34

عید الفطر اللہ کی نعمتوں کاشکرانہ

عید الفطر اللہ کی نعمتوں کاشکرانہ

تحریر : ذاکرہ انجیلہ زہرا
مشہور و معروف نوحہ خواں ، مرثیہ خواں ذاکرہ آل محمد علہیھما السلام ، راولپنڈی پاکستان

عید الفطر اللہ کی نعمتوں کاشکرانہ اور روزہ داروں کیلئے انعام و تحائف کا دن ہے _ ذاکرہ انجیلہ زہرا

عید الفطر وہ سعید اور اجر والا دن ہے جب انسان اللہ کی نعمتوں سے مالا مال ہو جاتا ہےزاکرہ انجیلہ زہرا نے کہا کہ صبح عید کے دن جنت سے فرزندان رسول کے لئے کپڑے کا آنا۔۔
امام حسن علیہ السلام اورا مام حسین علیہ السلام کا بچپنا ہے چاند رات ہے اور ان اسخیائے عالم کے گھرمیں نئے کپڑے کا کیا ذکر پرانے کپڑے، بلکہ روٹی تک نہیں ہے بچے ماں کے پاس تشریف لائے بچوں نے ماں کے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور عرض کیا اے مادرگرامی مدینہ کے بچچے کل عید کے دن نئے نئے کپڑے پہن کرنکلیں گے اور
امام الا نبیا ص اور خاتون جنت سلام اللہ علیہا کے شہزادے نئے لباس نہ پہنیں گے ہم کس طرح عید منائیں گے ماں کی ممتا تڑپ اٹھی ماں نے کہا بچو فکر نہ کرو ، اپ کے لئے بھی نئے جوڑے اجائیں گے سیدہ نسائ العالمین خاتون جننت سلام اللہ علیہ نے نماز سے فارغ ھو کر بارگاہ رب العزت میں عرض کی اے میرے اللہ اے میرے معبود تیرے محبوب نبی ص کے نواسوں نے مجھ سے نئے کپڑے مانگے ہیں

اے میرے مالک میں نے ان سے وعدہ کیا ہے میرے اٹھے ھوئے ھاتھوں کی لاج رکھ لے ابھی دعا سے فارغ بھی نہ ھوئے پائی تھی کہ ایک شخص نے دق الباب کیا، دروازہ کھٹکھٹایا فضہ نے پوچھا کون, انے والے نے کہا اہلبیت علیہ اسلام کا درزی شہزادوں کے لئے نئے کپڑے لایا ھوں فضہ دروازہ پرگئیں ایک شخص نے ایک بقچہ لباس دیا، فضہ نے سیدہ عالم س کی خدمت میں اسے پیش کیا اب جو کھولا تو اس میں دوچھوٹے چھوٹے عمامے دوقبائیں ، دوعبائیں غرض کہ تمام ضروری کپڑے موجود تھے

ماں کا دل باغ باغ ہوگیا وہ توسمجھ گئیں کہ یہ کپڑے جنت سے آئے ہیں لیکن منہ سے کچھ نہیں کہا بچوں کوجگایا کپڑے دئے سبز جوڑا حسن ع نے پہنا سرخ جوڑا حسین ع نے زیب تن کیا، ماں نے گلے لگا لیا باپ نے بوسے دئیے سرکار دو عالم ص تشریف لائے تو بیٹی سے پوچھا بیٹی کیا تمہیں پتا ہے یہ کپڑے کہاں سے اورکون لے کر ایا ہے

بیٹی نے عرض کیا بابا جان اپ ہی بتا دیں سرکار دو عالم ص نے فرمایا وہ درزی جبرئیل امین تھے جو اللہ کے حکم سے وہ کپڑے لے کر ائے تھےنانا نے دونوں شہزادوں کو اپنی پشت پرسوار کر کے مہار کے بدلے زلفیں ہاتھوں میں دیدیں اور کہا، میرے نونہالو، رسالت کی باگ ڈور تمہارے ہاتھوں میں ہے جدھر چاہو موڑ دو اورجہاں چاہو لے چلو ،

امام حسین علیہ السلام کا عالم نمازمیں پشت رسول پر ھونا۔۔

خدا نے جو شرف امام حسن علیہ السلام اورامام حسین علیہ السلام کوعطا فرمایا ہے وہ اولاد رسول اورفرزندان علی میں آل محمد کے سواکسی کو نصیب نہیں ان حضرات کا ذکرعبادت اوران کی محبت عبادت، یہ حضرات اگرپشت رسول پرعالم نمازمیں سوار ہو جائیں، تو نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا، اکثر ایسا ہوتا تھا کہ

یہ نونہالان رسالت پشت پر عالم نمازمیں سوار ہو جایا کرتے تھے اور جب کوئی منع کرنا چاہتا تھا تو آپ اشارہ سے روک دیا کرتے تھے اور کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ سجدہ میں اس وقت تک مشغول ذکررہا کرتے تھے جب تک بچے آپ کی پشت سے خود نہ اترآئیں آپ فرمایا کرتے تھے خدایا میں انہیں دوست رکھتا ہوں توبھی ان سے محبت کر، کبھی ارشاد ہوتا تھا اے دنیا والو! اگرمجھے دوست رکھتے ہو تو میرے بچوں سے بھی محبت کرو

روضة الشہدا صص ۲۳۶ تا ۲۳۸ طبع بمبئی ۱۳۸۵
. ارجح المطالب ص ۳۵۹ و ص ۳۶۱ ، استیعاب ج ۱ ص ۱۴۴، اصابہ جلد ۲ ص ۱۱، کنزالعمال جلد ۷ ص ۱۰۴، کنوزالحقائق ص ۵۹
. روضة الشہداء ص ۱۸۹ بحارالانوار
کشف المحج
. کنزالعمال جلد ۷ ص ۱۰۷، تاریخ الخلفاص ۱۲۳، اسدالغابہ ص ۱۲، اصابہ جلد ۲ ص ۱۲، ترمذی شریف، مطالب السول ص ۲۴۲، صواعق محرقہ ص ۱۱۴

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں