے میں مچھلی پکڑنے کا جالا یا کانٹا ڈوری تھماتے ہوئے، اسے مچھلی پکڑ بازار میں بیچنے کے روزگار پر لگادیا جائے

تو ایک بے روزگار کو روزگار پر لگاتے ہوئے، اس کی آل اولاد کی رزق کا انتظام کراتے ہوئے، ملک و وطن پر پڑنے والے امکانی بوجھ سے ملک و وطن کو آمان دلائی اور ملک و وطن کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے

اسی طرز پر موجود ارایس ایس، بی جے پی منافرتی سنگھی دور اقتدار میں، مسلم دشمن و اسلام دشمن قوتوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے، شکوے شکایات کرتے بیٹھنے کے بجائے،اس جدت پسند جمہوری دور میں، جمہوری اقدار کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے، غیر تعلیم یافتہ مسلم امہ کی، اپنے رضاراکارانہ فری خدمات سے، مناسب تدریب وتربیت کرتے ہوئے، انکے ووٹر آئی ڈی کارڈ، اور مرکزی حکومتی ھیلتھ انشورنس

پالیسی پر مبنی ایوشمان بھوا ھیلتھ انشورنش کارڈ پس ماندہ غریب و متوسط مسلم طبقہ کے افراد کے بنوا کر، انکے ہاتھوں میں دئیے جائیں تو، ہمارے اپنے ووٹوں کے مناسب آگہی استعمال سے،اس سیکیولر ملک جمنستان بھارت سے,نہ صرف اس سنگھی مسلم دشمن قوتوں کو دور رکھا جاسکتا ہے بلکہ اپنے ہی ادا کئے ٹیکس پیسوں سے غریب ومتوسط طبقہ کے طبی صحتی مسائل بھی بڑے پیمانے پر حل کئے جاسکتے ہیں

بھارتیہ ووٹر لسٹ سے مسلم اور دلت ووٹ دانستہ غائب کروانے کے پیچھے کا راز

انڈو اسلامک کلچرل سینٹر لودھی روڑ نیو دہلی میں منعقد تیسری سماجی لیڈرشپ کانفرنس 2019 میں تقریر کرتے ہوئے، ریاست حیدر آباد کے سرگرم سماجی رضاکار خالد سیف اللہ نے اپنے رضاکار این جی او کی رضاکارانہ سروسز تجربات سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ ان جیسے کچھ اعلی تعلیم یافتگان نے، بھارت کے الیکٹورل نظام کی آگہی عام بھارتیہ مسلمانوں میں کرنے کی نیت سے،بھارتیہ الیکشن

کمیشن کی نیشنل ووٹر لسٹ پر کام شروع کیا تو پتہ چلا کہ 15 کروڑ مسلمانوں میں سے دانستا طور 3 کروڑ مسلم ووٹ اور 4 کروڑ دلٹ ووٹ نیشنل ووٹر لسٹ سے غائب کئے گئے ہیں۔ اس کے پیچھے سب سے بڑا سبب مسلم و دلت ووٹروں میں عدم علمی آگہی یا پچھڑا پن ہے کہ انتخاب سے عین قبل انہیں ووٹوں کی قیمت کا احساس ہوتا ہے

۔ ثانیا سابقہ پچاس ساٹھ سالوں کے درمیان آرایس ایس، بی جے پی اور ان کی ذیلی شدت پسند ھندو تنظیموں کے لاکھوں کروڑوں رضارکاروں کا سوچی سمجھی سازش کے تحت،مسلم و دلت ووٹروں کو،انکے ووٹ سے محروم رکھنا ہے۔ اولا ووٹر لسٹ اندراج مہم دوران یہ سنگھی ذہنیت رضاکار ہزار حیلوں بہانوں سے، مسلم دلت ووٹروں کا اندراج کرنے ہی میں تساہلی کرتے ہیں

دوم مسلم و دلت کا غریب طبقہ اکثر روزگار کے سلسلے میں کرایہ کے مکان و علاقے تبدیل کرتا رہتا ہے اور کم علمی یا کم آگہی کے سبب،اپنا ووٹ نئے علاقے میں منتقل کروانے میں کوتاہی کی جاتی ہے جس سے سنگھی ذہنیت رضاکاروں کی شرارت سے، انکے اپنے علاقے کی ووٹر لسٹ سے ان کی غیر موجودگی میں انکا نام کاٹنے کا موقع مل جاتا ہے تو دوسری طرف انکی تساہلی سے، نئے علاقے کی ووٹر لسٹ میں ان کا نام منتقل ہونے سے بھی رہ جاتا ہے۔ ثالثا سنگھی ذہنیت رضاکار شرارتا”

کسی بھی مسلم دلت ووٹر کا نام ووٹر لسٹ سے ہٹائے جانے کے لئے،الیکشن کمیشن ووٹر لسٹ فارم 7 بھرتے ہوئے، اس کا نام ووٹر لسٹ سے ختم کرنے کی درخواسٹ جمع کراتے رہتے ہیں اصولا” الیکشن کمیشن کو اسے ملی درخواست پر علاقے میں جاکر، تحقیق کرنے کے بعد ہی،اس ووٹر نام کو ووٹر لسٹ سے جارج کرنا ہوتا ہے لیکن چونکہ الیکشن کمیشن سمیت ہر سرکاری افیسز میں سنگھی ذہنیت رضارکاروں کی بھر مار ہواکرتی ہے اس لئے بنا تحقیق کئے ہی، یہ لوگ مسلم دلت ووٹروں کا نام ووٹر لسٹ سےخارج کردیا کرتے ہیں
2017 گجرات انتخابی نتائج پر جب ان رضا کاروں نے، گجرات نتائج توقع کے خلاف بی جے پی جیت تناظر میں تحقیق کی تو پتہ چلا صرف گجرات میں 16 گجرات اسمبلی حلقوں میں جہاں بی جے پی کچھ سو ووٹوں سے تین ہزار ووٹوں کے فرق سے انتخاب جیتی تھی،ان علاقوں میں 20فیصد مسلم ووٹروں کے نام ووٹر لسٹ میں شامل ہی نہیں کئے گئے تھے۔گجرات کا سب سے متنازعہ علاقہ گودھرا جہاں 2017 عام انتخاب

میں صرف 253 ووٹ سے بی جے پی نے فتح حاصل کی تھی اسی گودھرا علاقے میں ایسے 1،800 مسلم گھر ایسے پائے گئے تھے جس میں صرف ایک ہی ووٹ تھا۔ اور یہ کسی شرارت کے بغیر ممکن ہی نہ تھا اگر اس علاقے کے رضاکار پہلے سے تیاری کئے ہوتے اور گم شدہ ووٹروں کے ناموں کا اندراج کئے ہوتے تو، نہ صرف گودھرا میں، بی جی پی شکست پاچکی ہوتی بلکہ آج گجرات پر کانگریس حکومت کررہی ہوتی

تحقیق سے پتہ چلا کہ کرناٹک میں صرف 12 لاکھ گھرانے ایسے ہیں جن میں صرف ایک ہی ووٹ ہے یہ کیسے ممکن ہے ایک ووٹ والے اتنے کثیر تعداد گھرانے موجود ہوں۔ کہیں نہ کہیں جھول ضرور ہے۔ حیدر آباد کے اس این جی او نے اس سلسلے میں ایک تحقیقاتی رپورٹ اخبارات میں شائع کیا کردی کہ مختلف میڈیا پر بازگشت ہوتے ہوتے، عین انتخاب سے پہلے ،الیکشن کمیشن کو ووٹرلسٹ ناموں کا ازسر نو اندراج بڑے پیمانے پر کرنا پڑا۔اور الحمد للہ مختلف رفاعی تنظیموں کے مخلص رضاکاروں کی مدد و نصرت سے،

صرف 3 ہفتہ کی محنت سے 12 لاکھ نئے ووٹر س کا نام ملکی ووٹرلسٹ میں شامل کیا جاسکا۔ ایسے معاملات میں ووٹر لسٹ میں گم شدہ ووٹروں کے اندراج کا مرحلہ غیر تعلیم یافتہ ووٹروں ہی پر چھوڑ دیا جائے تو، اس کا حل نکلنے کی امید تقریبا” معدوم سی ہوکر رہ جاتی ہے۔گم شدہ ووٹر نام طویل اور دقت آمیز اندراج دشواریوں کے پیش نظر، حیدر آباد کی اس این جی او نے، تین نکاتی آسان اور حل طلب ایپ تیار کیا ہے

جسے بھارت کا کوئی بھی شہری آسانی سے ڈاؤن لوڈ کرتے ہوئے، اپنے یا اپنے علاقے کی ووٹر لسٹ میں گم شدہ نام کی معلومات حاصل کرتے ہوئے، از سر نو،اپنا یا کسی اور کا گم شدہ نام دوبار ووٹر لسٹ میں، آن لائیں اندراج کرواسکتا ہے اس کے لئے گم شدہ ووٹر کا پورا نام بمع ادھار کار فوٹو شوٹ کر، اس ایپ کے ذریعہ اندراج کرنے سے یہ غائب شدہ ووٹروں کی پوری تفصیل حیدر آباد موجود ان کے رضاکار مرکز تک پہنج جاتی ہے وہاں سے ان کے رضاکار اسے نیشنل ووٹر لسٹ میں شامل کرانے کوشش میں،

نہ صرف آگے بڑھاتے ہیں،بلکہ ووٹر لسٹ میں غائب شدہ ناموں کے اندراج مختلف مدارج میں دانستہ ہوئی دیری یا تساہلی پر الیکشن کمیشن اعلی حکام سے شکایات کر، غائب شدہ ناموں کو دوبارہ ووٹر لسٹ میں اندراج یقینی بناتے ہیں۔بقول انکے صرف تین ہفتہ کی آن لائین تشہیر اور محنت سے دیش بھر کے تقریبا 7،900 لوگوں نے پلے اسٹور سے نہ صرف یہ غائب شدہ ووٹر ایپ ڈاؤن لوڈ کیا بلکہ ووٹر لسٹ سے غائب 22 ہزار ووٹروں کو دوبارہ ووٹر لسٹ میں اندراج کروانے کے فارمز بھرے گئے

جس میں سے 20 ہزار غایب شدہ ووٹروں کا نیشنل ووٹر لسٹ میں دوبارہ اندراج ہوچکا ہے پورے بھارت کے 30 کروڑ میں سے کم و بیش 20% مسلم ووٹروں کو جو انکے ووٹوں سے محروم کھا گیا ہے اتنے وسیع و عریض بھارت کے 30 کروڑ آبادی والے اس مسئلہ کو کوئی ایک این جی او اپنے طور پر سب حل نکال کر دے، یہ بھی ممکن نہیں ہے اس لئے بھارت کے مختلف صوبے، ڈسٹرکٹ گاؤں شہر سطح کے رضاکار،اپنے طور این جی اوز بناکر،حیدر آباد والی اس این جی او سے رابطہ قائم کرتے ہوئے،

منظم انداز کچھ دنوں کے لئے رفاعی کام کریں تو ہم بھارت کے مسلمان ایک لا تسخیر سیاسی قوت بن کر ابھر سکتے ہیں آج کے اس بدون شغل، مشغول والے مصروف ترین دور میں، شکوے شکایات کا انبار لئے بیٹھنے کے بجائے، عوامی خدمات رفاعی عامہ این جی اوز کے تحت ایسے عوامی خدمات مشن پر عمل آوری سے، نہ صرف قوم و ملت کے بہت سے مسائل حل کئے جا سکتے ہیں، بلکہ قوم و ملت کو سیاسی آگہی دلواتے ہوئے، انہیں سیاسی معشیتی و معاشرتی ترقی کی طرف گامزن کیا جا سکتا ہے۔ وما علینا الا البلاغ
نوٹ 1 :- 2023 گجرات کرناٹک سمیت اہم پانچ ریاستی انتخابات اور 2023 مرکزی انتخابات دوران ہزاروں سالہ گنگا جمنی مختلف المذہبی سیکیولر اثاث سونے کی چڑیا بھارت کی معشیت کو اپنے ناعاقبت اندیش سنگھی منافرتی فیصلوں سے تاراج و تباہ کرتے پس منظر میں ،اس منافرتی دیش کو تباہ کرتی

سنگھی قوتوں سے دیش کو آمان میں رکھنے کے لئے، دیش کی سب سے بڑی اقلیت ، دیش کی آبادی کے پانچویں حصہ ہم 30 کروڑ مسلمانوں کو،سیاسی آگہی ہونی ضروری ہے عین انتخابات سے پہلے تگ و دو کرنے کے بجائے، قبل از وقت ووٹر لسٹ گم شدہ ناموں کے اندراج کے علاوہ نئی نسل کے نئے ووٹروں کا اندراج بھی وقت رہتے کرنا انتہائی ضروری ہے

نوٹ 2:- گو یہ تفاصیل تین سال قبل کی ہیں،کورونا وبا پس منظر نیں اس سمت خام میں یقینا” تساہلی پائی گئی ہوگی پھر بھی تفصیل جاننے کے لئے اس کلپ کو غور سے سنیں اور عملی رفاعی اقدام کے لئے ان سے براہ راست رابطہ قائم کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں